• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فواد چوہدری نے انوار الحق کاکڑ کے نگران وزیر اعظم بننے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بڑے دنوں کے بعد پاکستان میں کوئی اچھی خبر سنی ہے۔سینیٹر انوار الحق کاکڑ کے وزیر اعظم بننے پر میرا پہلا تاثربھی تقریباً ایسا ہی تھا۔میں نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ان کے وزیر اعظم بننے کی خوشی ہر اس شخص کو ہوگی جو انہیں جانتا ہے۔

یہ پوسٹ پڑھ کر مجھے ایک دوست نے نیب کا ایک کا غذ فارورڈ کیا اورنیچے لکھا کہ ایک اور صادق اور امین۔ میں نے مناسب سمجھا کہ اس کے جواب میں کالم لکھ دیا جائے۔جہاں تک نیب کی بات ہے میں ذاتی طور پر کئی لوگوں کو جانتا ہوں جنہوں نے زندگی بھر کوئی کرپشن نہیں کی مگر نیب کی وجہ سے مہینوں جیل میں رہے۔پہلا نام تو میر شکیل الرحمن کا ہے جنہیں نیب نے طویل عرصہ تک بے گناہ حراست میں رکھا۔ دوسرا نام اسپیکر پنجاب اسمبلی سردار سبطین خان کا ہے، جنہیں دو ماہ جیل میں گزارنے پڑے۔ حالانکہ بالکل بے گناہ تھے۔ اسی طرح قیصر امین بٹ کا بھی اس کیس سے کوئی تعلق نہیں جس میں وہ گرفتار رہے۔ اسی لئے نیب میں کسی کا نام آنے کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ وہ شخص صادق و امین نہیں ہے۔انوار الحق کاکڑ کی سب سے پہلی خوبی تو یہ ہے کہ وہ پاکستان کےان دوتین وزیر اعظموں میں سے ایک ہیں جو عام آدمی تھے۔متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کا پاکستان میں وزیر اعظم بن جانا اچنبھے کی بات ہے۔کاکڑ صاحب نے کیریئر کاآغاز اپنے آبائی ا سکول میں ٹیچر کی حیثیت سے کیا۔کتابیں پڑھنے کا انہیں بچپن سے شوق تھا۔سو بہت کچھ پڑھا۔ اس وقت ایک یونیورسٹی کی وزٹنگ فیکلٹی کے ممبر بھی ہیں۔پاکستان کی خارجہ پالیسی پر بہت گہری نظر رکھتے ہیں۔سیاست میں آئے۔دوہزار آٹھ کا الیکشن ہار گئے۔میری ان سے پہلی ملاقات میرے دوست اور کوئٹہ کے اہم ترین صحافی بایزید خان خروٹی کی وساطت سےہوئی۔دوسری مرتبہ اسلام آباد میں بلوچستان ہاؤس میں سابق وزیر اعلیٰ جام کمال کے ساتھ ہوئی۔ معروف کالم نگار ہارون الرشید اور میں رات گئے تک ان کے ساتھ مختلف موضوعات پرگفت وشنید کرتے رہے۔

ان کے والد احتشام الحق تحصیل دار تھے۔ترقی کی مگر جلد دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے۔انوار الحق کاکڑکو نوجوانی میں ملازمت کرنا پڑ گئی مگران کے اندر کچھ بننے کی جستجو بڑی مضبوط تھی۔پھر نظریاتی اعتبار سے بھی وہ خالص پاکستانی تھے اسلئے اسٹیبلشمنٹ کے بھی قریب ہوتے چلے گئے۔اتنے قریب ہوئے کہ وہ نگراں حکومت جس کی ابھی کوئی مدت فائنل نہیں ،اس میں وزیر اعظم بنا دئیے گئے۔انوار الحق کاکڑ کے پیپلز پارٹی کے ساتھ تو کچھ نہ کچھ مراسم ضرور تھے مگر نون لیگ انہیں پسند نہیں کرتی تھی کیونکہ وہ کسی زمانے میں نون لیگ چھوڑ کرق لیگ میں چلے گئے تھے۔یہ بھی واضح طور پرنظر آرہا ہے کہ وہ پارٹیاں جو پچھلی حکومت میں تھیں وہ خوش نہیں ، مجبور ہیں۔ہر پارٹی کے اپنے اپنے امیدوار تھے۔کافی دن میڈیا پر کئی کئی نام آتے رہے۔ کئی لوگوں نے شیروانیاں بھی سلوا لی تھیں۔ وزیروں کے سلسلے میں بھی صورتحال ویسی ہی ہے۔صرف وفاق میں نہیں صوبوں میں شیروانیاں سل رہی ہیں اور ہر پارٹی اپنے اپنے قریبی لوگوں کو وزیر بنوانے کی کوشش کررہی ہے کہ وزیر اعظم نہ سہی کچھ اور اچھے محکموں کے وزیرہی اپنے لوگ بنوا لئے جائیں یعنی کچھ نہ کچھ تو ہاتھ آئے اور انوار الحق کاکڑ اپنی کا بینہ کیلئے بھی اپنی طرح کے لوگ ڈھونڈ رہے ہیں۔

دوسری طرف انوار الحق کاکڑ کے وزیر اعظم بنتے ہی پاکستان کو ایف اے ٹی ایف نے گرے لسٹ سے نکال دیا ہے یعنی معاشی بہتری کے امکانات پیدا ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے بلوچستان کے مسائل میں بھی کمی آئے گی۔مجھے پورا یقین ہے کہ یہ نگراں حکومت پاکستان کو بہت کم وقت میں معاشی استحکام کی طرف لے جائے گی۔اس کی وجہ صرف اتنی ہے کہ یہ لوگ اپنے مفادات کیلئے نہیں ملک کے مفاد کیلئے کام کریں گے۔ پھر اسٹیبلشمنٹ بھی پوری طرح ان کا ساتھ دے گی۔ جب کہ ماضی میں قومی اسمبلی بل بھی ذاتی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے پاس کرتی رہی ہے۔ اچھا ہوا کہ صدر عارف علوی نے انہیں واپس بھیج دیا ہے۔ وہ بل جو نواز شریف اور جہانگیر ترین کے الیکشن میں حصہ لینے کی راہ ہموار کرنے کیلئے تھا۔ اسے سپریم کورٹ نےفارغ کر دیا۔ اب رانا ثنا اللہ نے کہا تو ہے کہ گارنٹی مل گئی ہے کہ نواز شریف کی ضمانت ہو جائے گی اس لئے وہ پاکستان آرہے ہیں مگر یہ نہیں بتایا کہ کس قانون کے تحت ایسا ممکن ہو گا۔ لیکن جو سب سے اچھی اطلاع ہے وہ سینیٹر عرفان صدیقی نے دی ہے کہ نواز شریف کہتے ہیں اسی سال الیکشن ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کی زبان مبارک کرے مگر حالات و واقعات میں کہیں بھی الیکشن ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔میرے خیال میں تو انوار الحق کاکڑ کم از کم ایک سال کیلئے وزیر اعظم بنائے گئے ہیں۔

تازہ ترین