• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹروں اور ڈینٹسٹس کے بارے میں بڑے لطیفے مشہور ہیں۔ مثلاً ایک ڈاکٹر ڈینٹسٹ سے کہتا ہے کہ تم اصل ڈاکٹر نہیں ہو۔ ڈینٹسٹ جواب دیتا ہے کہ نہیں، میں اصل ڈاکٹر ہوں۔جس پر وہ ڈاکٹر کہتا ہے کہ اگر کسی ہوائی جہاز میں دورانِ پرواز کسی مسافر کو دل کا دورہ پڑ جائے تو کیا کرو گے؟ جس پر ڈینٹسٹ کہتا ہے کہ میں اس کے دانت نکالنے میں مدد کر سکتا ہوں۔عارف علوی صاحب پہلے ڈینٹسٹ ہیں جنہیں صدرِ پاکستان بننے کا شرف حاصل ہوا۔

2014ء میں جب عمران خان نے وفاقی دارالحکومت میں دھرنا دیا اور نظامِ زندگی منجمد کیے رکھا، اُس دوران عارف علوی صاحب کی ایک آڈیو سامنے آئی تھی جس میں وہ اپنے پارٹی چیئرمین کو بڑے فخریہ انداز میں بتا رہے تھے کہ پی ٹی وی کی عمارت میں داخل ہو کر سرکاری ٹی وی کی نشریات بند کروا دی گئی ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے اس "کارنامے" پر ان کو شاباش دی اور یہ ہدایات بھی جاری کیں کہ زیادہ سے زیادہ پریشر بنائے رکھیں۔ پہلے تو صرف مارشل لا کے دوران سرکاری ٹی وی کی نشریات بند ہوتی تھیں لیکن اس بار ایک سیاسی جماعت کی غنڈہ گردی کی وجہ سے یہ نوبت آئی تھی۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس سیاسی جماعت کی قیادت اس مذموم حرکت پر شرمندہ ہونے کے بجائے اس پر اتراتی رہی اور مخالفین پر پریشر بنائے رکھنے کی غرض سے مزید سرکاری املاک کو نشانہ بنایا گیا۔عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد جب انہیں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا تو عارف علوی صاحب نے بھرپور کوشش کی کہ اُن کی جماعت کی قیادت کے تعلقات پھر سےکسی بھی طرح مقتدرہ کے ساتھ بحال ہو جائیں۔ اس غرض سے وہ دونوں طرف کی اعلیٰ قیادت کی ایوانِ صدر میں ملاقاتیں بھی کرواتے رہے۔لیکن اسی دوران وہ نئی حکومت کے کاموں، تقرریوں اور بلوں کی منظوری کی راہ میں رکاوٹیں بھی حائل کرتے رہے اور اب تک کر رہے ہیں۔ انہوں نے پہلے ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے ایک غلط مثال قائم کی اور پھر صدرِ مملکت کے اعلیٰ منصب پر فائز ہو کر غلط مثال قائم کی اور کر رہے ہیں۔

دو روز قبل عارف علوی صاحب نے ایک ٹویٹ کی کہ انہوں نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل 2023 ءاور پاکستان آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2023ءپر دستخط نہیں کیے بلکہ انہیں واپس بھیج دیا تھا۔ اُنہوں نے سارا ملبہ اپنے اسٹاف پر ڈالتے ہوئے کہا کہ میں خدا کو حاضر ناظر جانتے ہوئے کہتا ہوں کہ میں نے یہ دونوں بل واپس بھیج دیے تھے۔ اس پر انہوں نے اللہ تعالیٰ سے معافی کی اُمید ظاہر کرتے ہوئے اُن لوگوں سے بھی معافی مانگی جو ان بلوں سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ اس ضمن میں زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ اُن کی یہ ٹویٹ ان بلوں کی منظوری کی خبر کے 27گھنٹے بعد آئی اور اُس ٹویٹ میں بھی یہ بل واپس لینے، کوئی قانونی کارروائی کرنے، اپنے اسٹاف سے تفتیش کرنے یا ان کا احتساب کرنے کی کوئی بات نہیں کی گئی۔ اس ٹویٹ سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ اب یہ بل قانون بن چکے ہیں اور میں اس قانون سازی پر معافی کا طلبگار ہوں۔سوال یہ ہے کہ کیا ان کو 27 گھنٹے بعد اس قانون سازی کی خبر ہوئی جبکہ اس دوران یہ خبر سوشل میڈیا، مین اسٹریم میڈیا اور اخبارات کی زینت بن چکی تھی۔دوسری بات یہ کہ کیا صدرِ پاکستان کی بات نہ ماننے پر ان کے اسٹاف کا کوئی احتساب نہیں ہو گا؟تیسری بات یہ کہ آرٹیکل 75 کے تحت صدرِ مملکت کے پاس کوئی بھی بل موصول ہونے کے بعد اسے منظوری دینے یا اعتراضات لگا کر واپس بھیجنے کے لیے 10 دن کا وقت ہوتا ہےاور اگر وہ یہ دونوں قانونی راستے اختیار نہیں کرتے تو وہ قانون خود بخود عمل میں آجائے گا اور نوٹیفائی ہو جائے گا (کچھ قانونی ماہرین بحث کرتے ہیں کہ وزارت قانون کا یہ موقف درست نہیں ہے)۔ اور اگر بل واپس کردیئے گئے تھے تو ایک دستخط شدہ نوٹیفکیشن جاری ہونا چاہئے تھا جو موجود نہیں۔اس صورتحال سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ یا تو عارف علوی صاحب نے واقعی یہ بل روکنے کی کوشش نہیں کی اور ان بلوں کے قانون بننے کے بعد اپنے لیے محفوظ راستہ تلاش کر رہے ہیں۔ یا پھر یہ کہ بحیثیت صدرِ مملکت اُن کا اپنے ا سٹاف پر کوئی کنٹرول نہیں ہے اور نہ ہی وہ اپنے اسٹاف کا احتساب کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنی ٹویٹ میں اس قانون سازی کےلئے بس اپنے اسٹاف کو ذمہ دار ٹھہرا کر معافی مانگ رہے ہیں۔ دونوں صورتوں میں یہ طرزِ عمل صدرِ پاکستان کے منصب پر فائز کسی بھی شخص کے لیے مناسب نہیں۔اور اگر وہ اتنے بے بس ہیں کہ ان کا اسٹاف بھی ان کے قابو میں نہیں تو انہیں یہ ٹویٹ کرنے کے بجائے بلا تاخیر استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا اور کم از کم 27 گھنٹے کے بعد انہیں فوری بیان جاری کرنا تھا۔ ان کی اس ٹویٹ کے بعد ان پر ہونے والی تنقید کو بعض حلقے اس قانون سازی کی حمایت سے تشبیہ دے رہے ہیں لیکن یہ دونوں معاملات الگ ہیں۔

عارف علوی صاحب نے قربانی دیے بغیر مظلوم اور ہیرو بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن منصبِ صدارت چھوڑے، کوئی ا سٹینڈ لیے، بل کے خلاف نوٹیفکیشن کی موجودگی اور اس قانون سازی کی ذمہ داری قبول کیے بغیر نہ تو وہ ہیرو بن سکتے ہیں اور نہ ہی مظلوم۔ وہ پہلے ڈینٹسٹ ہیں جنہیں صدرِ پاکستان بننے کا شرف حاصل ہوا۔ طب کی دنیامیں تو ان کی مہارت کی گونج ہے لیکن صد افسوس کہ بطور سیاستدان اور صدرِ پاکستان وہ اس پروفیشن کا حق ادا نہیں کر سکے، اُن کی پی ٹی وی پر حملے کے حوالے سے سامنے آنے والی آڈیو سے لے کر حالیہ ٹویٹ تک یہی تاثر ملتا ہے اور وہ لطیفہ یاد ٓاتا ہے کہ ڈینٹسٹ اصل ڈاکٹر نہیں ہوتے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین