• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایوب خان نے جو صنعتی انقلاب برپا کیا بھٹو نے تمام صنعتوں کو حکومتی تحویل میں لے کر ملیا میٹ کر دیا۔ پاکستان پچیس سال پیچھے چلا گیا۔ سرمایہ کار، صنعت کار مایوس ہو کر یہاں سے بھاگ گئے۔ اپنا سرمایہ دوسرے ملکوں میں منتقل کیا، غیر ملکوں میں صنعتیں قائم کرکے پھر کبھی پاکستان کا رُخ نہ کیا۔بھٹو نے زرعی اصلاحات کے نام پر جاگیرداروں کو تحفظ دیا۔ زراعت پر لاگو ٹیکس ختم کر دیا گیا، اب یہ جاگیردار زرعی ٹیکس دینے کو تیار نہیں۔ یہ دو بڑے فیصلے ملکی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئے۔ بھٹو کا دور ختم ہوا، ضیاءالحق کا دور شروع ہوا، اگر وہ چاہتے تو بھٹو کے ان دو بڑے فیصلوں کو ریورس کرسکتے تھے۔ زرعی اصلاحات بشمول زرعی ٹیکس کا لاگو نہ ہونا اس ملک کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اب ملکی حالات اس قدر مایوس کن ہیں کہ صنعت کاروں، کاروباری شخصیات کا اعتماد بحال کرنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ اگر کوئی حکومت یہ اعتماد بحال کرنا بھی چاہے تو اس کی راہ میں سرخ فیتے کی نہ ختم ہونے والی رکاوٹیں ہیں۔ اسی طرح بھٹو کے دور میں سرخ ، سبز انقلاب کے نعرے نے بھی قوم کو تقسیم کرنے میں اہم کردار ادا کیا جس کے اثرات آج آپ معاشرتی تقسیم، تفرقے، نفرتوں کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ (ن) لیگ کے گزشتہ ادوار میں میاں شہباز شریف نے پنجاب میں صحت کے شعبے کو بہتر کرنے کے لئے مثبت کوششیں کیں۔ ڈی ایچ کیو کی سطح پر اسپتالوں میں علاج معالجے کا نظام بہتر کیا گیا، عام آدمی کو مقامی سطح پر مفت علاج کی سہولتیں فراہم کی گئیں۔ ذرائع آمدورفت بہتر بنائے گئے لیکن عمران خان کے چار سالہ دور میں جو تباہی بھٹو نے کی تھی اس کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی گئی اور ملبہ سابقہ حکومتوں پر ڈال دیا گیا۔ ان چار سال میں پاکستان اور پنجاب کا جو بُرا حال کیا گیا اس نے 70 سالوں میں ہونے والی تباہی کو پیچھے چھوڑ دیا۔ پاکستان ایک بارپھر بیس سال پیچھے چلا گیا۔ بزدار کے دور میں پنجاب میں صحت، تعلیم سمیت ہر شعبے میں جو تباہی پھیلائی گئی اس کا تصور بھی محال ہے۔ اس نقصان کو پورا کرتے کرتے ہمیں مزید بیس سال تگ و د وکرنا پڑے گی۔ ممکن ہے اگر ہم ہوش کے ناخن لیں تو واپس ٹریک پر آجائیں، ایک غیر رسمی فکری نشست کے دوران شامی صاحب گہری سوچ میں گم ایک آہ بھرتے ہیں اور ہم کلام ہوتے ہیں کہ عمران دور میں جو کچھ ہوا کیااس بارے میں ہمارے نوجوانوں کو کچھ نظر نہیں آتا لیکن وہ اب بھی اس کے فریب عشق میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ ایسے نوجوانوں کو کچھ کہنا ، سمجھانا بالکل ناممکن ہے۔ چار سال کی تباہی ایک طرف صرف ڈیڑھ سال کے دوران چیئرمین پی ٹی آئی نے نوجوانوں کے ذہنوں میں جو زہر گھولاہے ان کے دلوں میں اپنے مخالفین کے خلاف جو نفرتیں بھری ہیں یہ نفرتیں پاکستان اور خود ہم سب کے لئے شدید نقصان کا باعث بن رہی ہیں۔ شامی صاحب کسی حد تک سابق اتحادی حکومت کے بعض اقدامات سے بھی نالاں نظر آتے ہیں۔ پنجاب کے بابوؤں کو اربوں روپے مالیت کی گاڑیوں کی خریداری پر انہیں بھی تحفظات ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تعلیم، صحت، روزگار کی فراہمی میں نجی شعبہ اور فلاحی ادارے اہم ادا کرسکتے ہیں۔ اس وقت صحت و تعلیم کے اخراجات اٹھانا عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ میرے ساتھ زیادہ تر لوگ اسپتالوں، تعلیمی اداروں کے اخراجات و سہولتوں کی فراہمی اور مدد کے لئے رابطہ کرتے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں کے وارڈمریضوں سے بھرے پڑے ہیں۔ انہیں بستر تک میسر نہیں، ادویات کے لئے لوگ دھکے کھا رہے ہیں۔ دو کروڑ سے زائد بچے اسکول نہیں جا رہے ، بچوں کی اتنی بڑی تعداد جب جوان ہوگی توہم ان پڑھ، جاہل اور بے روزگاروں کی ایک پوری نسل تیار کرچکے ہونگے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین