پاکستان میں اِن دنوں ایک بالکل نئے انداز کا تنازع کھڑا ہوگیا ہے۔چند یوم قبل صدر مملکت عارف علوی نے ٹوئٹر کے ذریعے یہ انکشاف کیا کہ انہوں نے آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دست خط نہیں کیے۔ ان کا کہنا تھاکہ میں ان بلز سے اتفاق نہیں کرتا، میں نے اپنے عملے سے کہاتھا کہ بل کو بغیر دست خط کے واپس بھیج دیں، میں نے عملے سے متعدد بار تصدیق کی کہ بلز بغیر دست خط کے واپس بھیج دیے گئے ہیں۔
آفیشل سیکریٹ ایکٹ قانون کے تنازعے پر جیو نیوز کے پروگرام آج شاہ زیب خان زادہ کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے وکیل اور سینیٹر، علی ظفر نے کہا کہ صدر نے بل پر دست خط نہیں کیے تو سمجھا یہی جائے گا کہ بل واپس بھیج دیا گیا ہے۔ سینیٹر علی ظفر نے مزید کہا کہ یہ بات بھی ہو رہی ہے کہ صدر نے بل واپسی کی مدت ختم ہونےکے چوبیس گھنٹےبعد کیوں یہ ٹوئٹ کیا، لیکن اگر وہ ٹوئٹ نہ کرتے تو ہمیں پتا ہی نہ چلتا کہ یہ تو قانون بنا ہی نہیں۔ تاہم بہتر ہوتا کہ صدر، بل کو وجوہات لکھ کر مسترد کرتے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ صدر مملکت نے صدارتی عملے پر حکم عدولی کا الزام لگایا ہےاور اپنے سیکریٹری کی خدمات واپس کردی ہیں۔ تاہم وزارت قانون نے بلز پر کارروائی میں تاخیر پر صدر کو خود ذمے دار قرار دیا ہے اور مذکورہ سیکریٹری نے صدرِ مملکت کے نام اپنے خط میں صدر کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے اصرار کیا ہےکہ مذکورہ بل کی صدر نے منظوری دی اورنہ اس حوالے سے انہوں نے کوئی تحریری ہدایت دی کہ اسے پارلیمنٹ کو دوبارہ غور کے لیے بھجوایا جائے۔ سیکریٹری نے کہا ہے کہ ان کے پاس اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے تمام ثبوت ہیں۔
انہوں نے صدر سے درخواست کی ہے کہ وہ کسی ادارے سے انکوائری یا تفتیش کرائیں اور ذمے داری کا تعین کریں، وہ سپریم کورٹ یا کسی بھی دوسری عدالت میں وضاحت کے لیے پیش ہونے کو تیار ہے۔ وہ وہاں ریکارڈ پیش کریں گے کہ وہ خطا کار نہیں ہیں۔
دوسری جانب صدر مملکت عارف علوی کے آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دست خط نہ کرنے کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیاہے۔ ایڈووکیٹ ذوالفقار بھٹہ نے معاملے کی تحقیقات کے لیے درخواست دائر کی ہے جس میں وفاقی حکومت کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ معاملے کی تحقیقات کے لیے حکومت کودس یوم میں سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا حکم دیا جائےاوردرخواست کے زیر التوا رہنے تک آفیشل سیکریٹ اور آرمی ایکٹ پر عمل درآمد روک دیا جائے۔درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ صدر مملکت کے بیان کے بعد قانون سازی پر سوالات اٹھ رہے ہیں اور آفیشل سیکریٹ اور آرمی ترمیمی ایکٹ سے بہ راہ راست عوام کے حقوق وابستہ ہیں۔
تحریر کی اہمیت
اقتدار کی راہ داریوں کی خبریں رکھنے والوں کے مطابق ماضی میں جب بھی ڈاکٹر علوی نے بل واپس کیے، ان پر انہوں نے اپنے دست خط کیے تھے۔لیکن، اس امر کی کوئی وضاحت نہیں کہ اس مرتبہ واپس کیے جانے والے بل پر ان کے دست خط کیوں نہیں تھے۔ یہاں ہمیں ایک بار پھر پتا چلتا ہے کہ کسی معاملے، بالخصوص اہم معاملات میں تحریر کی کیا اہمیت ہوتی ہے۔اگر صدر مملکت نے بل پر دست خط کیے ہوتے تو اول تو یہ تنازع کھڑا ہی نہیں ہوتا اور اگر ہوتا تو تحریر پڑھنے کا ماہر اصلی اور جعلی دست خط کے درمیان فرق تلاش کرکے با آسانی یہ تنازع انجام کو پہنچا دیتا۔
تحریر بہت سے بھید کھول دیتی ہے
تحریر کی مدد سے ہم محض سچ ،جھوٹ میں تمیز اور مجرم تک ہی نہیں پہنچ پاتے بلکہ کافی حد تک انسان کے اندر بھی جھانکنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ایک زمانہ تھا جب اسکولز میں لکھائی پر بہت توجہ دی جاتی تھی تاکہ بچے خوش خط ہو سکیں اور امتحانات میں انہیں اچھے نمبر ملیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس پہلو پر توجہ کم ہوتی چلی گئی جس کی وجہ سے آج بچوں ہی نہیں بلکہ بڑوں کی قابل ذکر تعداد کی ہینڈرائٹنگ بھی کچھ زیادہ اچھی نہیں ہوتی۔ ہینڈرائٹنگ کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ وہ لکھنے والے کی شخصیت کی آئینہ دار ہوتی ہے لہٰذا س کی مدد سے کسی فرد کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ہر شخص کے لکھنے کا اندازمنفرد ہوتا ہے، اس لیے کہ ہر انسان دوسرے مختلف ہے اور جب وہ لکھنے لگتا ہے تو اس کے اندر کی کیفیات، کردار اور احساسات بھی اس میں شامل ہو جاتے ہیں۔ لہذا ماہر تحریر اس کا تجزیہ کرکے اس کی شخصیت کے مخفی پہلوؤں کو بھی سامنے لا سکتا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ تحریر شناسی کا تعلق انسان کی جسمانی، ذہنی اور جذباتی صحت کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔
تحریر کا تجزیہ
اس ضمن میں تین بنیادی نکات کا خیال رکھنا ضروری ہے :
لفظوں کی ترتیب:
ماہرِ تحریر یہ دیکھتا ہے کہ کاغذ پرکیسے لکھا گیا ہے اور خالی جگہ کو کیسے استعمال کیا گیا ہے۔ مزیدبرآں اس بات کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے کہ لکھنے والے نے حاشیے اور لفظوں کے درمیان خالی جگہوں کا استعمال کیسے کیا ہے۔ یہ سب باتیں لکھنے والے کے اپنے قریبی ماحول سے تعلق کی نوعیت کو بھی ظاہر کرتی ہیں۔
لکھنے کی رفتار:
لکھنے کی رفتار لکھاری کی سوچ کی رفتار کو بھی ظاہرکرتی ہے۔ یہ اس بات کو بھی ظاہر کرتی ہے کہ متعلقہ فرد اپنے ماحول میں کس رفتار سے ردعمل دیتا ہے۔
الفاظ کی ساخت:
حروف کی ساخت اور انہیں ملانا، لکھنے والے کے کردار کے کچھ پہلوؤں اور اس کی صلاحیتوں کی جانب بھی اشارہ کرتا ہے۔
لکھائی اور زون چارٹ:
لکھائی کے حوالے سے تین زون یا حصے ہیں جن میں سےپہلا اوپر والا، دوسرا درمیانی اور تیسرا نچلا حصہ ہے۔ تحریر کی جانچ کرتے ہوئے یہ جاننا اہم ہوتا ہے کہ اس میں کون سا حصہ زیادہ استعمال کیا گیا ہے، کیوں کہ ہر حصہ انسانی شخصیت کے الگ پہلو کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ تحریر کے ان حصوں سے جسمانی صحت اور نفسیاتی گرہوں کی جانب بھی نشان دہی ہوتی ہے۔ اس کی تفصیل درجِ ذیل ہے :
جسمانی صحت:
جسمانی صحت کے حوالے سے بھی تحریر کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ اگر انسانی جسم میں کوئی مسئلہ ہو تو وہ تحریرکے اس خاص حصے میں کسی وقفے، کپکپی (glitch)کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ دماغ میں کوئی مسئلہ تحریر کے اوپر والے حصے پر دباؤ یا وقفوں کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے۔
اوپرکے حصے میں وقفہ یا پریشر کسی ذہنی سرگرمی اور رفتار میں خلل کا آئینہ دار ہو سکتا ہے۔ اس کی ایک اہم مثال مرض کی وجہ سے امریکا کی سابق خاتونِ اول جیکولین کینیڈی (Jacqueline Kennedy) کے دست خطوں میں تبدیلی سے ظاہر ہونا ہے جو نان ہاجکن لمفوما (non-Hodgkin’s lymphoma) کا شکار ہو گئی تھیں۔
درمیانی حصہ معدے، دل اور جنسی اعضا میں کسی مسئلے کی جانب اشارہ کرتا ہے اور نچلا ٹانگ کے بارے میں بتاتا ہے۔
تحریر اور نفسیاتی صحت
نفسیاتی طور پرانگریزی حروف ’’اے‘‘ اور ’’او‘‘ کو بہت بنا سنوار کر یا توڑ مروڑ کر لکھنے والے اکثرافرادعادی جھوٹے ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں رچرڈنکسن کی مثال دی جاتی ہے جو امریکا کے ایسے صدر تھے جنہیں واٹر گیٹ ا سکینڈل کی وجہ سے صدارت سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔
سیاہی کا بہاؤ جسم میں خون کے بہاؤ کی جانب بھی اشارہ کرتا ہے۔ لکھائی میں وقفہ، قلم رکنا اور لرزش قلم کار کی توانائی میں رکاوٹ کا اشارہ سمجھے جاتے ہیں۔ نیز لکھائی سے منشیات اور شراب کے استعمال کے اثرات کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اس حوالے سے امریکا سے تعلق رکھنے والے مشہور گلوکار ایلوس پریسلے کی مثال دی جاتی ہے۔ اس کے دست خط تین باتوں کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ اس کی تحریر میں ناہم واری ،جڑے جڑے حروف اور لکھائی میں مسلسل لرزش نمایاں تھی۔ یاد رہے کہ ایلوس کو ایک سے زائد بیماریاں تھیں۔
تحریر میں نچلا حصہ انسان کے تحت الشعور میں چھپے عزائم یا خواہشات کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ اس میں مادِی اور جسمانی ضروریات مثلاً پیسہ اور جنسیت وغیرہ زیادہ واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ لکھنے والے میں ان کی طلب عام افراد سے زیادہ ہے جس کے لیے وہ شاید معاشرتی قوانین یا اصولوں کی بھی پروا نہ کرے۔
اس کی ایک مثال نچلے حصے میں ہک کی مانندکا ایک ڈیزائین بناناہے جسے فیلن کلا (Felon’s claw)بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ڈیزائین مجرموں کی لکھائی میں غیرمتناسب پایا جاتا ہے۔ اس بارے میں بدنامِ زمانہ مجرم برنارڈ میڈوف (Barnard Madoff)کی مثال دی جاتی ہے۔ اس کے دست خطوں پر غور کیا جائے تو حرف ’’بی‘‘ پر بڑا سا ہک نیچے کی جانب سے شروع ہوتا ہوا واضح طورپر دکھائی دیتا ہے۔
اگر کسی شخص کو دوسرے شخص کے بارے میں جاننا ہو، تو وہ مختلف طریقوں سے اسے جاننے کی کوشش کرتا ہے۔ جیسے اس کے انداز گفتگو سے، اس کے کپڑوں سے، اس کے جوتوں سے اور دیگر دوسرے طریقوں سے سامنے والے شخص کو پہچاننےکی کوشش کرتا ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ لوگوں کی شخصیت کو جاننا بے حد آسان ہے، اگر آپ کسی کو جاننا چاہتے ہیں تو اس کی ہینڈ رائٹنگ کے ذریعے بھی کافی حد تک اس کے بارے میں جان سکتے ہیں۔جیسے انسان کی بول چال شخصیت کی عکاسی کرتی ہے، ویسے ہی ہینڈ رائٹنگ بھی شخصیت کو بیان کرتی ہے۔
سائز:
وہ افراد جن کی ہینڈ رائٹنگ بڑی ہوتی ہے وہ بہت پر اعتماد ،باہر گھومنے والے اور نئے لوگوں کو باآسانی دوست بنانے والے ہوتے ہیں۔ یہ افراد کسی بھی پارٹی میں جاکر اس کے ماحول میں آسانی سے ڈھل جاتے ہیں۔
وہ افراد جن کی ہینڈ رائٹنگ چھوٹی ہوتی ہےوہ بہت شرمیلے، خیال کرنے والے اور اپنی چیزوں پر فوکس کرنے والے ہوتے ہیں۔ یہ افراد ہر کسی سے آسانی سے دوستی نہیں کرتے، پہلے وہ لوگوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، پھر ان کو دوست بناتے ہیں۔
لفظوں کے درمیان فاصلہ:
وہ افراد جن کی ہینڈ رائٹنگ میں بہت زیادہ فاصلہ ہوتا ہے وہ دوسروں پر آسانی سے اعتماد نہیں کرتے۔ یہ لوگ تنہائی پسند ہوتے ہیں اور دوسروں سے بھی دوری اختیار کیے رکھتے ہیں۔
جن افرادکی ہینڈ رائٹنگ میں مناسب فاصلہ ہوتا ہے وہ دوسروں کے ساتھ اچھی دوستی کرلیتے ہیں اور ان کے ساتھ آرام دہ محسوس کرتے ہیں۔
وہ افراد جن کی ہینڈ رائٹنگ میں بالکل بھی فاصلہ نہیں ہوتا دوسروں پر انحصار کرنے والے ہوتے ہیں۔ ان لوگوں میں اکیلے اور خود سے کام کرنے کی صلاحیت موجود نہیں ہوتی۔
جھکی ہوئی رائٹنگ:
وہ افراد جن کی ہینڈ رائٹنگ جھکی ہوئی نہیں ہوتی، وہ افراد بہت عملی ہوتے ہیں۔ان کی شخصیت بہت متوازن ہوتی ہے اور یہ لوگ بہت منطقی قسم کے ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کو اپنے احساسات اور جذبات پر بھرپور کنٹرول ہوتا ہے۔
وہ افراد جن کی ہینڈ رائٹنگ دائیں جانب جھکی ہوئی ہوتی ہے کھلے مزاج کے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی ہر بات ہر کسی سے شیئر کرلیتے ہیں۔ انہیں نئے لوگوں سے ملنا اور دوستی کرنا بہت پسند ہوتا ہے۔ اس کے برعکس وہ افراد جن کی ہینڈ رائٹنگ بائیں جانب جھکی ہوتی ہے ٹیم ورک میں بہترین ہوتے ہیں اور ان لوگوں کو توجہ حاصل کرنا بالکل پسند نہیں ہوتا۔
حرف 'آئی کو مختلف طریقوں سے لکھنا:
وہ افراد جو لکھتے ہوئےانگریزی کے حرف 'آئی پرنقطہ لگاتے ہیں ان کا دماغ بہت تخلیفی ہوتا ہے۔ یہ افراد جاگتے ہوئے بھی خواب دیکھتے ہیں۔ وہ افراد جو حرف 'آئی پر ڈیش کا استعمال کرتے ہیں بہت مشکل قسم کے ہوتے ہیں اور یہ افراد ہر چیز کو باآسانی جانچ لیتے ہیں۔ یہ لوگ ہر کام کو بھرپور طریقے سے انجام دیتے ہیں۔
ڈیش اور نقطے کے علاوہ حرف 'آئی لکھنے والے افراد بھی تخلیقی ہوتے ہیں اور اکثر اوقات یہ لوگ بچوں جیسا برتاؤ بھی کرتے ہیں۔ ان افراد کو موج مستی کرنا پسند ہوتا ہے۔
کاغذ پر دبا کے لکھنا:
وہ افراد جو کاغذ پر بہت زیادہ دبا کے لکھتے ہیں طاقتور اور پراعتماد ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اپنا ہر کام بہت عزم کے ساتھ کرتے ہیں۔ اس کے برعکس وہ لوگ جو کم دبا کے لکھتے ہیں بہت حساس اور ہم درد ہوتے ہیں۔ ان لوگوں میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت بالکل نہیں ہوتی اور یہ لوگ اپنے بارے میں مسلسل شک میں رہتے ہیں۔
گرافولوجی
تحریر کا تجزیہ کرکے کسی کی شخصیت کے پہلووں کو سمجھنے کا علم گرافولوجی کہلاتا ہے۔
گرافولوجی فنون اور سائنس کے مابین ایک مرکب ہے۔ یہ سائنس کے نام سے جانا جاتا ہے۔یہ تحریری شکلوں کی نقل و حرکت اور ساخت کی پیمائش کرنے کے قابل ہے۔ جھکاؤ ، خطوط کا زاویہ ، خالی جگہیں اور دیگر بہت سی چیزیں جن کا حساب کتاب ممکن حد سے زیادہ صحت سےتعلق کے ساتھ کیا جاتا ہے۔اسے ایک آرٹ بھی کہا جاتا ہے۔
تحریر کے تین اہم حصے ہوتےہیں: نقل و حرکت ، شکل اور وقفہ کاری۔ گرافولوجسٹ ان چھوٹے چھوٹے تغیرات کا مطالعہ کرتے ہیں جو ان پہلوؤں میں سے ہر ایک میں پائے جاتے ہیں اور انہیں نفسیاتی تشریحات تفویض کرتے ہیں۔ ماہر گرافولوجسٹ جب بھی یہ طریقہ استعمال کرتے ہیں تو وہ کام یابی حاصل کرلیتے ہیں۔
اگرچہ ظاہری شکلوں کا تعین کرنا ہمارے لیے مشکل ہوسکتا ہے ، یا ہم اس مشق کو کوئی پے چیدہ گتھی سلجھانے سے تھوڑا زیادہ سمجھتے ہیں ، لیکن ایک بات ایسی ہے جس کے بارے میں یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ وہ غلط نہیں ہوتی، یعنی ،تحریر ا کبھی جھوٹ نہیں بولتی۔ تحریر سے پتا چلتا ہے کہ مصنف کس طرح سوچ سکتا ہے ، محسوس کرسکتا ہے اور برتاؤ کرسکتا ہے۔
تحریری تجزیے کے ساتھ ، گرافولوجسٹ شخصیت کے ان پہلوؤں کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں جن کا تجزیہ کردہ شخص ہمارے سامنے پیش نہیں کرنا چاہتا ہے۔ یا تو اس لیے کہ آپ کے لیے ایسا کرنا آسان نہیں ہوتا، کیوں کہ آپ ان سے واقف نہیں ہیں یا محض اس لیے کہ وہ غیر متعلقہ معلوم ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ ، گرافولاجیکل تجزیے کا استعمال دوسری تکنیک کے ذریعے حاصل کردہ معلومات کے برعکس کرنے کے لیے بھی کیا جاتا ہے ، جیسے خود کی اطلاع یا ذاتی انٹرویو۔ مؤخر الذکر ملازمین کے انتخاب کے عمل میں عام ہے۔
یہ تکنیک اس وقت اسپین میں مستعمل ہے۔ فرانس میں اس کا استعمال زیادہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 50 سے 75 فی صد کمپنیاں اس کا استعمال کرتی ہیں۔ 1991 میں (آخری آزاد مطالعے کی تاریخ) فرانسیسی کمپنیوں میں سے نوّے فی صد بہ راہ راست یا بالواسطہ تحریری طور پر فراہم کردہ معلومات کا استعمال کرتی ہیں
تحریر کا تجزیہ کیسے کیا جاتا ہے؟
تحریری تجزیہ کس طرح کام کرتا ہے اس کی وضاحت کے لیے یہ کہا جاتا ہے کہ گرافولوجی کوئی پہیلی سمجھنے کی مانند ہے۔اسے پزل جوڑنے کے عمل سے بھی تشبیح دی جاسکتی ہے۔ اگر آپ کسی ٹکڑے کو دیکھیں تو غالب امکان ہے کہ آپ کو اس کے بارے میں ابتدا میں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ کہاں جارہا ہے، یا یہ کس کی نمائندگی کر رہا ہے۔
آپ اس ٹکڑے میں کسی چیز کو مربوط کرکے کچھ اندازے لگاتے ہیں۔ جب آپ ٹکڑوں کو جوڑتے ہیں تو اس معاملے کے بارے میں آپ کا تاثر حقیقت کو مزید ایڈجسٹ کرنے لگتا ہے۔ آپ ایک ٹکڑے کو دوسرے سے ملاکر دیکھ سکتے ہیں جو بہت ہی خصوصیت کا حامل ہو۔ تب آپ کو پہلے ہی اس ٹکڑے کا مفہوم معلوم ہو گا اور کم سے کم جہاں یہ واقع ہوگا اس کا پتا چل جائے گا۔
ڈینیئل پرل کیس: استغاثہ کی وہ کم زوری جو ملزمان کی رہائی کا باعث بنی
ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ کے پاس سندھی لٹریچر کی ڈگری تھی۔
پاکستان کی سپریم کورٹ نے2002 میں ہلاک کیے جانے والے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے مقدمۂ قتل میں مرکزی ملزم احمد عمر شیخ کی سزائے موت کی سات برس قید میں تبدیلی اور دیگر تین ملزمان کی بریت کے فیصلے کے خلاف حکومتِ سندھ کی جانب سے کی جانے والی اپیل جنوری 2021میں مسترد کر دی تھی۔حکومتِ سندھ نے 22اپریل2020 کو ڈینیئل پرل کے قتل کے مقدمے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
یہ فیصلہ سندھ ہائی کورٹ نے جاری کیا تھا اور اس میں مرکزی ملزم احمد عمر سعید شیخ کی سزائے موت ختم کر کے اسے اغوا کے جرم میں سات برس قید کی سزا کا حکم دیا گیا تھا۔ صوبائی حکومت نے اپنی اپیل میں سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ احمد عمر شیخ کی سزائے موت اور اس مقدمے کے دیگر ملزمان فہد سلیم، سلمان ثاقب اور محمد عادل کی عمر قید کی سزائیں بحال کی جائیں۔
اس مقدمے میں استغاثہ سے کئی غلطیاں کی تھیں جن کی وجہ سے یہ کیس کم زور پڑگیا تھا۔ ان میں سے ایک فاش غلطی عدالت میں غلام اکبر نامی ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ کو پیش کرنا تھا جس کے پاس ہینڈ رائٹنگ کے شعبے میں تعلیم اور تجربہ ہونے کےبجائے سندھی لٹریچر کی ڈگری تھی۔ غلام اکبر وہ اہم شخص تھا جس نے ڈینیئل پرل کے تاوان کے لیے ہاتھ سے لکھی گئی دو تحریروں پر اپنی رائے دینا تھی۔ انگریزی میں لکھی ہوئی تحریراحمد عمر شیخ کی اور اردو میں لکھی ہوئی تحریر عادل نامی شخص کی تھی۔
یہ تحاریر مبینہ طور پر احمد عمر شیخ نے فہد نسیم اور سلمان ثاقب کو دی تھیں اور جن کی روشنی میں انہوں نے دنیا کو پرل کے اغوا اور بعد میں رہائی کے بدلے تاوان کے مطالبات سے آگاہ کیا تھا۔ لیکن احمد عمر شیخ کے وکیل محمود احمد شیخ نے ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ سے اس کی قابلیت اور متعلقہ شعبے میں اہلیت کے سوال جواب میں ثابت کر دیا کہ اس کی رائے پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔
اس طرح پولیس نے غیر متعلقہ ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ پر انحصار کر کے کیس برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ اس طرح بہت سے عام لوگوں کو بھی پتا چلا کہ ہمارے ہاں کسی جرم کے ضمن میں تفتیش اور تحقیق کا کیا معیار ہے اور اگردستی تحریر پڑھنے کے مناسب ماہر کی خدمات حاصل نہ کی جائیں تو کسی مقدمے کا پانسہ کس طرح پلٹ سکتا ہے۔