• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کئی بحرانوں میں گھرا ہوا ہے اور ہر روز مزیدپریشان کن مسائل کا عمل تکلیف دہ یکسانیت کے ساتھ جاری ہے ۔ اگر ہمارے ہاں کبھی کوئی اسکرپٹ تھا بھی تو اب وہ یقیناََکہیں کھو چکا۔اس کی جگہ ایک نئی اور زیادہ پرخطر پالیسی جسے کچھ لوگ اس کی جگہ لانے کی کوشش کر رہے ہیں،ایک بے نتیجہ مہم جوئی ثابت ہوئی ہے۔

خان کو وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹانے ، ان کے خلاف 180 سے زائد جعلی، من گھڑت اور بے بنیاد مقدمات قائم کرنے اور مجرموں کے ایک گروہ کو من مانی کرنے اور قانون کی گرفت سے بچ نکلنے کیلئے اقتدار پر بٹھانے سے لے کر نگران حکومت قائم کرنے تک عقل و فہم مائوف کردینے والے تجربے کا شاخسانہ دکھائی دیتا ہے۔ اس کا مقصد اس غلط ایجنڈے پر پردہ ڈالنا ہے جس نے ریاست اور اس کے اداروں کو انتہائی نقصان پہنچایا ہے ۔ نگران حکومت کو بھی اصل فکر نگرانی کی نہیں بلکہ اپنے اقتدار کو طول دینے کی دکھائی دیتی ہے ۔

آفیشل سیکریٹس (ترمیمی) بل اور پاکستان آرمی (ترمیمی) بل پر دستخط نہ کرنے کے حوالے سے صدر علوی کا ٹوئٹ اور ان کی اپنے عملے کو ہدایت کہ بغیر دستخط شدہ بلوں کو واپس کردیا جائے تا کہ ’’طے شدہ وقت کے اندر غیر موثر ہوجائیں‘‘ پر اُن کے ا سٹاف نے عمل نہ کیا جس نے ایک آئینی طوفان کھڑا کر دیا ہے، اور ایک ایسی بے چینی کو جنم دیا ہے جس کی شدت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔ یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ بلوں کو بغیر دستخط کے واپس کر دیا گیا تھا، حکومت نے غلط طریقے سے انھیں ’’منظور شدہ ‘‘ سمجھا ، اورقانون میں تبدیلی کرنے اور گزٹ نوٹیفکیشن جاری کرنے کیلئے استعمال کیا۔

صدر علوی نے اپنے پرنسپل سیکرٹری وقار احمد کو ان کے عہدے سے فارغ کر دیا جنہوں نے اس معاملے میں اپنے دفاع میں لکھتے ہوئے صدر سے درخواست کی ہے کہ وہ ان کی خدمات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے حوالے کرنے سے متعلق خط واپس لیں۔ یہ شق صرف اس وقت متعلقہ ہے جب صدر کی جانب سے منظوری کیلئے پہلی بار جمع کرائے جانے پر ایوان پر نظر ثانی کیلئے بغیر دستخط شدہ بل کو واپس کردیا جائے اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے دوبارہ منظور کیا جائے، اور یہ کہ اگر اس طرح کی منظوری نہیں دی گئی تو دس دن گزرنے کے بعد سمجھا جائے کہ منظور ی دے دی گئی ہے ۔

دونوں بل 2اگست اور 8اگست کو پہلی بار منظوری کیلئے صدر کو بھیجے گئے تھے۔ انھوں نے اپنے عملے کو ہدایت کی کہ وہ مقررہ مدت کے اندر بغیر دستخط کے واپس بھیج دیں۔ آئین کے آرٹیکل 75کی ضرورت کے مطابق دوسری بار صدر کو بل موصول نہیں ہوئے کیونکہ 9اگست کو قومی اسمبلی تحلیل کر دی گئی تھی۔ لیکن آئین کی متعلقہ شق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اعلان کیا گیا کہ بل قانون بن چکے ہیں۔ اس پر صدائے احتجاج بلند ہوئی اور معاملہ عدالت میں جانے کا امکان ہے۔ درحقیقت بلوں کے موثر ہونے کو چیلنج کرنے والی ایک درخواست پہلے ہی سپریم کورٹ میں دی جا چکی ہے۔

اس واقعے کے بعد سے ایوان صدر سے پریشان کن خبریں آرہی ہیں۔ یہ بات قابل فہم ہے کہ اس بدنیتی پر مبنی عمل کے ذمہ داروں میں گہری تشویش پائی جاتی ہے ۔ کسی ایک فرد اور پارٹی کے خلاف بنائے جانے والے قوانین سے پیدا ہونے والے بحران اور اس کے ردعمل سے بچنے کیلئے ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں جو آئین، جمہوریت اور اخلاقیات کو منوں مٹی میں دفن کردیتے ہیں ۔

اس طرح کی مایوسی اور واضح طور پر غلط مداخلت صرف یہ ثابت کرتی ہے کہ اسکرپٹ کھو گیا ہے جس کی وجہ سے خطرناک سائے گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ مجرم بظاہر جدوجہد کر رہے ہیں لیکن پائوں دھرنے کیلئے کوئی پلیٹ فارم نہیں مل پارہا۔ یہی وجہ ہے کہ اب وہ اپنے پروجیکٹ کو آگے بڑھانےکیلئے کوئی من گھڑت یا فرضی ثبوت تلاش کررہے ہیں ۔ لیکن یہ بھی جلد بے نقاب ہو جائے گا۔ اس طرح اُن کی امید کا آخری تنکا بھی ہاتھ سے نکل جائے گا جس سے وہ ابھی تک چمٹے ہوئے ہیں۔ ایک اسکرپٹ جو لوگوں کی نفرت میں تیار کیا جاتا ہے وہ عام طور پر کامیاب ڈرامہ نہیں بناپاتاکیونکہ حقیقت اپنا وجود ثابت کررہی ہوتی ہے۔ ایک طرف ان کے پاس کہانی کا اعتبار قائم رکھنےکیلئے مواد موجود نہیں،تو دوسری طرف ڈرامے کی پروڈکشن اور بیانیہ بھی مسائل کے گرداب میں ہے۔ اس صورتحال سے پھوٹنے والے سرطان کی زہریلی جڑیں پھیلتی جارہی ہیں ۔

مجھے دہرانے دیجیے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔ ہمیں نفرت اور بغض کے عفریت کو ختم کرنا ہوگا اور مکالمے کو راستہ دینا ہوگا۔کوئی انسان بھی بے خطا نہیں۔ آئیے سب تسلیم کریں کہ ہم نے غلطیاں کی ہیں اور بات شروع کرنے کیلئے کچھ مشترکہ بنیاد بنانے کی کوشش کریں۔ مجھے یقین ہے کہ مقصد کی معنی خیزی کے پیش نظر ایسی مشترکہ بنیاد مل سکتی ہے۔ یہ کوئی جنگ نہیں جو ہم لڑ رہے ہیں۔ جس ملک سے ہم تعلق رکھتے ہیں وہ ہم سے اپنی اپنی انا سے پیچھے ہٹنے اور رواداری کو راستے دینے کا تقاضا کرتا ہے۔

یہ کوئی اتنی مشکل تجویز نہیں ۔ ہم ایسا کر سکتے ہیں۔ صرف اس صورت میں جب ہم نفرت اور دشمنی کے اس دریا کو عبور کریں جو ہمیں الگ کرتا ہے۔ اسے نفرت کا اسکرپٹ سمجھ کر کھو دیں۔ آئیے مل کر عقل اور معقولیت کا اسکرپٹ تحریر کریں ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین