• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

The Apology of Socrates کا اگر ہم اردو میں ترجمہ کریں تو بڑ اعجیب سا لگے گا ’’سقراط کی معافی‘‘۔ یہ کتاب افلاطون نے مکالمے کی شکل میں اُس وقت لکھی تھی جب سقراط کوموت کی سزا سنائی جانے والی تھی اور وہ اپنے دفاع میں’دلائل‘ دے رہا تھا ۔سقراط پر مقدمہ تھا کہ اُس نے یونان کے نوجوانوں کو ذہنی طور پر ’کرپٹ‘ کر دیا ہے اور اب وہ اُن دیوتائوں پر یقین نہیں رکھتے جن پر یونانیوں کا صدیوں سے اعتقاد تھا۔سقراط کے سامنے تقریباً پانچ سو لوگ جیوری کی شکل میں موجود تھے جن کے سامنے اُس نے دلائل رکھنے تھے ، شاید اسے معلوم تھا کہ یہ سعی لا حاصل ہے مگر اِس کے باوجود سقراط نے اُس موقع پر جو تقریر کی وہ تاریخ میں امر ہوگئی ۔ اُس نے اپنی بات فلسفے کے اِس اصول سے شروع کی کہ وہ کچھ نہیں جانتا ، جو کچھ علم و دانش اُس کے پاس ہے اُس کا ذریعہ یہی اصول ہے کہ نا معلوم سے معلوم کی طرف سفر کیا جائے۔سقراط کی تقریر کا ایک ٹکڑا موت سے متعلق بھی ہے جو پڑھنے کے لائق ہے :

’’ہم یہ دیکھیں گے کہ موت کے ارے میں یہ امید رکھی جا سکتی ہے کہ یہ اچھی چیز ہے ، دو وجوہات کی بنا پر ،یا تو موت ہمیں عدم میں لے جاتی ہے ،کامل عدم کی حالت میں، یا پھر جیسا کہ لوگ کہتے ہیں کہ موت کے بعد تبدیلی شروع ہوتی ہےاور روح اِس دنیا سےہجرت کرکے دوسر ی دنیا میں چلی جاتی ہے۔اب اگر آپ عدم کی کیفیت کے بارے میں یوں تصور کریں کہ یہ ایسی نیند ہے جس میں انسان کو خواب دیکھتے ہوئے بھی احساس نہیں ہوتا کہ وہ خواب دیکھ رہا ہے تو ایسی موت تو ناقابل بیان منفعت کا باعث ہوگی۔ اب اگر کوئی شخص ایسی رات کا انتخاب کرے جس میں خوابوں سے بھی اس کی نیند میں خلل نہ ہو اور اس کا موازنہ اپنی (حقیقی )زندگی کے دوسرے دنوں اور راتوں سے کرے اور پھر یہ بتائے کہ اُس نے کتنے دن اور راتیں گزاری ہیں اور کیااُس کی (حقیقی )زندگی کا سفر اُن راتوںسے بہتر اور خوشگوار رہا(جن میں خوابوں نے اُس کی نیند میں خلل نہیں ڈالا)،تو میں سمجھتا ہوں کہ کسی بھی آدمی کو،چاہے وہ بڑے سے بڑابادشاہ ہی کیوں نہ ہو، ایسے بہت سے دن یا راتیں نہیں ملیں گی جب وہ اپنی حقیقی زندگی کوعدم کی بے خوابی پر ترجیح دے گا۔ اب اگر موت ایسی ہے تو میں کہوں گا کہ اِس موت میں فائدہ ہے، ابدیت کے لیے توپھر صرف ایک رات ہے۔ لیکن اگر موت کسی اور جگہ کا سفر ہے اور وہاں، جیسا کہ لوگ کہتے ہیں، تمام مردے جمع ہوں گے، تو اے دوستو اور جج صاحبان، اس سے بہتر بات بھلا کیا ہو سکتی ہے؟ ...سب سے بڑھ کرتو یہ کہ میں درست اور گمراہ کُن تعلیم کے درمیان امتیاز رکھنے کی سعی توجاری رکھ پاؤں گا۔ جیسا کہ اس دنیا میں کرتا ہوں بالکل اُسی طرح اس دنیا میں بھی معلوم کروں گا کہ کون دانشمند ہے اور کون محض دانشمند ہونے کا دکھاوا کرتا ہےاور حقیقت میں کھوکھلاہے۔ ...(مجھے تو یہ سوچ کر لطف محسوس ہوتا ہے کہ )اُن کے ساتھ بات چیت کرنے اور ان سے (تیکھے)سوالات پوچھنے سے مجھے لامحدود خوشی حاصل ہوگی! کیونکہ اس دنیا میں وہ مجھے اس باز پُرس کی وجہ سے موت کی سزا نہیں سنائیں گے،قطعی نہیں ، یقینی طور پر نہیں۔ کیونکہ اُس دنیا میں اِس (حقیقی دنیا) سے زیادہ خوش رہنے کے علاوہ، وہ دائمی زندگی گزاریں گے،بشرطیکہ جو کچھ کہا گیا وہ بات سچ ہو!‘‘

سقراط کی اِس تقریر کا ترجمہ کرتے ہوئے مجھے دانتوں تلے پسینہ آگیا ہے ،باقی تقریر بھی اسی قسم کی ہے گو کہ سقراط نے جیوری کواِس بات کا یقین دلایا تھاکہ وہ اُ ن کے لیے آسان زبان میں بات کرے گا، اگر یہ سقراط کی عام فہم باتیں تھیں تو اللہ جانے دقیق گفتگو کیا ہوتی ہوگی۔ بہرکیف، موت کا جو نقشہ سقراط نے کھینچا ہے وہ ناقابل یقین ہے ،خودکُشی پر آمادہ شخص کو سقراط کی یہ تقریر بالکل نہیں پڑھنی چاہیے ۔میں اکثر سوچتا ہوں کہ سقراط ، افلاطون اور ارسطوکے بعد فلسفے میں کچھ کہنے اور لکھنے کو کیا باقی رہ گیا ہے ، اِس تین اساطیری فلسفیوں نے ایسے ایسے گنجلک معاملات پر بحث و مباحثہ کیاکہ آنے والے فلاسفہ کے لیے بہت کم موضوعات بچے جن پر وہ طبع آزمائی کرسکتے ۔ مسلمانوں نے ایک بہت بڑا کام یہ کیاکہ ارسطو کی تعلیمات کا ترجمہ اور تشریح کی جس سے بعد میں مغربی مفکرین نے استفادہ کیا اور پھر مغرب کے فلسفے کی پوری تحریک نے اُس سے جنم لیا۔ہم سقراط کی تقریر پر واپس آتے ہیں ، سقراط کو یہ یقین تھا کہ اُس کی موت کا فیصلہ ہوچکا ہے اورجیوری اسے کسی قیمت پر معاف نہیں کرے گی لیکن اِس کے باوجود اُس نے ایسی پُر مغز تقریر کی جس کی امید کسی ایسے شخص سے نہیں کی جا سکتی جسے موت اپنی آنکھوں کے سامنے نظر آرہی ہو۔ ایک روایت کے مطابق ’’جیوری نے سقراط کی سزا کا فیصلہ بہت کم مارجن سے کیا اور پھر اُسے یہ پیشکش کی گئی کہ وہ خود ہی اپنے لیے سزا تجویز کرے۔ سقراط نے طنزیہ انداز میں مشورہ دیا کہ اصل میں تووہ ریاست کیلئے انجام دی گئی خدمات کے عوض ایک پُر تعیش ضیافت کا مستحق ہے،تاہم اُس کی یہ بات تسلیم نہیں کی گئی ۔جب اُس سے سنجیدگی برتنے کو کہا گیا تو اُس نے جواب دیا کہ وہ جیل اور جلاوطنی کو مسترد کرتا ہےاور بہتر ہے کہ اِس کی بجائے اُس سےجرمانہ وصو ل کر لیا جائے۔ لیکن جیوری اُس کی تجویز کو مسترد کرتی ہے اور اسے موت کی سزا سناتی ہے، تو سقراط اُس فیصلے کو بڑی متانت اور اِس مشاہدے کے ساتھ قبول کر تے ہوئے کہتا ہے کہ موت کے بعد کیا ہوتا ہےخدا کے سوا کوئی نہیں جانتا، اس لیے جب ہم جانتے ہی نہیں تو ایسی موت سے ڈرنا حماقت ہی ہو گی۔ وہ اپنے خلاف ووٹ دینے والے جیوری کے ممبران کو بھی متنبہ کرتا ہے کہ انہوں نے اپنے ناقدین کو سننے کی بجائے خاموش کروا کے فاش غلطی کی ، اور اِس غلطی سے انہوں نے اپنے آپ کو اس سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے جتنا انہوں نے اسے(سقراط) پہنچایا ۔‘‘

سقراط کی اِس تقریر پر تاریخ میں ہزاروں نہیں تو سینکڑوں تبصرے کیے گئے ہیں ،لوگوں نے موت پر کتابیں لکھی ہیں، اپنے اپنے انداز میں موت کی تعبیر بیان کی ہے ۔اسی طرح جو بات سقراط نے جیوری کے ممبران کو کہی اُس پر بھی مغربی مفکرین آج تک کتابیں لکھ رہے ہیں ۔ ایک کتاب جو مجھے بہت پسند ہے وہ Mathew Sayed کی Rebel Ideas ہے، یہ کتاب سمجھاتی ہے کہ کس طرح ہمیں خود پر تنقید کرنے والوں کو ساتھ رکھنا چاہیے اور اُن کی باتیں سُن کر اپنی شخصیت کی خامیوں اور حکمت عملی میں موجود خرابیوں کو دور کرنا چاہیے ۔لیکن ہم میں سے ہر بندہ ہی چونکہ خود کو سقراط سمجھتا ہے اِس لیے وہ روزانہ اٹھ کر اپنے گُن گاتا ہے ،خود کو از خود ولی اللہ کے درجے پر فائز کرتا ہے اور پھر ایسے بھاشن دینا شروع کرتا ہے جیسے صرف اُسی کے پاس حتمی اور آفاقی سچائی ہے ۔نہ جانے کیوں مجھے لگتا ہے کہ اگر سقراط آج زندہ ہوتا یہ جعلی دانشور اُس کے خلاف جیوری میں شامل ہو کر اسے موت کی سزا سنا دیتے!

تازہ ترین