پاکستانی قوم میں گزشتہ دو سالوں کے دوران بے چینی، نفرت اور غصے کا لاوہ تیزی سے پک رہا ہے۔پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے غریب کا چولہا ٹھنڈا کر دیا ہے۔ایک طرف مہنگائی، سیاسی بے یقینی،اور معاشی ابتری نے عوام کا بھرکس نکال دیا ہے تو دوسری طرف اشرافیہ اور افسر شاہی کی مراعات میں اضافے نے قوم کے غصے کو آسمان تک پہنچا دیا ہے۔سوشل میڈیا پر روزانہ کی بنیاد پر مفت بجلی اور حیران کن مراعات کے تذکرے نے نوجوان طبقے کی آنکھوں میں شعلے بھر دیے ہیں۔پاور ڈویژن کے اعداد وشمار کے مطابق اس وقت گریڈ ایک سے سولہ تک کے ایک لاکھ 73 ہزار ملازمین ماہانہ 33 کروڑ یونٹ مفت بجلی استعمال کرتے ہیں جنکی سالانہ مالیت 10ارب روپے ہے۔جبکہ گریڈ 17 سے گریڈ 22 تک کے 15 ہزار ملازمین سالانہ ایک ارب 25کروڑ روپے کی مفت بجلی استعمال کرتے ہیں۔جسکا بوجھ پاکستان کے عوام برداشت کرتے ہیں۔بازاروں میں ساہو کاروں نے اشیاء کی من مرضی کی قیمتیں مقرر کر رکھی ہیں۔عام آدمی خود کشی کر رہا ہے یا جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔سابق حکمراں طبقے نے اپنے جرائم معاف کرانے کے لیے پورا ملک داؤ پر لگا دیا۔گزشتہ سال کے سیلاب کے بعد تا حال زرعی زمینیں تباہ حالی سے دوچار ہیں جس سے غذائی بحران مزید سنگین ہو رہا ہے۔ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ غذائی اشیا کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ملک کے طول و عرض میں رابطہ سڑکیں سفر کے قابل نہیں۔اس پر مستزاد یہ کہ وفاق میں قائم ہونے والی نگراں حکومت ابھی تک فعال نہیں ہو سکی۔نئے وزراء اگرچہ اپنی قابلیت کے حوالے سے غیر متنازع ہیں لیکن ان کے ساتھ جو بیوروکریسی کام کر رہی ہے وہ پرلے درجے کی نااہل، نالائق اور کام چور افراد پر مشتمل ہے۔وزارتوں کے سربراہ ایسے سرکاری افسران مقرر کیے گئے ہیں جو گریڈ 21 سے گریڈ 22 میں ترقی کے منتظر ہیں اور وہ ترقی میں ممکنہ رکاوٹ کے خوف سے کسی بھی کام کو ہاتھ لگانے سے ہچکچاتے ہیں۔افسر شاہی کے اندر ایک طرف تو نیب نے خوف کے پنجے جما رکھے ہیں تو دوسری طرف نااہلی کا جادو بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ہمارے محترم نگران وزیراعظم اپنی شخصیت اور اہلیت کے اعتبار سے ایک ''مقبول و محبوب'' شخص ہیں لیکن وہ بھی جم کر کام کرنے کے بجائے دوروں پر نکل گئے ہیں۔ چیف آف آرمی اسٹاف نے سرمایہ کاروں کی سہولت کے لیے ون ونڈو آپریشن شروع کرنے کا اعلان کیا تھا آج اس کی حالت یہ ہے کہ پاکستان آرمی کے علاوہ باقی تمام محکمے روایتی سستی اور کاہلی کا شکار ہیں۔نئے سرمایہ کاروں کیلئے مناسب ماحول تو کیا پیدا ہونا تھا پہلے سے موجود سرمایہ کاروں اور کاروباری طبقے کیلئے سرخ فیتے کی ایک ایسی لائن کھینچ دی گئی ہے جس کو عبور کر کے اپنے جائز اور قانونی کام کروانا بھی ناممکن ہو گیا ہے۔رشوت کا ریٹ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ متوسط طبقے کا تاجر اپنے کام کیلئے سرکاری دفاتر کا رخ کرنے سے ہی خوف کھاتا ہے۔ قبل ازیں تو صرف پٹواری ہی رشوت لینے کیلئے بدنام تھا لیکن آج تو یوں لگتا ہے کہ پوری افسر شاہی تسبیح کی ایک دانے کی مانند اس دھاگے میں پروئی جا چکی ہے۔پنجاب میں بلدیاتی اداروں کی عدم موجودگی نے نہ صرف معمولی مسائل کو الجھا دیا ہے بلکہ عوام کے احساس محرومی میں اضافہ کر دیا ہے۔اختیارات مراعات اور سہولتیں کے نشے کی لت میں مبتلا حکمران ابھی تک یہ محسوس نہیں کر پا رہے ایک خونی انقلاب پاکستان کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔بجلی کے بلوں کی وجہ سے سیاسی لیڈروں کی رہنمائی کے بغیر عوام از خود مظاہروں میں مصروف ہیں۔میرے شہر بھیرہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عورتوں اور بچوں نے بھی سیاسی قیادت کے بغیر از خود مظاہرہ کیا ہے۔ہماری اشرافیہ یہ حقیقت کیوں فراموش کر رہی ہے کہ جب احتجاج کی باگ ڈور عوام کے پاس ہوتی ہے تو اس وقت وہی ہوتا ہے جو اس سے پہلے تیونس، الجزائر،مصر اور سری لنکا میں ہو چکا ہے۔پاکستان کے عام آدمی کے لیے زندگی گزارنا مشکل کر دیا گیا ہے۔کوئی بجلی کے بل ادا کرنے کے لیے ادھار لے رہا ہے تو کوئی اپنے گھر کا سامان یا زیور بیچ کر بل ادا کر رہا ہے۔بجلی کی چوری اور حکومتی نااہلی کا سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا گیا۔جو بجلی چوری کرتا ہے وہ بل ادا نہیں کرتا جبکہ عام صارف اس کے حصے کا جرمانہ بھی ادا کرتا ہے۔عام آدمی کو جب یہ معلوم ہوتا کہ حکمران اشرافیہ نہ تو بجلی کا بل اپنی جیب سے دیتی ہے،نہ پٹرول اپنی گرہ سے ڈلواتی ہے،انہیں گاڑیاں بھی مفت ملی ہوئی ہیں،وہ سرکاری دفاتر میں بجلی کا بے دریغ استعمال دیکھتے ہیں تو ان کے غصے میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے،لیکن اب مزید ایسا نہیں چلے گا۔لوگوں کا صبر جواب دے چکا ہے۔ادھار مانگ مانگ کر لوگ تنگ ا ٓچکے ہیں۔توقع کی جا رہی ہے کہ آئندہ دنوں میں پٹرول مزید مہنگا ہوگا۔جس سے ملک کے طول و عرض میں موجود احتجاج میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے،اور حالات میں خرابی کی تمام تر ذمہ داری حکمران اشرافیہ پر عائد ہوتی ہے، نگران حکومت کو کچھ اہم فیصلے لینا ہوں گے،محکمانہ نااہلی اور حکمرانوں کی عیاشیوں کا مزید بوجھ عوام برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں۔اب لوگ حالات کے بہتری کیلئے عام انتخابات کا بھی انتظار نہیں کریں گے۔ حکمرانوں کو انداز حکمرانی میں تبدیلی لانا پڑے گی۔مفت کی عیاشی ختم کرنا ہوگی۔عوام اور حکمرانوں کے مابین بڑھتی ہوئی خلیج کم کرنا ہوگی۔ورنہ انقلاب تو دستک دے ہی رہا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)