جھوٹ ،جھوٹ متواتر جھوٹ بول کر لوگوں کو گمراہ کرنے کا دھندہ ابھی جاری ہے، بھٹو سے حسد کرنے والوں کو کون سمجھائے کہ عمران نیازی کی گرفتاری سے بھٹو کا کیا تعلق ؟ ۔کیا عمران نیازی کو صدر آصف علی زرداری اور چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے جیل میں ڈالا ہے ؟ جو عمران خان کی ہمدردی میں ٹسوے بہاتے ہوئے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید سے نفرت کا اظہار کررہے ہو۔ معروف شاعر افتخار عارف نے 4 اپریل 1978 کو کہا تھا
بولتی آنکھیں چپ دریا میں ڈوب گئیں
شہر کے سارے تہمت گر خاموش ہوئے
'کیا واقعی تہمت گر خاموش ہوگئے ہیں یا انہوں نے تہمت گری کے ذریعے عوام الناس کو گمراہ کرنے کو اپنا دھندہ بنا لیا ہے۔ در اصل ایک سوچ تقریبا ًنصف صدی سے عوامی شعور کے خلاف مہم جوئی میں مصروف ہے عوام کے شعور کو کچلنے کے لیے کبھی تختہ دار سجائے گئے تو کبھی لسانی اور فرقہ وارانہ تعصب کے کانٹوں کی آبیاری کی گئی ۔ کبھی نرسری میں سیاستدان اگائے گئے تو کبھی جہاد کے نام پر شدت پسندوں کی آبیاری کی گئی۔ میرا صرف ایک ہی سوال ہے کہ اگر قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کی ملک کیلئے خدمات کو فراموش کیا جائے تو ہمارے پاس فخر کرنے کیلئے بچتا ہی کیا ہے؟
ہم پاکستان کی ایٹمی قوت پر فخر کرتے ہیں مگر بھول جاتے ہیں اس کے بانی بھٹو شہید ہیں ،ہم 1973 کے آئین کا حلف لیتے ہیں مگر بھول جاتے ہیں کہ قوم کو آئین کا نور دینے والا کون ہے ؟ ہیوی مشینری فیکٹری اور ایروناٹیکل کمپلیکس بھی بھٹو شہید کی ہی تو نشانیاں ہیں۔ چاروں صوبوں میں میڈیکل کالج 'یونیورسٹیوں اور کیڈٹ کالجز کا قیام بھی بھٹو شہید کےکارنامے ہیں۔ جی ہاں قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہیدنے پاکستان کے ہر شہری کو پاسپورٹ بنوانے کا حق دیا جس کی وجہ سے آج کروڑوں پاکستانی دنیا بھر میں آباد ہیں۔ آج اگر ہر پاکستانی کو ووٹ کا حق حاصل ہے تو یہ بھی بھٹو شہید کا کارنامہ ہے۔ زرعی اصلاحات ہوں یا لیبر اصلاحات یہ بھی شہید ذوالفقار علی بھٹو کا کارنامہ ہے۔ ہم کیسے بھول سکتے ہیں کہ پاکستان اسٹیل ملز بھی شہید بھٹو کا ہی تحفہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید 20 دسمبر 1971 میں اقتدار میں آئے ساڑھے چار سال کے دوران انہوں نے تاریخ ساز کام کیے ان کے پاس وقت کب تھا کہ کسی گمنام مخالف کو انتقام کا نشانہ بناتے؟ میں نے بہت سارے انقلابیوںکی لکھی ہوئے کتابیں پڑھی ہیں مگر کسی نے غریبوں کی حالت بدلنے کی بات نہیں کی مگر قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید نے ضرور کی انہوں نے کہا کہ’’ یہ قدرت کا قانون نہیں ہے کہ غریب ہمیشہ غریب ہی رہے۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ بھٹو شہید نے طبقاتی نظام کے بخیے ادھیڑ دیئے تھے ۔قائد عوام شہید نے سیاست کو محلات سے نکال کر عوام کےدرمیان لا کر کھڑا کردیا۔
دنیا ئےاسلام کے ہیرو شاہ فیصل شہید،شیخ زاید بن سلطان، شاہ حسین ' اور یاسر عرفات ان کےعشاق تھے ۔کون بھول سکتا ہے کہ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید نے اسلامی ممالک کے درمیان رنجشیں ختم کرکے انہیں لاہور میں اکٹھا کیا تھا ' ہاں یہ بھٹو شہید ہی تھے جنہوںنے کہا تھا کہ وائٹ ہائوس میرے قدموں کے نیچے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو ملک کو ایٹمی طاقت بنانا چاہتے تھے وہ ایٹم بم کے ذریعے پاکستان کو انرجی، زراعت اور صحت کے شعبے میں ملک کو سپر طاقت بنانا چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہم گھاس کھالیں گے مگر ملک کو ایٹمی طاقت ضروربنائیں گے ۔ مگر ہوا کیا ان کے خلاف سازشوں کے جال بُنےگئے ،پی این اے یعنی پاکستان قومی اتحاد جوڑا گیا ڈالروں نے چمک دکھائی اور اقتدار کےتمنائیوںنےاپنے ہی ملک پر قبضہ کیا اور پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کی جستجو کرنے والے قائد عوام بھٹو شہید کو تختہ دار پر لے جاکر یہ باور کرایا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں گھاس نہیں اگتی۔
حقیقت تو یہ ہے کہ 4 اپریل 1979کو قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کا قتل نہیں ہوا پاکستانی قوم پرستی کو تختہ دار پر چڑھایا گیا تھا ' قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید نے قوم کو مضبوط تربنایا تھا مگر اقتدار کے لالچیوں نے پاکستانی قوم کو برادری زبان اور فرقہ واریت میں تقسیم کردیا۔ میرا سوال یہ ہے کہ بھٹو شہید سے نفرت کی بنیاد پر کب تک قوم کو گمراہ کرنے کی مشقت جاری رہے گی؟یہ بات طے ہے کہ لیڈر ہمیشہ پیدا ہوتے ہیں۔ وہ قوم کی تقدیریں بدلتے ہیں۔ مقتل میںجا کر قوم کے سامنے سرخرو ہوکر زندہ جاوید بن جاتے ہیں۔ ان کی ابدی آرامگاہ پر کروڑوں لوگ آکر حاضری دیتے ہیں ۔ گملے میں اگائے ہوئے سیاستدانوں کو حکمران تو بنایا جا سکتا ہے مگر وہ لیڈر کبھی نہیں بن سکتے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)