• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے برطانوی ترقیاتی ادارے ڈی فیڈ کی سربراہ سے درخواست کی ہے کہ برطانیہ ٹیکس کے نظام کو بہتر بنانے میں پاکستان کی مدد کرے۔ یہ ایک اچھی تجویز ہے۔ پاکستان میں ٹیکس اور جی ڈی پی کا تناسب بمشکل 9 فیصد ہے اور اس کا بڑا حصہ بھی بالواسطہ ٹیکسوں یا ودہولڈنگ ٹیکس کی صورت میں حاصل کیا جاتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ غریب ترین شخص کو بھی اشیا اور خدمات پر وہی ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے جو امیر ترین لوگ ادا کرتے ہیں۔ ٹیکس کی مناسب صورت یہ ہے کہ امیر شہری کو زیادہ ٹیکس دینا پڑے اور غریب آدمی پر ٹیکس کی شرح نرم رکھی جائے۔
سوال یہ ہے کہ ٹیکس کے بغیر حکومت اپنے فرائض ادا نہیں کر سکتی اور ٹیکس دینے کی ثقافت ہمارے ہاں موجود نہیں۔ چنانچہ غور کرنا چاہئے کہ لوگوں کو ٹیکس ادا کرنے کی ترغیب کیسے دی جائے؟اس کے لئے ضروری ہے کہ شہری کو یہ احساس ہو کہ ریاست اس کی بنیادی ضروریات پوری کر رہی ہے یا ایسا کرنے کی پوری کوشش کرتی ہے۔گویا ریاست اور شہری میں براہ راست تعلق بے حد ضروری ہے۔ شہریوں میں یہ احساس پیدا ہونا چاہئے کہ ریاست ایک اجنبی اور ظالمانہ ادارہ نہیں بلکہ ایک مددگار بندوبست ہے۔ شہری کو یہ احساس کب اور کیسے ہو سکتا ہے؟ تعلیم ہر بچے کی ضرورت ہے۔ ریاست نے آرٹیکل 25کے تحت اسکول جانے کی عمر کے تمام بچوں کو تعلیم فراہم کرنے کی آئینی ذمہ داری قبول کر رکھی ہے۔ ریاست یہ ذمہ داری پوری نہیں کرتی تو تعلیم سے محروم رہ جانے والے بچے سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ ریاست کو اپنا سمجھے۔ایک بیمار شخص کو علاج معالجے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر بنیادی صحت کا مرکز ہی موجود نہ ہو یا بیمار شہریوں کواسپتال کے برآمدوں میں ایڑیاں رگڑنی پڑیں تو وہ ریاست کو ہمدرد نہیں سمجھتے۔ دو وقت کی روٹی بنیادی ضرورت ہے۔ پیٹ میں بھوک کی چبھن مسلسل رہے تو چاند میں روٹیاں نظر آنے لگتی ہیں۔ پینے کا صاف پانی بنیادی ضرورت ہے۔
اگر چار میں سے تین شہریوں کو پینے کا صاف پانی ہی میسر نہیں تو آلودہ پانی کے ہر گلاس کے ساتھ ریاست سے بےگانگی بڑھتی ہے۔ جان و مال کا تحفظ شہریوں کا حق ہے۔ اگر شہریوں میں یہ احساس پھیل جائے کہ ریاست ان کی حفاظت کرنے میں سنجیدہ نہیں تو وہ ریاست سے منہ پھیر لیتے ہیں۔ سفر کی سستی سہولت سے معاشرے میں اطمینان کا ایک ان دیکھا احساس جنم لیتا ہے۔ اگر سینکڑوں لوگ ریلوے پلیٹ فارم پر اس گاڑی کا انتظار کر رہے ہوں جو دیر سے آتی ہے، مہنگی ہے اور جس میں سفر کرنا اذیت ناک تجربہ ہو جبکہ قریبی سڑک پر کچھ لوگ مہنگی گاڑیوں میں گزر رہے ہوں تو معاشرے میں ایسی خلیج پیدا ہو جاتی ہے جسے محض نعرے بازی سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لئے غور کرنا چاہیے کہ گاڑی والے کی کار سلامت مگر ریل میں سفر کرنے والے کا انسانی وقار کیسے ممکن بنایا جائے۔
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ پاکستان خاندانی عصبیت کا شکار ہے۔ لوگ ملک سے محبت کے نعرے لگاتے ہیں مگر رشوت اپنے خاندان کے لئے لیتے ہیں۔ قبیلے کے نام پر اقربا پروری کرتے ہیں۔ تو اس کی ایک وجہ یہ لوگوں کی یہ توقع ہوتی ہے کہ ان کی ضروریات خاندان کے ادارے میں تو شاید کسی نہ کسی سطح پر پوری ہو سکیں،ریاست ان کی مدد کرنےپرآمادہ نہیں۔چنانچہ ہم اپنے صاحبزادے کی شادی پر لاکھوں روپیہ خرچ کرتے ہیں اور اگر ہمارے شہر میں ہزاروں بچیاں جہیز نہ ہونے کے باعث شادی نہیں کر سکتیں تو وہ جہنم میں جائیں۔
ہمارے دل میں انسانی ہمدردی کا دریا موجزن ہوتا ہے تو ہم پچاس ساٹھ غریب بچیوں کی اجتماعی شادی کے نام پر ان کی تذلیل کا اہتمام کرتے ہیں۔ شادی سے متعلقہ بے معنی اور مضحکہ خیز رسومات کو ترک کرنے کا اعلان نہیں کرتے۔ ہم ایک دوسرے کو یہ بتانے میں بے حد خوشی محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے ملک میں خیرات دینے کی روایت بہت مضبوط ہے۔خیرات دینے سے ہماری روحانی تسکین ہوتی ہے۔ خیرات سے انسانی محرومی دور نہیں ہوتی۔ ہم سڑک پر کسی کے پھیلے ہوئے ہاتھ پر چند سکے رکھ دیتے ہیں لیکن ہم نے بطور ریاست پوری دنیا کے سامنے ہاتھ پھیلا رکھا ہے۔ اگر یہ بین الاقوامی گداگری ختم کرنا ہے تو خیرات کی بجائے ٹیکس کی ثقافت کو اپنانا ہو گا۔ ٹیکس کی ثقافت کے لئے ضروری ہے کہ لوگوں کو یہ علم ہو کہ ان کا ٹیکس ان پر خرچ کیا جاتا ہے۔ اس احساس کی پڑتال کے لئے بنیادی انسانی ضروریات میں سے صرف ایک یعنی تعلیم کو لے لیجئے۔
اپنے شہر یا قصبے میں ادھر ادھر نظر دوڑا کر یاد کرنے کی کوشش کیجئے کہ آپ کے گردونواح میں آخری دفعہ نیا سرکاری پرائمری ا سکول کب کھولا گیا۔ اصول یہ ہے کہ ریاست ہر بچے کو زیادہ سے زیادہ ایک کلومیٹر کے فاصلے پر پرائمری ا سکول مہیا کرے گی۔ یہ دلیل بے معنی ہے کہ علاقے میں بہت سے نجی پرائمری اسکول کھولے گئے ہیں۔ نجی پرائمری ا سکول کی موجودگی میں ریاست اپنے فرض سے بری الذمہ نہیں ہوتی۔ اگر لوگوں کو سرکاری اسکول میں معیاری تعلیم میسر ہو تو وہ نجی ا سکولوں کی بھاری فیس کیوں ادا کریں۔
پنجاب حکومت کے کسی ذمہ دار فرد سے بات کریں تو وہ دانش ا سکولوں کا ذکر کرے گا۔ دانش اسکولوں پر تنقید مقصود نہیں۔ لیکن ریاست کا فرض تو تمام شہریوں کو بنیادی تعلیم تک رسائی دینا ہے۔ چند درجن دانش اسکولوں کی نمائشی موجودگی ریاست کی دی ہوئی تعلیمی خیرات ہے۔ خیرات اور استحقاق میں فرق ہوتا ہے۔ ٹیکس کی ثقافت استحقاق کی ثقافت ہے۔ لکھنے والا نصف صدی پہلے ا سکول جانے کی عمر کو پہنچا تو اسکول کا پہلا بستہ مع قاعدے، سلیٹ اور تختی کے پانچ روپے میں خریدا گیا۔ اسکول کی فیس دس پیسے ماہانہ تھی۔ اسکول میں سہولتیں بہت کم تھیں ۔ لیکن اسی اسکول میں قصبے کے سب بچے پڑھتے تھے۔ بچے ماں باپ کی غربت برداشت کرسکتے ہیں، ماں باپ کی غفلت بچوں کے لئے ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ 60ء کی دہائی میں پاکستان غریب تھا، غافل نہیں تھا۔ ہمارا خستہ پرائمری اسکول غریب ریاست کی طرف سے بہترین سرمایہ کاری تھا۔ ہم نے میونسپل اسکول کی چھت تلے شفیق اساتذہ سے انسانی ہمدردی اور شہری ذمہ داری کا درس لیا۔ 1980ء کی دہائی میں ریاست نے تعلیم کی فراہمی کے فرض سے ہاتھ کھینچ لیا۔ پھر صحت عامہ نجی شعبے کے سپرد کی گئی۔ پینے کا پانی بوتلوں میں فروخت ہونے لگاتو ریاست نے ان لوگوں کی پروا کرنا چھوڑ دی جو بدبودار پانی پینے پر مجبور ہیں۔ ریلوے کی بجائے سڑکوں کی تعمیر پر اس لئے زور ہے کہ سڑک امیر آدمی کے کام آتی ہے اور ریلوے عام شہری کی ضرورت ہے۔ ریاست کی معاشی ترجیحات پر نظرثانی کیے بغیر ٹیکس دینے والوں کی بنیادی ضروریات پوری نہیں کی جا سکتیں۔ ہم نے عشروں تک دفاع پر پیسے خرچ کیے ہیں۔ اب ایٹمی صلاحیت کی صورت میں پاکستان کو دفاع کی بہترین ضمانت میسر ہے۔ چنانچہ ہمیں روایتی ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل ہونے کی بجائے تعلیم ، صحت اور دیگر بنیادی ضروریات پر توجہ دینی چاہئے۔
حیرت کی بات ہے کہ ہم نے طرز حکمرانی میں جمہوریت کی بجائے سکیورٹی اسٹیٹ کا نمونہ اپنایا ہے اور معیشت میں فلاح کی بجائے منڈی کے بے رحم مقابلے کو ترجیح دی ہے۔ یہ دو بنیادی ترجیحات تبدیل کیے بغیر ریاست اور شہری میں وہ تعلق قائم نہیں ہو سکتا جس کی مدد سے ذات برادری کی بجائے ٹیکس کی ثقافت رائج کی جا سکے۔ ٹیکس دہندہ شہری کو احترام دیے بغیر ریاست کی عمل داری قائم نہیں ہو سکتی۔ یہ ایسا فیصلہ ہے جو ہمیں خود کرنا ہو گا۔ ٹیکس کے برطانوی ماہرین اس میں ہماری کوئی مدد نہیں کرسکتے۔
تازہ ترین