• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یقینا بجلی کے بل ہمارے ملک میں ایک سر درد بنے ہوئے ہیں،ہر شخص پریشان ہے کہ اس درد کو ختم کرنے کے لئے کون سی درد ختم کرنے والی دوا (pain killer) لی جائے،اسی طرح مسلسل بڑھتی پیٹرول کی قیمت دوسرا درد سر ہے،پھر اس پر سونے پہ سہاگہ ڈالر کی ترقی پاکستانی روپے کے مقابلہ میں، اس سے اٹھنے والا مہنگائی کا طوفان جو اوسط درجے کی آمدنی کمانے والوں کی کمر ہی توڑے ہوئے ہے۔لوگوں نے پریشان ہو کر احتجاج کرنا شروع کردیا ہے جس میں تشدد کا عنصر موجود ہوتا ہے،دوسرے جو احتجاج نہیں کر رہے وہ جھنجھلاہٹ کا شکار ہیں،بدمزاجی، بات بے بات غصہ ان کی شخصیت کا حصہ بن چکی ہے،ایسے میں ان لوگوں کے ٹھاٹھ باٹھ دیکھنا جو یہ ساری سہولتیں (مفت بجلی، مفت پیٹرول اور مفت بیرون ملک کا سفر) بے دریغ استعمال کر رہے ہیں، لوگوں کی برداشت کے امتحان کو ختم کرتی جارہی ہے،سوشل میڈیا مسلسل طنزیہ فقروں، میم، اور ویڈیوز سے بھرا ہوا ہے ،لیکن کیا سوشل میڈیا پہ تنقید کردینے سے یہ ساری چیزیں سستی ہوجائیں گی؟ روپے کی قدر بڑھ جائے گی، بجلی کے بل کم ہوجائیں اور پیٹرول ایرانی پیٹرول کی قیمت میں ملنا شروع ہوجائے گا؟لوگوں کے دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ جو چیز سوشل میڈیا میں وائرل یعنی مشہور ہوجاتی ہے اس کا اثرضرور آتا ہےلیکن ذرا ماضی کا جائزہ لیں کتنے ایسے مسائل تھے جن کو سوشل میڈیا میں اٹھایا گیا خوب واویلا مچا۔ انسانی حقوق کی لازوال مثالیں دی گئیں۔ لیکن پھر کیا ہوا؟ سارے انسانی حقوق کے فلسفے، انصاف پسندی کی علمبرداری، سچ کا ساتھ دینے کا دعوٰی سب دھرےکے دھرے رہ گئے،کیوں کہ ہوتا وہی ہے جو سسٹم میں ہوتا آیا ہے۔لہذا مسائل یعنی بیماریوں سے نپٹنے کے لئے سب سے اہم ہے کہ بیماری کی وجہ معلوم کی جائے،یعنی بجلی کیوں مہنگی ہورہی ہے، پیٹرول کی قیمت کو پر کیوں لگ رہا ہے، ڈالر مسلسل اڑان کیوں بھر رہا ہے؟ کیا اس میں ہمارے رویوں کا تو ہاتھ نہیں؟ یا حکومتی پالیسیوں کا نتیجہ تو نہیں؟ یقینا روپے کی گرانی میں ہمارا ہاتھ ہے کیوں کہ ہمیں سب سے اچھی باہر ہی کی چیزیں لگتی ہیں، باہر ہی گھومنا پسند ہے، باہر سے تعلیم حاصل کرنی ہے، اپنی بچت باہر رکھنے میں زیادہ منافع نظر آتا ہے، روپیہ اکاؤنٹ کھولنے سے زیادہ ڈالر اکاؤنٹ کی افادیت محسوس ہوتی ہے،دوسری طرف حکومت بھی اپنے سارے اخراجات میں سے باہر کے ممالک میں خرچ کرنے کے لئے ایک بڑا حصہ رکھتی ہےیوں مسلسل ڈالر کی مانگ ہم خود بڑھائے چلے جارہے ہیں۔ تجارتی توازن اور حکومتی بجٹ کے توازن میں مسلسل خسارے کا شکار ہیںجن کو متوازن کرنے کے لئے بھیک مانگنے کا پیالہ لئے چند مخصوص ممالک کے پاس جاتے ہیں اور ناکافی اماونٹ ملنے کے بعد آئی ایم ایف کے دربار پر کھڑے ہوتے ہیںجہاں سے مخصوص شرائط پر ادھار مل جاتا ہےپھر ہم اور حکومت چین کی سانس اور نیند لیتے ہیں کیونکہ اب راوی چین لکھ دیتا ہے،اس وقت ہم سب یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ ادھار پچھلے کیے گئے خرچے کو آمدنی سے متوازن کرنے کے لئے دیا گیا ہے ناکہ آنے والے دنوں میں خرچ کرنے کے لئےلہٰذا اب اپنے ہونے والے جڑواں خسارے کو پورا کرنے کے لئے آئی ایم ایف کی تمام سخت شرائط کو مان لیتے ہیں۔اب ہم سوشل میڈیا کو بھر ڈالیں اپنے احتجاج سے، سڑکیں بلاک کریں، یا بجلی کے بل کے عملے کی پٹائی کریں، حاصل کچھ نہیں ہوگا کیوں کہ معاہدہ بہت پہلے چکا تھا جب ہم اس کو صرف حکومتی کامیابی یا ناکامی سمجھ رہے تھے،سوتے رہیں اور محنتی نہ بنئیں، کوئی بات نہیں سوشل میڈیا مفت میں ہے تو ہمارے پاس وہاں رو لیں گے۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین