• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بجلی کے بلوں کے بعد اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ عوام کے صبر کا پیمانہ کیوں لبریز ہو رہا ہے۔ مسئلہ اب صرف بجلی ہی کا نہیں رہا بلکہ مجموعی مہنگائی بھی روز افزوں ہے۔ تقریباً ایک مہینے کے دورانیے میں پٹرول اور ڈیزل کی فی لٹر قیمت میں60روپے کا اضافہ ہو چکا ہے۔ ایک عام پاکستانی کے لیے جینا ہی مشکل ہو گیا ہے۔

پاکستان کے اثاثے ہوں یا حکومتی پالیسیاں، صرف اشرافیہ ہی ان سے بہرہ مند ہوتی رہی ہے۔ اشرافیہ کی عیاشیوں نے ملک کو اس نہج تک پہنچا دیا ہے کہ اب عوام اپنے بجلی کے بل تک دینے سے قاصر ہیں۔ اشرافیہ سے میری مراد صرف بڑے کاروباری افراد ہی نہیں ہیں بلکہ اس ملک کے سرکاری افسر، سیاستدان،حکمران اور ہر کوئی ہے جو نظام سے مستفید ہوتا ہے۔ یہ وہ طبقات ہیں جو حکومت سے مراعات اور سبسڈیز لیتے ہیں۔ اندرون اور بیرون ملک اپنے بڑے بڑے کاروبار سیٹ کیے ہوئے ہیں جن کے فروغ کے لیے وہ ایوانوں میں بیٹھ کر مرضی کی پالیسیاں بناتے ہیں۔ ہم کرپشن کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ سمجھتے ہیں لیکن اصل مسلہ لیگلایئزڈ کرپشن ہے جس سے ملکی اثاثوں کی اشرافیہ میں بندر بانٹ ہوتی ہے۔

افسر شاہی کو ہی دیکھ لیں۔ یہ ہمارے ملک کے سب سے مراعات یافتہ طبقات میں سے ایک ہے۔ اگر انہیں حاصل مراعات اور ان کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔ کسی بھی کمپنی یا محکمے کے ملازمین کی کارکردگی کا اندازہ اُس محکمے کی مجموعی کارکردگی سے لگایا جا سکتا ہے۔ ملک میں شاید ہی کوئی ایسا سرکاری محکمہ ہو جس کے بارے میں یہ کہا جا سکے کہ اس کی کارکردگی یا انتظامیہ اچھی ہے۔ملک میں شاید ہی کوئی ایسا سرکاری دفتر ہو جس کے بارے میں کہا جا سکے کہ وہاں گڈ گورننس، پیشہ ورانہ مہارت، سروس ڈلیوری کے قواعد و ضوابط کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ان سرکاری محکموں میں تعینات افسران جنہیں حکومت کی طرف سے بڑے بڑے گھر ، بڑی بڑی گاڑیاں بھی ملتی ہیں، مفت بجلی اور پٹرول بھی ملتا ہے، پلاٹ اور نوکر بھی ملتے ہیں اور سب سے بڑھ کر اتھارٹی بھی ملتی ہے۔ اگر کارکردگی کا موازنہ کسی نجی ادارے سے منسلک ایسے فرد سے کیا جائے جو ایک سرکاری افسر سے کافی کم تنخواہ اور مراعات لے رہا ہو تو دونوں کی کارکردگی میں زمین آسمان کا فرق ہوگا۔ یہ کرپشن کی وہ قسم ہے جسے افسر شاہی نے سرکاری پالیسیوں کو اپنے مفادات کے مطابق ڈھال کر جائز قرار دے رکھا ہے۔لیکن اُن کی ناقص کارکردگی پر انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں، زیادہ سے زیادہ اُن کی دوسری جگہ پوسٹنگ کر دی جاتی ہے اور کسی کے خلاف کرپشن کی کوئی شکایت موصول ہو تو اول تو کوئی کارروائی ہی عمل میں نہیں آتی اور اگر اس افسر کے خلاف انکوائری کا آغاز کروا بھی دیا جائے تو سالہا سال مکمل ہی نہیں ہوتی۔

عوام سے کہا جاتا ہے کہ اتنا ٹیکس کولیکشن ضروری ہےکیونکہ آئی ایم ایف نے سخت شرائط عائد کی ہیں۔ گوکہ یہ ٹیکس بھی بہت زیادہ ہیں لیکن ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ملک میں ساٹھ فیصد سے زائد بجلی مہنگے فرنس آئل سے پیدا کی جاتی ہے۔ لیکن ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ملک میں سالانہ تقریباً 500ارب کی بجلی چوری ہوتی ہے جو کہ بجلی تقسیم کار کمپنیوں کے ملازمین کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں دوسرا اُن مہنگے معاہدوں کا از سر نو جائزہ کیوں نہیں لیا جاتا جو آئی پی پیز سے کیے گئے ہیں جن کے مطابق حکومت کپیسٹی چارجز کی مد میں اربوں روپیہ ان کمپنیوں کو اُس بجلی کی مد میں ادا کرتی ہے جو نہ تو عوام تک پہنچتی ہے اور نہ عوام اسے استعمال کرتے ہیں۔ پھر ناقص معاشی کارکردگی کی وجہ سے ہونے والے نقصان کو بجلی بلوں میں بھاری ٹیکسوں کی صورت میں عوام سےپورا کیا جاتا ہے۔ اشرافیہ ان حکومتی پالیسیوں سے متاثر نہیں ہوتی چونکہ چند آئی پی پیز کے مالکان بھی اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے وہ اس صورتحال پہ چپ سادھے ہوئے ہیں۔

ملک کی معاشی بدحالی کی ایک وجہ بجٹ خسارہ بھی ہے۔حکومت آمدنی سے زیادہ اخراجات کرتی ہے۔ گمبھیر معاشی صورتحال کے پیش نظر عوام سے قربانی لی جا رہی ہے ، حکومت اپنے اخراجات کم کیوں نہیں کرتی؟ ملک میں روزافزوں مہنگائی نے معاشرے کے ہر طبقے کو شدید متاثر کیا ہے لیکن حکومت مشکل حالات کے باوجود ہر نئے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ہوشربا اضافہ کیوں کر دیتی ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں یہ اضافہ اس لیے بھی عوام کو ہضم نہیں ہوتا کیونکہ اُن کی کارکردگی سے عوام مطمئن نہیں، کم وبیش ہر سرکاری محکمے میں کرپشن کا بازار گرم ہے، صرف من پسند افرادکے کام کیے جاتے ہیں باقی عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جاتا ہے۔ ملکی معیشت اس قابل نہیں رہی کہ حکومت سرکاری افسروں کو کروڑوں روپے مالیت کی گاڑیاں بانٹتی پھرے، انہیں کنالوں پہ محیط بڑے بڑے بنگلے دیے جن کی دیکھ بھال پر ماہانہ سرکاری خزانے سے اربوں روپیہ خرچ ہوتا ہے۔ یہی پیسہ حکومت ملک میں بھوک سے مرتے عوام پر خرچ کر سکتی ہے۔ بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے جو چاند کے جنوبی حصے پر لینڈ کرنے والا دنیا کا پہلا ملک بن چکا ہے جبکہ اب اس نے سورج کی تحقیق کے لیے بھی اپنا ایک مشن خلا میں بھیج دیا ہے۔ بھارت میں بڑے سے بڑے سرکاری افسر کو بھی ٹاٹا گاڑی دی جاتی ہے جو بھارت میں مقامی سطح پر بنائی جاتی ہے۔دیگر ترقی یافتہ ممالک میں تو سرکاری ملازمین کو یہ سہولت بھی حاصل نہیں۔

ملک کی اشرافیہ ہر شعبے میں حکومتی نمائندوں کی ملی بھگت سے بھرپور فائدہ اٹھا کر عیاشی کررہی ہے جبکہ ان کی عیاشیوں کا بوجھ عوام اٹھا رہے ہیں۔ اب آئی ایم ایف کی سخت شرائط، مہنگی بجلی اور پٹرول کی وجہ سے مجموعی مہنگائی میں ہوشربا اضافے نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے۔ لیکن ملک کی اشرافیہ کو عوام کا کوئی احساس نہیں کہ جن عوام پر بوجھ ڈال کر وہ برسوں سے عیاشیاں کرتے چلے آئے ہیں اب ان کا بوجھ ہی بانٹ لیں۔ اگر ایسا ہی رہا، اشرافیہ اور حکمرانوں نے اپنی روش نہ بدلی تو عوام سیاسی جماعتوں کے کہنے پر تو اس طرح سڑکوں پر نہیں نکلتے لیکن اس مہنگائی، اشرافیہ اور حکمرانوں کی بے حسی اور عیاشیوں کے خلاف ضرور سڑکوں پر نکل کھڑے ہوں گے اور کوئی جیل ان کو اندر نہیں رکھ سکے گی۔ عوام پر بوجھ ڈال کراب اشرافیہ اور حکمران مزید عیاشی نہیں کر سکتے اور فوری اصلاح کرنا ضروری ہو چکا ہے ورنہ آگے تباہی ہی تباہی ہو گی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین