• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر طاہر رضا بخاری

سُلطانِ طریقت، قُطبِ زمانہ، مخدومِ اُمم،مرکزِ تجلیات،منبع فیوض و برکات الشیخ السیّد علی بن عثمان الہجویری المعروف بہ حضرت داتا گنج بخشؒؒ کا وجودِ مسعود لاہوراور اہلِ لاہور کے لیے مرکزِ مہر و وفا اور سرچشمۂ تمنّا ودعا ہے۔ آپ ؒ کی حیاتِ ظاہری بھی اس خطے کے لوگوں کے لیے سراپا رحمت و رافت تھی اورآپؒ کے باطنی و روحانی فیوض و برکات آج بھی اس سرزمین کے لیے محبت، ہمدردی اور خیر خواہی کا ذریعہ ہیں۔ 

پنجاب کی دینی ثقافت سے حضرت داتا گنج بخش ؒ کی محبت کو جدا کرنا، ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ یہ شاید … شاید نہیں …یقیناً حضرت داتا گنج بخش ؒ کی کرم گستریوں کا ہی فیضان ہے کہ لاہور برصغیر کے لیے قطب الارشاد (یعنی راہنمائی کا محور و مرکز) ، قطب البلاد اور مدینۃ الاولیاء ٹھہرا اور اپنی اسی روحانی مرکزیت کے سبب ہمیشہ مرجع خلائق رہا۔

شیخ احمد سرہندی حضرت مجدد الف ثانی ؒ اپنے ایک مکتوب ( جوکہ انہوں نے قلیچ خان اندجانی کے نام لکھا) میں فرماتے ہیں:’’فقیر کے نزدیک یہ شہر لاہور تمام ہندوستان کے شہروں میں قطب الارشاد کا درجہ رکھتا ہے، اس شہر کی خیر و برکت تمام بلادِ ہندوستان میں پھیلی ہوئی ہے ،اگر اس شہر میں دین رواج پذیر ہوجائے تو باقی علاقوں میں بھی شعائر کا رواج محقق رہے گا۔‘‘

جسٹس (ر) سیّد امیر علی لکھتے ہیں کہ حضرت داتا گنج بخشؒ ،اپنی لاہور آمد کے بعد، بھاٹی دروازے کے باہر قیام فرما ہوئے۔ اہلیانِ علاقہ کی عقیدتیں اور ارادتیں آپ کی قیام گاہ کی طرف ہجوم کرنے لگیں۔ لوگوں نے ’’ بھاٹی دروازے‘‘ کا نام تبدیل کر کے اُسے ’’ہجویری دروازہ‘‘سے موسوم کرنا چاہا۔ مرشد لاہور اور سیّد ہجویر حضرت داتا گنج بخش ؒ نے لوگوں کو ایسا کرنے سے منع کردیا کہ یہاں پہلے سے مقیم اور آباد لوگوں کی اس سے دل آزاری اور حوصلہ شکنی ہو گی، لیکن شاید آپ کی بصیرت اور بصارت اس آنے والے وقت کا مشاہدہ کر رہی تھی کہ صرف ’’بھاٹی دروازہ‘‘ نہیں، بلکہ پورا لاہور ’’ داتا کی نگری‘‘ سے موسوم ہو جائے گا۔

اے آبروئے ملّتِ بیضا کے پاسبان

لاہور تیرے دم سے عروس البلاد ہے

بلکہ حضرت اقبالؒ نے تو یہاں تک فرما دیا :

خاکِ پنجاب از دمِ اُو زندہ گشت

صبح ما از مہرِ اُو تابندہ گشت

’’ آپ کے وجودِ سعید کے سبب سرزمین پنجاب یعنی اس پورے خطے کو نئی زندگی عطا ہوئی اور آپ ہی کے آفتابِ وجود سے ہماری ملّت کے اُفق روشن ہوئے۔‘‘

حکیم الامت حضرت اقبالؒ نے حضرت علی ہجویریؒ کی تعلیمات کے حوالے سے یہ بات نمایاں طور پر بیان کی ہے کہ آپؒ نے لاہور تشریف فرما ہو کر ہندوستان کی پہلی مسجد کی بنیاد رکھی، جس کے زیر سایہ اسلامی علوم و معارف کا وہ عظیم المرتبت مکتب اور محبت و رواداری سے مزین وہ رفیع الشان خانقاہ قائم ہوئی کہ جس کی برکات سے نہ صرف لاہور مسلمانوں کا ایک اہم اور مضبوط مرکز بن گیا،بلکہ یہاں سے مسلمانوں کے ایسے رجال عظیم اُٹھے کہ جن سے پورا ہندوستان فیض یاب ہوا اور اس شہر سے اسلامی تہذیب و تمدن کے ایسے چشمے پھوٹے کہ جس نے دنیا کو سیراب کر دیا۔

بلاشبہ تبلیغ دین اور اشاعتِ اسلام کی ان مربوط اور منظم کوششوں کا سہرا حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ کے سر ہے کہ جن کے دم قدم سے دینِ اسلام کی ترویج کا وہ نظام قائم ہوا جو بنیادی طور پر آپؒ کے علم وعرفان اور ایمان و ایقان کا مرہونِ منّت تھا۔ آپؒ غزنوی ہونے کے باوجود نہ صرف لاہور سے منسوب ہوئے، بلکہ لاہور آپ سے منسوب ہوگیا۔

حضرت علی ہجویریؒ کے فیضانِ کرم کا ایک اہم باب… حضرت اقبال… جنہوں نے اسی لاہور سے اپنے معجز نما کلام کے ذریعے مسلمانوں کو بیدار کیا اور انہیں ایک آزاد قوم کا شعور عطا کیا۔ برصغیر میں احیائے اسلام کی اس عظیم تحریک … جس کے محرک اگرچہ اقبال ہیں، لیکن اس تحریک کا اصل سرچشمہ اور سوتہ مرکز تجلیات حضرت داتا گنج بخشؒ کے آستاں سے پھوٹتا نظر آتا ہے۔ بقول حضرت اقبال:۔

بند ہائے کوہسار آساں گسیخت

در زمینِ ہند تخمِ رسجدہ ریخت

’’ یعنی آپ دشوار گزار راستے طے کر کے اس خطہ میں تشریف لائے اور ہند کی سرزمین میں اسلام کی تخم ریزی فرمائی۔‘‘

حضرت داتا گنج بخشؒ کی اسی مساعی جمیلہ کے نتیجے میں دنیا کو ایک عظیم اسلامی مملکت میسر آئی، جس کے بارے میں حضرت اقبال کا یہ فرمان بلاشبہ منفرد اور معتبر ہے :’’ دنیا بھر میں شاید ہندوستان ہی ایک ایسا ملک ہے جس میں اسلام کی وحدت خیز قوت کا بہترین اظہار ہوا ہے۔ ‘‘

حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ نے اسی شہر لاہور میں تصوف کی معرکۃ الآراء کتاب ’’ کشف المحجوب‘‘ تصنیف فرمائی، جس کے ذریعے صوفیانہ افکار و تعلیمات کو مکمل طور پر احکامِ شریعت کے نہ صرف تابع قرار دیا، بلکہ تصوف کو شریعت کا امین اور نگہبان بنا کر پیش کیا اور یوں برصغیر میں ایک ایسے اسلامی مکتبِ تصوف کی بنیاد رکھی جس کی بلندیوں پر ہمیشہ شریعت و طریقت کا پرچم لہراتا رہے گا۔

ایک ہزار سال قبل ہند کی سرزمین میں حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ نے حرفِ حق کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت،نبی ﷺ کی رسالت اور اسلام کی حقانیت کا جو بیج بویا ، وہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے ایک ایسا تناور درخت بن گیا جس کی جڑیں اس سرزمین میں نہایت مضبوط ہوگئیں اور شاخیں وسیع فضاؤں میں پھیل گئیں۔ مرشد لاہور حضرت علی ہجویریؒ نے جو شجر ِ طیبہ بویا، علامہ اقبالؒ اسی شجر طیبہ کا حیات بخش ثمر تھے جنہوں نے کلمۂ طیبہ کی بنیاد پر اس خطۂ ارضی کے حصول کا راستہ مسلمانانِ ہند کو دکھایا۔

آج مرشد لاہور حضرت علی ہجویریؒ کے عطا کردہ اس خطۂ پاک کی حفاظت و استحکام کے لیے بھی آپ ہی کے محبت آمیز اور ایمان افروز افکار و نظریات سے راہنمائی کی اشد ضرورت ہے۔ آج وطن عزیز پر جس انتہا پسندی اور تشدد پرستی کے سائے منڈلا رہے ہیں، اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہم حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ کے اُنہی اخوت و انسان دوستی پر مبنی متصوفانہ افکار و کردار اور حیات واحوال کو اپنا رہبر و رہنما بنائیں۔ نیز حضرت داتا گنج بخش ؒ کے افکار و احوال کو بھی اپنا رہبر بنانا ہوگا جس میں آپ فرماتے ہیں کہ اخلاق و معاملات کی پاکیزگی، صوفی کے کردار کا وہ جو ہر ہے جو اُسے گرد و پیش سے ممتاز کرتا ہے۔

حضرت داتا گنج بخش علیہ الرحمۃ نے تصوف کے مدعی حضرات کو تین واضح خانوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ فرماتے ہیں :’’ تصوف کے ماننے والوں اور اس پر عمل کرنے والوں کی تین قسمیں ہیں: ایک کو صوفی، دوسرے کو متصوف اور تیسرے کو مُستصوف کہتے ہیں۔

٭ صوفی وہ ہے جو خود کو فنا کر کے حق کے ساتھ مل جائے اور خواہشاتِ نفسانیہ کو مار کر حقیقت سے پیوستہ ہو جائے۔ ٭ مُتَصَوِّف وہ ہے جو ریاضت و مجاہدے کے ذریعے اس مقام کو طلب کرے اور وہ اس مقام کی طلب حصول میں صادق و راست باز رہے۔٭ مُسْتَصْوِفْ وہ ہے جو دنیاوی عزت و منزلت اور مال و دولت کی خاطر خود کو ایسا بنائے اور اُسے مذکورہ منازل و مقامات کی کچھ خبر نہ ہو۔ ‘‘

پہلا گروہ جو صوفی کہلانے کا لفظاً اور معناً حق دار ہے،وہ واصلانِ حق کا گروہ ہے۔ دوسرا گروہ اس راہِ حق کا صدق دل سے متلاشی ہے، اُسے مقامِ کی عظمت کا بھی احساس ہے اور اس مقام کے حصول کی تڑپ بھی رکھتا ہے مگر تیسرا گر وہ جماعت صوفیاء کے لیے ایک داغ ہے اور مفاد پرست ہے۔ حضرت داتا صاحب علیہ الرحمۃ کی رائے ہے کہ :’’ ایسے نقلی صوفیوں کے لیے عرفاء کا قول ہے کہ ’’ اَلْمُسْتَصْوِفُ عند الصوفیۃ کالذباب و عند غیرہم کالذیاب۔‘‘ 

صوفیائے کرام کے نزدیک نقلی صوفی مکھی کی مانند ذلیل وخوار ہے، وہ جو کرتا ہے نفس کے لیے کرتا ہے ،مگر وہ دوسرے کے ہاں بھیڑئیے کی مانند ہے۔ جس طرح بھیڑیا اپنی تمام قوت و طاقت مردار حاصل کر نے میں صرف کرتا ہے ، یہی حال اس نقلی صوفی کا ہے ۔‘‘