مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ
(امیر عالمی مجلس تحفظ ختمِ نبوت ،کراچی)
اسلام کی بنیاد کلمۂ طیبہ پر ہے ، اس کلمے کے دو جزو ہیں: اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی رسالت کا اعتراف و اقرار۔ اس اعتراف و اقرار کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کے سوا کسی مدعی الوہیت کا وجود ناقابل برداشت ہے،اسی طرح حضرت محمد رسول اللہ ﷺکے بعد کسی مدعی نبوت کا بساط نبوت پر قدم رکھنے کی جرأت کرنا بھی لائق تحمل نہیں، یہی ’’عقیدۂ ختم نبوت‘‘ کہلاتاہے۔ جس پر آج تک امت مسلمہ قائم رہی ہے۔ جو لو گ ’’لاالٰہ الّا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ کے ایمان و اقرار سے سرشار ہوکر نورِ ایمان سے منور ہوچکے ہیں اور اسلامی برادری کا حصہ ہونے پر فخر کرتے ہیں، ان پر یہ ذمے داری عائد کی گئی ہے کہ وہ مشرکوں کی سرکوبی کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے باغیوں کے خلاف بھی سینہ سپر ہوجائیں اور جھوٹے مدعیان نبوت کے طلسم کو پاش پاش کرکے رکھ دیں۔ اسی ذمے داری کا نام ’’تحفظ ختم نبوت‘‘ ہے۔
چوں کہ اس عقیدے کا تحفظ دین کی اساس اور بنیادہے۔ عقیدۂ ختم نبوت ہے تو ہمارا دین محفوظ ہے، عقیدۂ ختم نبوت ہے تو قرآن محفوظ ہے، عقیدئہ ختم نبوت ہے تو دین کی تعلیمات محفوظ ہیں۔ اگر یہ عقیدہ باقی نہیں رہتا تو پھر نہ دین باقی رہے گا، نہ اس کی تعلیمات اور نہ قرآن باقی رہے گا۔ بعد میں آنے والے ہر نبی کو دین میں تبدیلی و تنسیخ کا حق ہوگا۔ اس لیے اس عقیدے پر پورے دین کی عمارت قائم ہے، اسی میں امت کی وحدت کا راز مضمر ہے، یہی وجہ ہے کہ جب کبھی کسی نے اس عقیدے میں نقب لگانے کی کوشش کی یا اس مسئلے سے اختلاف کرنے کی کوشش کی، اسے امتِ مسلمہ نے سرطان کی طرح اپنے جسم سے علیحدہ کردیا، اس لیے ختم نبوت کا تحفظ یا بہ الفاظ دیگر منکرین ختم نبوت کا استیصال دین ہی کا ایک حصہ ہے ، مسلمانوں نے ہمیشہ اسے اپنا مذہبی فریضہ سمجھا ہے۔ امت نے ہر دور میں اپنا یہ فریضہ احسن طریقے سے انجام دیا اور اس فریضے کی ادائیگی میں کسی کوتاہی اور غفلت کی مرتکب نہیں ہوئی۔
عقیدۂ ختم نبوت کا تحفظ کسی ایک فرد، ایک جماعت، ایک تنظیم کا کام نہیں، بلکہ پوری امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس عقیدے کی حفاظت کرے۔ حریم نبوت کی پاسبانی اور عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کی نگہبانی ہر مسلمان کا دینی اور ملی فریضہ ہے اور مسلمانوں نے کسی بھی دور میں کبھی بھی اس فریضہ سے غفلت نہیں برتی، حضور اکرم ﷺکے زمانے سے آج تک ایک واقعہ بھی ایسا نہیں بتایا جاسکتا کہ کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا ہو اور مسلمانوں نے اس پر خاموشی اختیار کی ہو۔
ہندوستان میں جب قادیانی فتنہ نے سر اٹھایا تو امت مسلمہ اور علمائے اُمت اس فتنہ کا سر کچلنے کے لیے میدان عمل میں اترے۔ اس فتنے کے مقابلے میں تمام مکاتب فکر کے جید علماء اور مشائخ صف آرا ہوئے، لیکن ان تمام سرکردہ علماء میں حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ اس کے مقابلے میں سب سے آگے نظر آئے۔
جدید تعلیم یافتہ طبقے تک اپنی آواز پہنچانے کے لیے حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ نے مولانا ظفر علی خان اور علامہ اقبال کو تیار و آمادہ کیا۔ حضرت علامہ انور شاہ کشمیری ؒ نے اس کام کو باقاعدہ منظم کرنے کے لیے خطیب الامت حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ کو امیر شریعت مقرر کرکے باقاعدہ مجلس احرار کو اس کام کی طرف متوجہ کیا اور تحفظ ختم نبوت اور ردّ قادیانیت کا محاذ ان کے سپرد کیا۔
انہوں نے باقاعدہ اس کے لیے مستقل شعبہ تبلیغ قائم کیا اور اس کے تحت فتنہ قادیانیت کے مقابلے کے لیے اپنی تمام تر کوششیں اور صلاحیتیں صرف کردیں۔ ان کے سرفروشوں نے قادیانیت کا پوسٹ مارٹم کیا اور پورے ملک میں اپنے جوش خطابت سے مرزائیت کے لیے نفرت کا ماحول پیدا کردیااور ان سرفروشوں نے اپنے شعلۂ خطابت سے قادیانی نبوت کے خرمن کو پھونک ڈالا۔
پاکستان بن جانے کے بعد مرزا محمود اپنے پیروکاروں کے ساتھ پاکستان آیا اور یہاں اپنا اثرو رسوخ استعمال کرکے قادیانیت کو فروغ دینے کی کوششیں شروع کردی۔ یہاں ان کا اثر و رسوخ موجود تھا، کلیدی مناصب پر انہوں نے قبضہ جمالیا ۔ پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ ظفر اللہ قادیانی قرار پایا، اس طرح قادیانیت نے پاکستان میں اپنی جڑیں مضبوط کرنا شروع کیں۔
ان حالات میں ان کے خلاف کام کرنے کے لیے امیر شریعتؒ نے ملکی سیاست سے دست کش ہونے کا اعلان کردیا اور جنوری ۱۹۴۹ء سے صرف اور صرف عقیدئہ ختم نبوت کے تحفظ کے لئے کام کرنے کا اعلان فرمایا۔ قادیانی سازشوں کی روک تھام کے لئے تحریک ختم نبوت ۱۹۵۳ء برپا ہوئی، لیکن اسے بزور طاقت کچل دیا گیا۔ آئندہ کا لائحہ عمل مرتب کرنے کے لیے ملتان کی ایک چھوٹی سی مسجد ’’مسجد سراجاں‘‘ میں ۱۴؍ ربیع الثانی ۱۳۷۴ھ (مطابق ۱۳؍ دسمبر ۱۹۵۴ء) کو اپنے مخلص رفقاء کی ایک مجلس مشاورت طلب فرمائی۔ غورو فکر کے بعد ۱۹۴۹ء کے فیصلے کو آگے بڑھانے کے لئے ’’مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کے نام سے ایک غیر سیاسی تبلیغی تنظیم کی بنیاد رکھی گئی۔ جس کے پہلے امیر حضرت مولانا سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری ؒبنائے گئے۔
شیخ الاسلام حضرت علامہ مولانا سید محمد یوسف بنوری الحسینی نور اللہ مرقدہٗ کے دورِ امارت میں ۱۹۷۴ء کی عظیم الشان تحریک ختم نبوت چلی، جس کے نتیجے میں قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر آئین میں ترمیم کرکے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔ قطب الاقطاب شیخ المشائخ خواجہ خواجگان حضرت مولانا خواجہ خان محمد رحمۃ اللہ علیہ سجادہ نشین خانقاہ سراجیہ کے دور میں مجلس تحفظ ختم نبوت نے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی حیثیت حاصل کرلی اور پورے عالم میں مجلس تحفظ ختم نبوت نے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے کام کیا۔
۱۹۸۴ء میں آپ نے ایک بار پھر تحریک کو منظم کیا، جس کے نتیجے میں امتناع قادیانیت آرڈیننس منظور ہوا، جس کی رو سے قادیانیوں کے لیے اپنے آپ کو مسلمان کہنا یا کہلوانا، اذان دینا، اپنی عبادت گاہ کو مسجد قرار دینا، کلمہ طیبہ کا بیچ لگانا، مرزا غلام احمد کو نبی کہنا، اس کے ساتھیوں کو صحابی اور بیویوں کو امہات المؤمنین وغیرہ اور دیگر شعائر اسلام کے الفاظ استعمال کرنا قابل تعزیر جرم قرار دے دیا گیا۔
مجلس تحفظ ختم نبوت کا قیام انتہائی ناموافق حالات میں عمل میں آیا، حکومت کی تمام مشینری کارکنان ختم نبوت کے خلاف حرکت میں آئی ہوئی تھی، کارکنوں کی نظر بندی اور زبان بندی روز کا معمول تھی، ختم نبوت کے مجاہدین جہاں قادیانیوں کے بارے میں لب کشائی کی جرأت کرتے تو گرفتاری، مقدمہ پیشی، سزا اور جیل ان کا مقدر بنتے، اس پر مستزاد وسائل کا فقدان، تنظیمی ڈھانچے کا مستحکم نہ ہونا تھا۔
ان نامساعد حالات میں جماعت نے کام شروع کیا، ان تمام مشکلات کے ہوتے ہوئے وہ نہ گھبرائے ، نہ پیچھے ہٹے، بلکہ اپنا کام مسلسل جاری رکھا۔ تحفظ ختم نبوت کے محاذ کو مسلسل گرم رکھا، قادیانیت کو کہیں ٹکنے نہیں دیا۔ مجلس تحفظ ختم نبوت کا وجود امت مسلمہ خصوصاً اہل پاکستان کے لیے ایک انعام الٰہی ہے۔ شروع ہی میں مجلس تحفظ ختم نبوت کے دستور میں وضاحت کردی گئی کہ یہ جماعت غیر سیاسی اور خالص تبلیغی جماعت ہوگی اور اس کے ذمہ داران سیاسی معرکوں میں حصہ نہیں لیں گے، تاکہ تمام مسلمان خواہ وہ کسی جماعت یا طبقے سے تعلق رکھتے ہوں، وہ اس کام کا حصہ اور اس کے معاون بنیں اور ارباب اقتدار ، حکومتوں اور کسی سیاسی جماعت سے جماعت کا تصادم نہ ہو اور جماعت اپنی پوری توجہ اپنے تبلیغی کام پر مرکوز رکھے۔
مجلس تحفظ ختم نبوت کا عزم یہ ہے کہ ہر مسلمان کے دل میں حضور اکرم ﷺ کی محبت کا جذبہ بیدار کیا جائے اور اس محبت کے نتیجے میں ہر مسلمان کو یہ بات سمجھادی جائے، بلکہ ان کے دل و دماغ میں بٹھادی جائے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کی حفاظت اور عقیدۂ ختم نبوت کا تحفظ اور اس کی نگہبانی و پاسبانی ہر مسلمان کا فریضہ ہے ، اس کے لیے جماعت نے جہاں مختصر اور طویل دورانیے کے تربیتی کورسوں کا اہتمام کیا ، سیمینار ، علمی مذاکرے ، تقریری اور معلوماتی انعامی مقابلے کروائے وہاں جلسوں اور کانفرنسوں کا بھی اہتمام کیا۔
چنانچہ جماعت کے ماتحت بلا شبہ پورے ملک میں علاقائی وضلعی سطحوں پر سیکڑوں چھوٹے بڑے پروگرام ہوتے ہیں، جن میں ہر سال مختلف بڑے شہروں میں بڑی بڑی عظیم الشان کانفرنسیں بھی منعقد ہوتی ہیں۔ امسال۳ جون کو جلال پور پیر والا ضلع ملتان میں بڑی کانفرنس ہوئی، کراچی کے ضلع ملیر میں۱۲ اگست کو تحفظ ِ ختم نبوت علما ء کنونشن ہوا ، ۲۵ اگست کو ضلع شرقی میں علماء کنونشن منعقد کیا گیا ، جب کہ ختم نبوت کانفرنسیں ۳۱ـ ؍اگست کو کوئٹہ ، یکم ؍ستمبر کو حیدرآباد،۲ ؍ستمبر کو ضلع غربی کراچی ، ۳ ؍ستمبر کو ضلع شرقی کراچی ، ۴ ؍ستمبر کو ضلع کورنگی کراچی ، ۵ ؍ستمبر کو ضلع ملیر کراچی ، ۶؍ستمبر کو لاہور میں منعقد کی گئیں، جب کہ ۷؍ستمبر کو اسلام آباد ، پشاور ، حافظ آباد ، اور فیصل آباد میں منعقد کی جائیں گی۔آج ملک بھر میں عظیم الشان موٹر سائیکل ریلیاں نکالی جارہی ہیں، جب کہ سالانہ تحفظ ختم نبوت کانفرنس چناب نگر اکتوبر کے مہینے میں حسب سابق جامعہ ختم نبوت، مسلم کالونی چناب نگر میں ہوگی۔
یہ کانفرنسیں شرکاء کی تعداد، نظم و ضبط ، حسن انتظام اور بیانات ہر اعتبار سے اپنی مثال آپ ہوتی ہیں، ان کانفرنسوں کو دیکھ کر ہر مسلمان کی آنکھ ٹھنڈی اور دل پر سکون ہوتا ہے، جس نے بھی ان عظیم الشان کانفرنسوں کو دیکھا، عش عش کر اٹھا۔ ختم نبوت کا بول بالا ہوا۔ ہر مسلمان، ہر عاشق رسولﷺ نے ان کانفرنسوں میں شرکت کرکے جہاں اپنی والہانہ محبت رسول ﷺ کا اظہار کیا، وہاں یہ عزم بھی دہرایا کہ عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے وہ ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہیں اور قادیانیت کا اس طرح ہر جگہ تعاقب کریں گے کہ انہیں منہ چھپانے کے لیے بھی جگہ نہیں ملے گی۔