• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یاسر عالم

قرآن مجیدکی تعلیمات ملتِ اسلامیہ کا ماخذ اول ہیں، جس میں انسانی زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں مکمل رہنمائی مو جود ہے۔ عقیدۂ ختم نبوت نے امت مسلمہ کو وحدت اور استحکام کی زنجیر میں باندھ رکھا ہے، ختم نبوت کے عقیدے پر تمام فرزندانِ اسلام کا مجتمع ہونا حضوراکرمﷺ کا معجزہ اور اللہ کی سب سے بڑی رحمت ہے ،قرآن مجید میں اس عقیدے کے حوالے سے کم و بیش ایک سو سے زائد آیات مبارکہ موجود ہیں۔

ارشادِ ربانی ہے’’محمدﷺ تمہا رے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، بلکہ اللہ کے رسول ﷺاورآخری نبی ہیں اور اللہ کو ہر چیز کا علم ہے‘‘ (سورۂ احزاب) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ کو خاتم النبیین کہہ کر اعلان فرما دیا ہے کہ آپ ﷺآخری نبی ہیں۔ اسی طرح قرآن مجید کی سورۂ مائدہ میں ہے ’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت(نبوت و رسالت محمدی ﷺکی صورت میں ) تمام کردی اور تمہارے لئے اسلام کو بطور دین منتخب کر لیا ‘‘۔

اس آیت مبارکہ میں تکمیلِ دین سے مراد دین اسلام ہے، جب کہ اتمام نعمت سے مراد حضور اکرم ﷺ کی ختم نبوت ہے۔سورۃ الاعراف میں ہے’’آپ ﷺفرما دیجیے کہ اے لوگو، میں تم سب کی طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں اور ہم نے آپ ﷺکو تمام جہانوں کےلیے رسول بنا کر بھیجا اور آپ کی رسالت پر اللہ کی گواہی کا فی ہے۔ متعدد احادیث بھی عقیدۂ ختم نبوت کو ثابت کرتی ہیں جو اس عقیدے کی واضح دلیل ہے، اور دلالت و ثبوت کے اعتبار سے ہر قسم کے شک و شبہے سے پاک ہے۔ عقیدۂ ختم نبوت ان اجتماعی عقائد میں سے ہے جو کہ دین اسلام ،اصول ِدین اور ضروریات دین میں شمار کرتا ہے۔

دین اسلام میں جس طرح توحیدِباری تعالیٰ، رسالت اور قیامت کے بنیادی عقائد کے ساتھ ملائکہ پر ایمان لا نا لازمی ہے۔بالکل اسی طرح یہ عقیدہ بھی لازمی ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰﷺ اللہ کے آخری نبی اور پیغمبر ہیں اور آپ ﷺکی بعثت کے بعد قیامت تک کوئی دوسرا نبی پیدا نہیں ہوگا اور نہ ہی کسی شخص کے لیےاب یہ باب نبوت کھولا جائے گا، اس لئے جو شخص بھی ختم نبوت کے اس معنی و مفہوم کا انکار یا تاویل و تحریف کرے ،وہ بالاتفاق امتِ مسلمہ اور دائرہ ٔاسلام سے خارج ہے۔

خلیفہ اول سیّد نا صدیق اکبر ؓ عقیدہ ٔختم نبوت کے سب سے پہلے محافظ ہیں، اس عقیدے کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کےلیےاصحاب رسولﷺ نے اپنے خون کی قربانی دی، اصحاب رسول کا مقدس لہو عقیدۂ ختم نبوت کے باغیچے کو سیراب کر تا ہے۔

1953اور 1974کی تحریکات میں ہزاروں علماء،صلحاء،مشائخ اورجملہ امت محمدی نے کلیدی اور مرکزی کردار ادا کیا۔ جب بھی تقاضائے محبت درکارہوتا ہے، امت جان و دل ہتھیلی پر سجا کرمیدان کا رزار میں عقیدہ ختم نبوت کے دفاع کےلیے مو جود ہو تی ہے، کیونکہ امت محمدی یہ اچھی طرح جانتی ہے کہ حضور اکرم ﷺ کی ذاتِ اقدس کا تحفظ اورختم نبوت سے محبت کا مطلب حضور اکرم ﷺ سے محبت و الفت ہے اور ختم نبوت سے دوری کا مطلب آپ ﷺ سے دوری ہے اور حضور اکرم ﷺ کی ذات مبارکہ سے دوری امت کسی طور بھی گوارا نہیں کر سکتی ، کیونکہ یہ امت ہمیشہ حضور اکرمﷺ سے قربت کے بہانے ڈھونڈتی ہے۔ عقیدہ ٔختم نبوت سے بڑھ کر کہیں قربت و محبت نہیں مل سکتی ، اسی لیے امت مسلمہ عقیدہ ٔختم نبوت کے تحفظ کےلیے ہمیشہ متحدو متفق رہی اور اس عقیدے کا دفاع و تحفظ امت مسلمہ کے ایمان کا ہمیشہ سے لازمی جزو رہا ہے اور رہے گا۔

عہد رسالت سے آج تک کئی بد بختوں نے جھوٹی نبوت کے دعوے کیے ،لیکن اسلام کی تاریخ شاہد ہے ،جب بھی کسی مدعی نبوت نے تاج نبوت کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا تو عشق مصطفیٰﷺ سے سرشار غیور مسلمانوں نے فریضہ ٔ جہاد ادا کیا۔مرزا قادیانی نے 1901میں نبوت کا دعویٰ کیا، پا کستان بنتے وقت بھی ان کے پیروکاروں نے بہت سا زشیں کیں ۔ کم و بیش تیس ہزار مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ اس وجہ سے پیش کیا کہ ختم نبوت پر نقب زنی کرنے والے کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔

1953میں علمائے کرام نے قادیانیوں کے خلاف ایسی زبردست تحریک چلائی کہ امت مسلمہ اس مسئلے پر نہ صرف بیدار ہوئی، بلکہ تمام مسلمان اپنے مسلکی اختلافات بھلا کر ایک ہوگئے۔ آخر کار علمائے امت کی آواز اور تحفظ ناموسِ رسالت پر لبیک کہہ کر تیس ہزار عاشقانِ رسول ﷺ کا مقدس لہو یوں رنگ لایا کہ 24مئی 1974ءکو سب سے پہلے آزاد کشمیر کے صدر ،سردار عبدالقیوم نے اس بل پر دستخط کر دیئے کہ قادیانی ایک غیر مسلم اقلیت ہیں۔

 28 مئی کو نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلباء نے ربوہ پر موجود چناب نگر ریلوے اسٹیشن پر ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگائے تو قادیانیوں کو یہ بات ناگوار گزری اورطلباء پرڈنڈوں، لاٹھیوں اور کلہاڑیوں سے حملہ کیا گیا، اس واقعے کی اطلاع پورے ملک میں جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور ملک بھر میں جلسے جلوس اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ جمعیت علمائے پاکستان ،جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتوں نے یہ مطالبہ کر دیا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے۔ 30جون 1974ء کو قومی اسمبلی کے اپوزیشن اراکین قائد اہل سنت علامہ شاہ احمد نورانی، مولانا مفتی محمود، پروفیسر غفور احمد اور دیگر اراکین نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے لئے قرار داد پیش کی۔

کئی دن یہ مسلسل دلائل دیتے رہے اور یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ مرزا ناصر سے آخری بحث علامہ شاہ احمد نورانیؒ نے کی۔ اکابرین علمائے اہل سنت میں مبلغ اسلام فاتح قادیانیت علامہ شاہ احمد نورانی ؒکا نام ہمیشہ نقش رہے گا، علامہ شاہ احمد نورانیؒ اور تمام مسالک کے علماء کی طویل جدوجہد کے بعد آخر کار 7 ستمبر 1974کو پاکستان کے آئین میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا،جو بلاشبہ اسلامی تاریخ میں ایک یادگار اور تاریخ ساز دن ہے۔