• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے عوام بجلی اورپیٹرول کے ہوش ربا نرخوں اور کمر توڑ منہگائی کے خلاف اِن دِنوں سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔وہ سڑکوں اور سماجی رابطوں کے الیکٹرانی پلیٹ فارمز پر کُھل کر دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں۔ شدت سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ عوام کے محاصل پر عیش کرنےوالی اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقے کو سرکاری خزانے سے دی گئیں مراعات واپس لی جائیں۔اس مطالبے کی شدت اقتدار کے ایوانوں تک محسوس کی گئی اور نگراںوزیر اعظم نے بجلی کے بلز میں کچھ رعایت دینے کے لیے کئی اجلاس کیے،کئی تجاویز پیش کی گئیں،لیکن آئی ایم ایف اس راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔

پاکستان کے سیاسی اور سماجی نظام پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے،بلکہ اصل معاملہ بہت گہرا ہے اور اس کی جڑیں ہمارے پورے سماجی،سیاسی اور اقتصادی نظام کے گرد مضبوطی سےجمی ہوئی ہیں۔جو لوگ اس پورے گورکھ دھندے سے واقف ہیں ،ان کے نزدیک یہ معاملہ بہت گمبھیر صورت اختیا رکرچکا ہےاور اس وقت پاکستان میں جتنے بھی سیاست داں ہیں ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس نے اشرافیہ سے ’’فیض‘‘ نہ اٹھایا ہو ،خواہ وہ پی پی پی یا نون لیگ سے تعلق رکھتے ہوں یا پی ٹی آئی سے۔ایسے میں کون اس پر ہاتھ ڈال سکتا ہے ۔ ریاض مجیدنے ایسی ہی صورت حال کی جانب اس شعر کے ذریعے اشارہ کیا تھا:

بہت بے زار ہیں اشرافیہ کی رہبری سے

کوئی انسان کوئی خاک زادہ چاہتے ہیں

’’شرف‘‘والے ،مگر کون؟

اشرافیہ کی اصطلاح سے مرادوہ اقلیتی گروہ ہےجو مراعات حاصل کرتا ہے یا معاشرے کے بالائی طبقے پر قابض ہے ۔ عام طور پر ، اشرافیہ کا تعلق حکم راںطبقے یا ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو کسی خاص علاقے میں اپنی بالادستی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ متعدد مرتبہ مختلف اشرافیہ کے مابین اپنے شعبہ اثر و رسوخ کے مطابق تفریق پیدا کی جاتی ہے ۔ اقتصادی اشرافیہ ایک ملک یا خِطّے کا ایک کیس پیش کرنے کے لیے، امیر خاندانوں سے بنا ہوتا ہے. سیاسی اشرافیہ گروہوں، اہم راہ نماؤں، اور ثقافتی اشرافیہ جو آرٹ کے ذریعے ایک ثقافت پر اثر اندازگروہ جس کے اراکین لوگوں کے درمیان ہیں، دانش ورانہ کام، وغیرہ۔

ہمارے ہاں اصطلاح اشرافیہ (Elites) کے معانی میں تضاد پایا جاتا ہے۔بعض افراد اس اصطلاح کے معانی سمجھے بغیر اس لفظ کی بے تکی تکرار کرتے رہتے ہیں۔ اشرافیہ کی ایک تعریف میکس ویبر نے کی ہے جو کافی مقبول ہے، جس کی رُو سے وہ سب لوگ، جن کا سماجی ، سیاسی اور معاشی رتبہ (اس نے لفظ position استعمال کیا ہے) عام شہریوں سے بڑھ کرہے وہ سب اشرافیہ میں آتے ہیں۔ 

امراء، سیاست داں، بیورو کریٹ اور یہاں تک کہ ویبر فوجی افسران ، دانش وروں اور مذہبی شخصیات (جیسے مولاناحضرات اورپادری وغیرہ) کو بھی اشرافیہ میں شامل کرتا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ ہر دور دراصل اس اشرافیہ کے باہمی تعامل (Interaction ) اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے Equilibrium (توازن کی وہ حالت جس پر اشرافیہ کے تمام گروہ متفق ہوں) کا مظہر ہے- اس لیے ویبرکے مکتبہ فکر میں اشرافیہ اچھی بھی ہو سکتی ہے اور بُری بھی، جس کے لیے سب سے اہم پیمانہ یہ ہے کہ آیا اشرافیہ کے باہمی تعامل سے ترقی پسند دور وجود میں آتا ہے یا رجعت پسندی و افلاس کا غلبہ رہتا ہے۔

اشرافیہ کی دوسری تعریف مارکس نے کی ہے جو اسے سماجی سیاسی اور معاشی رتبےکے بجائے سرمایہ (یعنی دولت) سے متعین کرتا ہے ۔ اس مکتبہ فکر کے مطابق سماجی سیاسی اور معاشی رتبہ دراصل دولت کا مظہر ہے یا اہلِ دولت کی عطا ہے- یوں اشرافیہ سے مراد محض دولت مند طبقہ ہے یا ان کے منظور نظر افراد اس میں شامل ہیں۔ اس تعریف کو جدید سوشل سائنسز میں نامکمل سمجھا جاتا ہے، کیوں کہ یہ تمام سیاسی، معاشی اور سماجی مظاہر کی مکمل تشریح سے قاصر ہے اور اس میں تنوّع نہیں ہے۔

چناں چہ بعض افرادنے، مثلا کولمبیا یونیورسٹی کے استاد شمس رحمان خان نے اپنے مضمون The Sociology of Elite میں ویبر اور مارکس کی تعریفوں کو یک جا کر کے اشرافیہ کی تعریف متعین کرنے کی کوشش کی ہے ۔یوں اس کے مطابق اشرافیہ میں وہ لوگ شامل ہیں جن کے پاس وسائل (یعنی دولت، سرمایہ) موجود ہیں یا وہ سماجی (جیسے کہ مذہبی عہدہ، دانش ور) اور سیاسی (جیسے کہ فوجی افسران، بیورو کریٹس) رتبے کے حامل ہیں۔

– پولیٹیکل اکانومی کے لٹریچر کا ایک بڑا حصہ اس بات پر بحث کرتا ہے کہ ایک سیاسی و معاشی، یہاں تک کہ سماجی نظام ،جب مستحکم ہو تو اس سے مراد یہ ہے کہ اشرافیہ کے تمام گروہ اس کی اس حالت (Equilibrium) پر متفق ہیں اور یہ کہ تمام بڑی تبدیلیاں اشرافیہ کے گروہوں کے درمیان تصادم (دوسرے لفظوں میں Disequilibrium ) کے سبب آتی ہیں جس کی سب سے بڑی مثال میں سول وار شامل ہے۔

یہاں تک کہ اولسن کہتا ہےکہ سوشلسٹ نظام جن ممالک میں آیا وہاں اشرافیہ پہلےہی سےحالت تصادم میں تھی اور سوشلسٹ تحریکوں کو بھی اشرافیہ کے کسی طاقت ور گروہ کی مدد حاصل تھی۔ یوں پاکستان کی موجودہ کس مپرسی اور ابتر حالت کے ذمے دار پاکستان میں اشرافیہ کے وہ تمام گروہ ہیں جو اس کی موجودہ حالت پر نہ صرف خاموش ہیں بلکہ ہنوز اپنے مفادات حاصل کر رہے ہیں ۔

اولی گارچی یا چند سری حکومت

انگریزی زبان میں ایسی حکومت کوجو محدود طبقے کی ہو، کے لیے Oligarchy کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔اردو زبان میں اسے چند سری حکومت یا امرا شاہی کہا جاتا ہے۔یہ امرا شاہی ہی ہے جس کی بدعنوانیوں کی وجہ سے قوانین کا نفاذ نہیں ہو پاتا، جی ڈی پی میں بڑے معاشی شعبوں کا ٹیکس نیٹ میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے،جی ڈی پی زراعت کا حصہ چوبیس فی صد ہے ، لیکن ٹیکس نیٹ میں اس کا حصہ صرف ایک فی صد ہے۔

زراعت، ٹرانس پورٹ، ہول سیل، ری ٹیل اور رئیل اسٹیٹ کے شعبے ٹیکس نیٹ سے تقریبا باہر ہی ہیں۔ حالاں کہ اگر انہیں پوری طرح ٹیکس نیٹ میں لایا جائے اور کم از کم ٹیکس بھی لیا جائے تو ایک محتاط اندازے کے مطابق اس سے سرکاری خزانے کو بارہ سو ارب روپے سالانہ مل سکتے ہیں۔ اسمگلنگ پرقابو پاکر بھی عوام کو کافی سہولتیں فراہم کی جاسکتی ہیں۔گزشتہ دنوں نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے اسمگلنگ کی روک تھام کے ضمن میں منعقدہ اجلاس میں کہا کہ پاکستان کی معاشی مشکلات کی ایک بڑی وجہ اسمگلنگ بھی ہے، ٹیکس چوری، ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر سمیت دیگر مسائل اسمگلنگ سے جڑے ہوئے ہیں۔ 

معیشت کے مجموعی حجم کو اسمگلنگ کی وجہ سے اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے، اسمگلنگ کے ناسور کو ملک سے ختم کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔اس سے قبل پی ٹی آئی کے دورحکومت میں اٹھارہ فروری 2020کو بھی اس وقت کے وزیر اعظم ،عمران خان کی زیرِ صدارت ایسا ہی ایک اجلاس ہوا تھاجس میں وزیر اعظم نے اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کا حکم دیا تھا،وزارتِ داخلہ، قانون نافذ کرنے والے صوبائی و وفاقی اداروں، ایف بی آر، صوبائی حکومتوں کو مشترکہ طور پر اسمگلنگ کے خلاف فوری کارروائی کی ہدایت کی گئی تھی، وزارت داخلہ سے آئندہ 48 گھنٹوں میں اٹھائے جانے والے اقدامات اور جامع لائحہ عمل پر مبنی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور آئی بی، آئی ایس آئی اور ایف آئی اے کو اسمگلنگ کے خلاف موثر کریک ڈاؤن کی مانیٹرنگ رپورٹ باقاعدگی سے پیش کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ لیکن ہوا کیا؟سب کو معلوم ہے۔

اب یہ حال ہے کہ ملک میں اسمگلنگ کا حجم دفاعی بجٹ سے دوگنا ہوچکا ہے، یادرہے کہ مالی سال 23-2024کے وفاقی میزانیے میں دفاع کی مد میں 18کھرب4ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں فروخت ہونے والے 74فی صد موبائل فون غیرقانونی تجارت کے ذریعے یہاں پہنچتے ہیں۔ یہاں فروخت ہونے والا 53 فی صد ڈیزل،43فی صد انجن آئل، 40 فی صد ٹائرز اور 16 فی صد آٹو پارٹس بھی غیرقانونی تجارت کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ پاکستان کے بازاروں میں فروخت ہونے والی 23 فی صدچائے اور 20فی صد سگریٹ بھی اسمگلنگ کا مال ہوتے ہیں۔ 

تین لاکھ ٹن کپڑا اور 44 ارب روپے کی ادویات بھی غیرقانونی تجارت کے ذریعے پاکستان کے بازاروں میںمیں داخل ہوئیں۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کس قدر بڑی مقدار میں سامان ڈیوٹیز ادا کیے بغیر پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ نتیجتاً پاکستان کو اربوں روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ علاوہ ازیں نو ہزار ارب روپے کسی بھی کھاتے میں درج نہیں ہیں، یعنی ان اکاونٹیڈ ہیں۔ یہ رقم ملک میں ہر قسم کے غلط کاموں میں استعمال ہوتی اور ان کے مالکان پکڑ میں آتے ہیں اور نہ ان کے مکروہ دھندے رکتے ہیں۔

کچھ عرضہ قبل وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ جی ڈی پی کی شرح نمو، مہنگائی، شرح سود، ایکسچینج ریٹ ،مالی خطرات کے عوامل میں شامل ہیں۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ سرکاری قرضہ جی ڈی پی کے 78.4 فی صد تک پہنچ گیا ہے اور یہ بھی مالی خطرات کے عوامل میں شامل ہے۔ پھر یہ کہ سرکاری اداروں کے قرضے اور گارنٹیز جی ڈی پی کے 9.7 فی صدپر پہنچ چکی ہیں۔ یعنی ریاستی نظام اپنا ہی وزن برداشت نہیں کر پا رہا۔

ریاست کی مراعات کے بل بوتے پر پرتعیش زندگی گزارنے والا طبقہ ان حالات میں بھی اپنی مراعات پر سمجھوتا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ دوسری طرف عوام کی مالی حالت انتہائی پتلی ہو چکی ہے۔ غریب آدمی کے لیے زندگی عذاب بن چکی ہے۔ چائے کی پتّی جس میں لوگ سوکھی روٹی ڈبو کر کھالیا کرتے تھے، اس کی قیمت 94فی صد بڑھ گئی ہے۔ آٹے کے نرخ 94.5فی صد، چاول کے 67فی صد اور پاؤڈر دودھ کے 30فی صد بڑھ چکے ہیں۔ تن خواہ کا 70فی صد حصہ بلز،سفری اخراجات یا پیٹرول پر خرچ ہوجاتا ہے۔

پاکستان میں 80 فی صد آبادی صرف 20 فی صد آبادی کی کمائی پر گزر اوقات کر رہی ہے۔ اب یہ 20 فی صد طبقہ ریاست کوکب تک اور کتنا ٹیکس دے سکتا ہے، اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔

ایک جانب سسکتی زندگی ، دوسری جانب سرکاری خرچ پر عیش 

کاش،ہمارے حکم راںعام پاکستانیوں کے چہرے کبھی غور سے دیکھیں ،جن کے چہروں پر حسرت نمایاں نظر آتی ہے اورآنکھوں میں آنے والے دنوں کے وسوسے اور خدشات سر اٹھاتے ہیں۔ پاکستان کی اشرافیہ کے لیے خطرے کی گھنٹی یہ ہے کہ اب ملک کےاسّی فی صد عوام یہ مطالبہ کرنے لگے ہیں کہ ٹیکس کے پیسوں پر حکومتی، سیاسی اور سرکاری اشرافیہ کی آسایشوں کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ پاکستان کی ہر نوع کی سرکاری اشرافیہ کےپُر آسایش طرز زندگی پر پاکستان کے خزانے سےاربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ ایک عام پاکستانی ، غریب، سفید پوش، دیہاڑی دار آٹے ، گھی، چینی پر ٹیکس ادا کرکے ریاست پاکستان کے خزانے کو بھرنے میں اپنا حصہ ملاتا ہے۔ 

ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ ہر شے پرٹیکس ادا کرتا ہے مگراس کے بدلے میں وہ زندگی معاشی بدحالی کے جبر تلے سسک سسک کر گزارتا ہے۔دوسری جانب پاکستان کی سیاسی، غیر سیاسی اوربیورو کریٹک اشرفیہ کی زندگیوں کو پر آسایش بنانے کے لیے سرکاری خزانہ ایک خریدے ہوئے غلام کی طرح خدمت پر کمر بستہ رہتاہے۔ پچاس فی صدلوگ جو خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں ان کے شب وروز بہت مشکل سے گزرتے ہیں۔ تن خواہ دار طبقہ بیش ترسفید پوش ہے، جوبہ ظاہر تین وقت کھاتا ہے۔ اس کے بچے اسکول جاتے ہیں۔ وہ خوشی، غم بھی کسی طرح بھگتا لیتا ہے۔ مہینےکے آخری دس دن اس پر عذاب بن کر گزرتے ہیں۔ 

اس طبقے کے افراد بھی گھی، چینی ،آٹا خریدتے وقت اتنا ہی ٹیکس دیتے ہیں جتنا معاشی طور پر خوش حال پاکستانی دیتا ہے۔یہ اس کے ساتھ سراسر ظلم ہے۔ آخر وہ کس چیز کی سزا بھگت رہا ہے۔ اتنا ٹیکس دینے کے بعدبھی ریاست پاکستان اس کے بچوں کو ڈھنگ کی مفت تعلیم نہیں دیتی، بیماری میں میں مناسب علاج نہیں ملتا ۔ ایک عام پاکستانی کو اگر کسی سرکاری دفتر میں کام پڑ جائے تو اس کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ جانتا ہے کہ خالی جیب کسی سرکاری دفتر میں قدم نہیں رکھ سکتا ۔جب تک وہ قدم قدم پر چھوٹے بڑے سرکاری بابووں کو رشوت نہیں دے گا کوئی اسے منہ نہیں لگائے گا ۔

غریب کے لیے 28اور اشرافیہ کے لیے 3400ارب کی سبسڈی

اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کی جانب سے کچھ عرصہ قبل جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اشرافیہ، کارپوریٹ سیکٹر، جاگیرداروں اور اسٹیبلیشمنٹ کو دی گئی اقتصادی مراعات ایک اندازے کے مطابق 17.4 ارب ڈالرز یا ملکی معیشت کا تقریباً 6 فی صد کے برابر ہیں۔اورملک میں مراعات حاصل کرنے والا سب سے بڑا شعبہ کارپوریٹ سیکٹر ہے جو مجموعی طور پر 4.7 ارب ڈالرز کی مراعات یا سبسڈیز حاصل کررہا ہے۔

ان مراعات میں ٹیکس بریکس، چیپ ان پٹ پرائس، اعلیٰ آؤٹ پٹ پرائس یا سرمائے تک ترجیحی رسائی، زمین اور خدمات تک ترجیحی رسائی سمیت دیگر مراعات شامل ہیں۔ دوسرے اور تیسرے نمبرپرسب سے زیادہ مراعات ملک کے امیر ترین، ایک فی صد افراد حاصل کرتے ہیں جو ملک کی مجموعی آمدنی کےنوفی صد کے مالک ہیں اور جاگیردار، جو آبادی کا 1.1 فی صد ہیں، لیکن تمام قابلِ کاشت زمین کے 22فی صدکے مالک ہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی پارلیمان میں جاگیرداروں اور کارپوریٹ مالکان کی بھرپور نمائندگی ہے اور زیادہ تر بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدوار جاگیردار یا کاروباری طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی مراعات ختم کرنے کی بات کی جاتی ہے تو غریب عوام کو دی جانے والی مراعات اور سبسڈیز کے خاتمے پربحث کی جاتی ہے۔ 

اشرافیہ کو ملنے والی مراعات زیر بحث ہی نہیں آتیں کیوں کہ پارلیمان میں موجود نمائندگان طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کو بھی کاروباروں کے لیے سالانہ 1.7 ارب ڈالرز کی مراعات دی گئیں۔ یہ مراعات زمین، سرمائے اور انفراسٹرکچر تک ترجیحی رسائی کے ساتھ ٹیکسوں میں چھوٹ کی صورت میں دی گئیں۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان کے سب سے امیرایک فی صد افراد کے پاس 2018-19 میں ملک کی کل آمدن کا9فی صد تھااور غریب ترین ایک فی صدافرادتک صرف 0.15 فی صد ہی پہنچ پایا۔مجموعی طور پربیس فی صد امیر ترین پاکستانی، قومی آمدنی کا49.6فی صد رکھتے ہیں جب کہ غریب ترین20فی صد کے پاس صرف 7فی صد ہے۔ 

رپورٹ کے مطابق غریب اور امیر پاکستانی واضح طورپر دو مختلف ملکوں میں رہتے ہیں، جہاں خواندگی کی سطح، صحت کی سہولتیں اور معیار زندگی مکمل طور پر ایک دوسرے سے مختلف، بلکہ متضاد ہیں۔رپورٹ کے مطابق پاکستان میں متوسط طبقہ مسلسل تشویش ناک حد تک سکڑ رہا ہے۔ درمیانی آمدن والے افراد 2009ء میں آبادی کے 42 فی صدسے کم ہو کر 2019ء میں 36 فی صد رہ گئے تھے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہونے والے عوامی اخراجات سے بھی عوام کو یک ساں طور پر فایدہ نہیں ہوتا۔ عوامی اخراجات کا کردار بھی طبقاتی ہی رہتا ہے اور مجموعی طور پر غریب ترین عوام کے لیے عوامی اخراجات کا 14.2 فی صد خرچ ہوتا ہےاور امیر ترین افراد کے لیے عوامی اخراجات کا 37.2 فی صدحصہ خرچ ہوتا ہے۔

حفاظت اور پروٹوکول کے ہوش رُبا اخراجات 

صدر مملکت، وزیراعظم، وزراء، مشیران و معاونین اور بیوروکریٹس کی سکیورٹی اورپروٹوکول کی مدمیں قومی خزانے سے ہونے والے اخراجات کی تفصیلات دوبرس قبل اگست کے مہینے میں جاری کی گئی تھیں۔اس وقت کے وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے بتایاتھا کہ اس وقت صدر مملکت، وزیراعظم، وزراء، مشیران و معاونین کی سکیورٹی اورپروٹوکول کا سالانہ خرچ 45 کروڑ 43 لاکھ روپے ہے۔ عدلیہ کا خرچ30 کروڑ 45 ہزار روپے اور اسلام آباد پولیس کا سیکورٹی کی مد میں خرچ 95 کروڑ 46 لاکھ روپے ہے۔

فواد چوہدری کے مطابق گورنر اور وزیراعلیٰ پنجاب کی سکیورٹی اور پروٹوکول پر سالانہ 42 کروڑ 70 لاکھ روپے، پنجاب کے سابق وزرائے اعلیٰ، وزراء اور بیوروکریٹس کی سکیورٹی پر سالانہ 10 کروڑ 58 لاکھ 70 ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں۔ لاہور میں عدلیہ کا سکیورٹی اور پروٹوکول کی مد میں سالانہ خرچ ایک ارب 14 کروڑ 31 لاکھ روپے ہے، صوبے میں سکیورٹی اور پروٹول کے دیگر اخراجات 83 کروڑ 36 لاکھ روپے ہیں، یوں مجموعی اخراجات 2 ارب 50 کروڑ روپے سے زاید بنتے ہیں۔

اسی طرح خیبر پختون خوا میں وزراء کی سکیورٹی کا خرچ 22 کروڑ 21 لاکھ روپے، مشیران و معاونین کا 2 کروڑ 43 لاکھ 60 ہزار روپے، عدلیہ کا 50 کروڑ 14 لاکھ 80 ہزار روپے، حاضر سروس بیوروکریٹس کی سکیورٹی اور پروٹوکول کی مد میں 64کروڑ 68 لاکھ روپے جبکہ دیگر اخراجات 76 کروڑ 81 لاکھ روپے ملا کر مجموعی سالانہ خرچ 2 ارب 44 کروڑ 80 ہزار روپے بتایا گیا تھا۔

قومی خزانے کو چونا

سبسڈی کے نام پر اس ملک میں غریب سب سے زیادہ بدنام ہے،لیکن اشرافیہ کس کس طرح قومی خزانے کو چونا لگاتی ہے ،یہ جاننےے کے لیےیہ سطور بھی پڑھ لیں کہ وفاقی بیوروکریسی نےنو برسوں میں ماہانہ کار الاؤنس لینےکے باوجود سرکاری گاڑیاں اور اربوں روپے کا سرکاری پیٹرول استعمال کرکے حکومتوںکو بے وقوف بنانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی کے سابق دور حکومت میں اس وقت کے وزیر خزانہ حفیظ شیخ نے سرکاری گاڑیوں کی خریداری ‘ مرمت اور فیول پر آنے والے اربوں روپے کے اخراجات کم کرنے کے لیے مونیٹائزیشن پالیسی متعارف کرائی تھی جس کی روشنی میں گریڈ 21,20اور 22کے افسران کو بالترتیب کار الاؤنس کی مد میں ماہانہ 85ہزار، 95ہزار اور ایک لاکھ روپے دینے شروع کیے گئےتھے۔

لیکن تن خواہ کے ساتھ ماہانہ کار الاؤنس لینےکےباوجود بیوروکریسی سرکاری گاڑیوں اور سرکاری پیٹرول سے مستفید ہوکر قومی خزانے کو سالانہ اربوں روپے کا چونالگا رہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ذرایع کے مطابق ماضی کی حکومتوں کی طرح اب بھی مونیٹائزیشن پالیسی پر عمل درآمد نہیں ہورہا۔ وفاقی بیوروکریسی پیٹرول منہگا ہونے کے باوجود کار الاؤنس، سرکاری گاڑیوں اور فیول کا استعمال کرکے حکومت کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہے۔

ڈاکٹر عشرت حسین کی تشخیص اور علاج

پاکستان کے موجودہ اقتصادی بحران کی وجوہات کو سمجھنے کے لیے ڈاکٹر عشرت حسین کی کتاب کافی معاون ثابت ہوسکتی ہے۔بینک دولت پاکستان کے سابق گورنر اور عالمی بینک میں دو دہائیوں پر محیط خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر عشرت حسین نے سنجیدہ اور اعتدال پسنداقتصادی تجزیہ کار کے حوالے سے نام بنایا ہے۔

انہوں نے اپنی توجہ کا مرکز بڑے مسائل کو رکھا،پاکستان کی اقتصادی تاریخ میں بڑے خلا کی نشان دہی کی اور اس کی تشخیص کے لیے کام کیا۔بیس برسوں پر محیط اپنے تجربات کو یک جا کرکے ڈاکٹر عشرت حسین نے اپنی 1999ء کی تصنیف ’’پاکستان: اشرافیہ کی ریاست، اشرافیہ کی معیشت‘‘ کا دوسرا ایڈیشن کچھ عرصہ قبل مرتب کیاتھاجو پچھلی کتاب کا دوسرا حصہ معلوم ہوتاہے۔ 1999ء کی کتاب درحقیقت اکیسویں صدی میں داخل ہوتی ہوئی اشرافیہ کی اقتصادیات پر ایک گہری نظر ہے۔ 

اس کتاب کے ایک باب میں 2000ء سے 2018ء تک کے دور کو مسئلےکی جڑقرار دیا گیا ہے۔ابتدائی ایڈیشن میں اشرافیہ کی سیاست کےپیچھے سیاسی ہلچل، فوجی آمریت اور بین الاقوامی عدم استحکام جیسے عناصر کی جانب اشارہ کیا گیا تھا ۔بیس سال کے تفصیلی مطالعے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ غیر متوقع حالات اور ضرورت کے علاوہ بھی بہت کچھ ایسا ہے جس کی جانب ہماری توجہ تاحال مبذول نہیں ہو سکی۔

ایسا نہیں ہے کہ اکیسویں صدی میں سیاسی عدم استحکام میں فوجی آمریت کا عمل دخل نہیں رہا،لیکن پاکستان میں اقتدار کے جمہوری انتقال سمیت کئی ایسے تجربات ہوئے جو پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے۔ ایک فوجی آمر اور تین مختلف سیاسی جماعتوں کو باری باری اشرافیہ کی اس معیشت میں اصلاحات کی ذمے داری ملی اور اس امر کے شواہد بھی ملے کہ پاکستان کو ان مسائل سے نکلنے کے لیے انتہائی مشکلات اور نامساعد حالات کا سامنا رہے گا۔

پاکستان میں ڈاکٹر عشرت حسین اہم عہدوں پر خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ وہ اکیسویں صدی میں داخل ہونے والی پاکستانی معیشت پربیس ،اکیس برسوں سے نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ وہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر کی حیثیت سے بھی فرائض انجام دے چکے ہیں اورپی ٹی آئی کی حکومت کی انتظامی ٹیم برائے معاشیات کا حصہ بھی رہے۔ وہ امریکی تھنک ٹینک میں کام کرتےتھے اور وہاں ان کا زیادہ تر وقت پاکستانی معیشت کے رحجانات اور اس کے اثرات پر تحقیق کرتے ہوئے گزرا۔ وہ عمران خان کی وفاقی کابینہ میں وزیراعظم کے مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات اور کفایت شعاری بھی رہے۔

اس کتاب میں نہ صرف پی ٹی آئی کی حکومت بلکہ تمام پچھلی حکومتوں کی کوتاہیوں کو بیان کیا گیا ہے۔ تمام وہ لوگ جو کسی نہ کسی طرح طاقت اور اقتدار کا حصہ رہے ہیں وہ زیادہ تر ایک مخصوص طبقے کی نمائندگی کرتےہیں اسی لیے اس ریاست کو اشرافیہ کی ریاست اور اس کی معیشت کو اشرافیہ کی معیشت کہا گیا ہے۔ڈاکٹر عشرت حسین کے مطابق پاکستان پچھلی دو دہائیوں سے اپنی منشاء کے مطابق نہیں چل رہا ۔