• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’سر، آج کل میں بہت پریشان ہوں ، میرے پاس نوکری نہیں ہے ،اگر آپ مہربانی کریں تو مجھے نوکری مل سکتی ہے، میں تمام عمر آپ کودعائیں دوں گا۔‘‘جو لوگ اِس ملک میں کسی چھوٹے موٹے عہدے پر فائز ہیں، کسی کاروباری کمپنی کے مالک ہیں یا پھر معاشرے میں کچھ اثر ورسوخ رکھتے ہیں، اُنہیں آئے دن اِس قسم کے پیغامات موصول ہوتے رہتے ہیں۔ ملک کے معاشی حالات نے تو اچھے خاصے لوگوں کی کمرتوڑ دی ہے، غریب بیچارہ کس شمار میں ہے، وہ نوکری کے لیے سفارشیں تلاش نہ کرے تو کیا کرے!ہم لوگ اٹھتے بیٹھتے نوجوانوں کو طعنے تو دیتے ہیں مگر ہمیں یہ نظر نہیں آتا کہ اِس بے سمت معاشرے میں نوجوانوں کو با عزت زندگی گزارنے کیلئے روزانہ ایک جنگ لڑنا پڑتی ہے، اور خاص طور سے لڑکیوں کیلئے تو یہ جنگ اور بھی مشکل ہےجن کو انسانوں کی شکل میں درندوں کا مقابلہ بھی کرنا پڑتا ہے۔ایک عام پاکستانی نوجوان کی زندگی کیسی ہے، وہ کِن حالات میں تعلیم حاصل کرتا ہے،وہ جب اٹھارہ سال کا ہوتا ہے تو کیا سوچتا ہے،اُس کے پاس اپنا مستقبل بنانےکیلئے کیا ذرائع دستیاب ہیں،کیا کوئی شخص اُس کی مناسب رہنمائی کرتاہے،اور پھر یہ تمام نوجوان اپنی سمت کا تعین کیسے کرتےہیں؟اِن تمام سوالوں کاایک لفظی جواب’انٹرنیٹ‘ ہوسکتا ہے کہ آج کل تو ہر کاروبار کی رہنمائی یو ٹیوب سے مل جاتی ہے ،بڑی بڑی یونیورسٹیوں سے آن لائن ڈگریاں مفت حاصل کی جا سکتی ہیں،جہاندیدہ لوگوں کے یوٹیوب چینلز کے ذریعے رہنمائی لی جا سکتی ہے،کتابیں پڑھی جاسکتی ہیں، مختصر مدت کے کورسز کیے جا سکتے ہیں،وغیرہ۔یہ سب باتیں اتنی بھی غلط نہیں بس اِن میں ایک کمی ہے کہ یہ تمام کام ہم نے خودانجام نہیں دینے ،فقط دوسروں کواِن کاموں کا مشورہ دینا ہے،اور مشورہ بھی سترہ اٹھارہ سال کےاُن کے نوجوانوں کو دینا ہے جو ابھی زندگی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔میں کسی اور کوکیا طعنہ دوں ،اپنی بات کرتا ہوں، سترہ سال کی عمر میں اگر مجھے کہا جاتا کہ میٹرک کی ڈگری لے کر اِس معاشرے میں نکل جاؤ اور اپنا کیرئیر خود بناؤ تو اللہ جانے میرا کیا حال ہوتا۔

آج کل نوجوانوں کے پاس دو آپشن ہیں،ملک میں رہیں یا ملک سے باہر جاکر کام کریں۔ملک میں جس قسم کے معاشی حالات ہیں اُن میں اگر کوئی ملک چھوڑنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اُس میں کوئی قباحت نہیں ،تاریخ میں لوگ ہمیشہ سے ہجرت کرتے رہے ہیں، ہماراتواسلامی کیلنڈر ہی رسول اللہﷺ کی ہجرت سے شروع ہوتا ہے۔ایک بحث یہ بھی جاری ہے کہ نوجوان اب زیادہ تعدادمیں باہر جا رہے ہیں یا پہلے بھی ملک چھوڑنے کی یہی شرح تھی، اِس بحث کی ہمیں ضرورت نہیں ، ضرورت اِس بات کی ہے کہ ہمارا نوجوان جب باہر جائے تو وہ ہنر مند ہو تاکہ اسے بہترین نوکری ملےنہ کہ بیچارہ برادر ممالک کی پچاس ڈگری سینٹی گریڈ کی گرمی میں کھرب پتیوںکیلئے عمارتیں تعمیر کرتے کرتے مر جائے ۔سو پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ باقی دنیا کے نوجوانوں کا کیا حال ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2022 میں بھارت کے دو لاکھ نوجوان امریکہ میں تعلیم حاصل کررہے تھے جبکہ پاکستانی طلبہ کی تعداد گزشتہ برس صرف چار ہزار کے قریب تھی۔آبادی کے تناسب کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ہماری تعداد بہت کم ہے جبکہ اسّی کی دہائی میں ہندوستان اور پاکستان کا یہ تناسب تقریباً برابر تھا۔ یہ تو ہوئی باہر پڑھنے والوں کی بات، نوکریاں کرنے والوں کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے، وہ نوکریاں جو ہنرمندی کی ذیل میں آتی ہیں اُن میں پاکستانیوں کی کارکردگی ذرابھی قابل رشک نہیں، اگر مجھے ٹھیک سے یادہے تو غالباً باہر جانے والے پاکستانیوں میں سے ایک یا دوفیصد ہی ڈھنگ کی نوکری تلاش کرپاتے ہیں۔ایسا کیوں ہے؟ اِس کی وجہ کم علمی ہے ۔ہمارے نوجوان اگر ایف ایس سی کے بعد میڈیکل کا کوئی ڈپلومہ حاصل کرلیں تو انہیں یورپ اور برطانیہ میں اچھی نوکریاں باآسانی مل سکتی ہیں ۔بڑے شہروں کے اسپتالوں میں نرسنگ، آپریشن تھیٹر ٹیکنیشن،ریڈیالوجی اور اینستھیزیا اسسٹنٹ کے ایک یا دو سال کے ڈپلومے کروائے جاتے ہیں،یہ کوئی مشکل کام نہیں ،کوئی بھی لڑکا یا لڑکی یہ کام کرسکتا ہے،اور اگر کوئی نرسنگ کا چار برس کا مکمل کورس کر لے تو اُس کیلئے تو مزید در کھل جائیں گے،سرکاری اسپتالوں کی بہت سی نرسیں چھٹیاں لے کر باہر یہی نوکریاں کر رہی ہیں۔یہ صرف میڈیکل کے شعبے کے ڈپلومے ہیں، انجینئرنگ ،آئی ٹی اور ہوٹل منیجمنٹ کے شعبے اِس کے علاوہ ہیں۔اِن کا فائدہ صرف باہر ہی نہیں بلکہ پاکستان میں بھی ہے ،ایسا کوئی بھی ہنر مند نوجوان کم از کم میں نے تو بے روز گار نہیں دیکھا۔

یہاں تک لکھنے کے بعد نہ جانے مجھے کیوں لگ رہا ہے جیسے میں خود کو دنیا بھر سے سیاناسمجھتا ہوں، بات وہی کہ مشورہ دینا دنیا کا سب سے آسان کام ہے ۔وہ تمام جہاندیدہ لوگ جو دوسروں کو اِس قسم کے مشورے دیتے ہیں،اپنے بچوں کے بارے میں عموماً Over protected ہوتے ہیں، اپنے بچوں پر وہ کوئی تجربہ نہیں کرتےاورانہیں عملی زندگی میں تنہا چھوڑنے کا حوصلہ بھی نہیں کرتے، اُن کے بچوں نے ڈرائیونگ لائسنس بھی بنوانا ہو تو ایس ایس پی کو فون کرتے ہیں تاکہ بچے کو دوچار منٹ کیلئےبھی خوار نہ ہونا پڑے۔مراعات یافتہ طبقے کے بچوں کے علیحدہ مسائل ہیں جو فی الحال موضوع نہیں ،اُن بچے بچیوں پر واپس آتے ہیں جن کا ایس ایس پی تو کیا کوئی سپاہی بھی واقف نہیں ہوتا اور انہوں نے دس گھنٹے نوکری کرنے کے بعد صحیح سلامت گھر بھی واپس آنا ہوتا ہے۔ میں نے اوپر لکھا ہے کہ اِن نوجوانوں کو اٹھارہ سال کی عمر میں زندگی کا کچھ پتا نہیں ہوتا، یہ بات اب مجھے کچھ مبالغہ آمیز لگ رہی ہے، چھوٹی سی عمر میں جتنا تجربہ انہیں مل جاتا ہے وہ بعض اوقات اچھے خاصے لوگوں کو عمر بھر حاصل نہیں ہوپاتا۔ایک لڑکی جو چھوٹے شہرسے اٹھ کر لاہور یا کراچی آتی ہےاور اپنے بل بوتے پر تعلیم مکمل کرتی ہے، نوکری تلاش کرتی ہے اور لوگوں کی نظریں بھی سہتی ہے، اُس کے بارے میں یہ کہنا کہ اسے زندگی کا اندازہ نہیں ہوگا،شایددرست بات نہیں۔

ہمارے ملک میں ذہین ، قابل، نالائق،غبی، محنتی یاکندذہن نوجوانوں کی شرح وہی ہے جو باقی دنیا کے ممالک میں ہے، کوئی بھی ملک کسی سے برتر نہیں ، فرق صرف وہاں ہوتا ہے جہاں نوجوانوں کو مناسب مواقع اور رہنمائی میسر آجاتی ہے۔اگر ہمارے نوجوان باہر کے ممالک میں بھی اچھی نوکریاں تلاش نہیں کرپاتے یا بغیر ویزہ حاصل کیے کشتی کے ذریعے یورپ جانے کی کوشش میں مارے جاتے ہیں تو اِس میں اُن کا بھی تھوڑا بہت قصور ہوگا لیکن زیادہ قصور ریاست کا ہے جواپنے نوجوانوں کو وہ مواقع فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے جس کا وعدہ ریاست نے آئین میں تمام شہریوں سے کر رکھا ہے۔ جس ملک میں بنیادی انسانی حقوق کا حصول ہی نا ممکن بنا دیا جائے اُس ملک کے نوجوان پھر جان کو داؤ پر لگا کر ملک چھوڑنےکیلئے آمادہ ہوجاتے ہیں، اُس کے بعد اُن کی کشتی ڈوبے یا تیرتی رہے، اُن کا مقدر!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین