• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان ترقی پذیر ممالک کی صف میں شامل ہے یہاں حکومتو ں کی تبدیلیوں سے معاشی منصوبے بھی تبدیل ہو جاتے ہیں لیکن یورپی اور ترقی یافتہ ممالک میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ لانگ ٹرم ترقیاتی منصوبوں پر کام جاری رہتا ہے جس سے ان ممالک کی معاشی ترقی کے عمل میں جمود نہیں آتا بلکہ تسلسل بر قرار رہتا ہے۔ پاکستان نے دو عشرے قبل یو این ڈی پی کے تعاون سے2010ترقیاتی لانگ ٹرم منصوبہ شروع کیا تھا جس میں مکران کوسٹ پروجیکٹ 'پولیس ، 'ایجوکیشن ، 'عدالتی ریفارمز اور دیگر منصوبے شامل تھے لیکن مشرف نے اقتدار میں آ کر ان کو ختم کر دیا ۔پاکستان میں حکومتیں صرف ایک دوسرے پر تنقید کرتی ہیں اور شارٹ ٹرم منصوبے بھی سیاست کی نذرہو جاتے ہیں۔ اب نگراں حکومت نے عہد کیا ہے کہ وہ سابق حکومت کے ترقیاتی منصوبوں کاتسلسل جاری رکھے گی 2010 کی طرز کا لانگ ٹرم ترقیاتی منصوبہ سی پیک کا ہے جس کو شروع ہو ئے دس سال ہو چکے ہیں ، پاک چین اقتصادی راہداری ایک بہت بڑا تجارتی منصوبہ ہے، جس کا مقصد جنوب مغربی پاکستان سے چین کے شمال مغربی خود مختار علاقے سنکیانگ تک گوادر بندرگاہ، ریلوے اور موٹروے کے ذریعے تیل اور گیس کی کم وقت میں ترسیل کرنا ہے۔ اقتصادی راہداری پاک چین تعلقات میں مرکزی اہمیت کی حامل ہے،یہ گوادر سے کاشغر تک تقریباً 2442 کلومیٹر طویل ہے۔سی پیک منصوبہ مکمل ہونے میں کئی سال لگیں گے ،شروع میں اس پر کل 46 بلین ڈالر لاگت کا اندازہ کیا گيا تھا۔ چین نے مشکل حالات میں پاکستان کو کبھی تنہا نہیں چھوڑا اور کئی منصوبے بھی پاکستان میں چین کی مدد سےجاری ہیں، ویسٹ مینجمنٹ کمپنی جو پاکستان کے شہروں کی صفائی کرتی ہے کئی سال سے چین کے مالی تعاون سے چل رہی ہے۔ پاکستان میں اتنی بڑی مقدار میں معدنیات اور قدرتی وسائل ہیں جن سے ریونیو میں اضافہ ہو سکتا ہے لیکن ان قدرتی وسائل کو کئی دہائیوں سے استعمال میں نہیں لایا گیا جس کی وجوہات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان چین اقتصادی راہداری(سی پیک) معاہدے کے10سال مکمل ہوگئےہیں ،اس عرصے میں چین کی جانب سے سرمایہ کاری 62ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے ۔ سی پیک کے دس سالہ ثمرات کی رپورٹ کے مطابق سی پیک کے تحت مالی سال 2015 اور مالی سال 2030 کے درمیان سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی62 ارب ڈالر ہے،جس میں 27.4 ارب ڈالر کے منصوبے پہلے ہی مکمل ہو چکے ہیں ان منصوبوں نے 2لاکھ ملازمتوں کے مواقع فراہم کئے، اہم ہائی وے اور ٹرانسمیشن لائنز کی تنصیبات کے ساتھ ساتھ 6000 میگاواٹ سے زیادہ بجلی قومی گرڈ میں شامل کی گئی۔سی پیک بیلٹ اینڈ روڈ کے تحت شروع کیا گیا ایک منصوبہ ہےیہ تقریباً ایک دہائی سے پاکستان اور چین کے درمیان تعاون کو فروغ دے رہا ہے۔ تاریخی سی پیک منصوبے کا آغاز 2013میں ہوا ۔2023 میں سی پیک کا ایک عشرہ مکمل ہوگیا ہے،نوازشریف کے دور حکومت میں یہ منصوبہ شروع ہوا اور اب تک جاری ہے سابق حکومت نے اگرچہ یہ الزامات لگائے کہ پی ٹی آ ئی کے دور میں یہ تعطل کا شکار رہا لیکن چینی حکومت نے خود اس کی تردید کر دی اور منصوبوں کی تکمیل ہونے کا بھی عندیہ دے دیا ۔پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لئے سی پیک کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، پاکستان میں حکومتوں کی تبدیلیوں سے اس میں تعطل نہیں آنا چاہئے لانگ ٹرم منصوبے یورپ اور ترقی یافتہ ممالک میں حکومتوں کی تبدیلیوں سے ختم نہیں ہوتے ہیں بلکہ جاری رہتے ہیں۔ پاکستان میں منصوبے سیاسی الزام تراشی کی نذرہو جاتے ہیں، سی پیک منصوبہ پاکستان کی معیشت میں استحکام کا بھی سبب ہے اور اس سے دیگر شعبوں میں ترقی بھی ہو رہی ہے۔

10سال قبل شروع ہو نے والے منصوبہ کو پاک چائنہ اقتصادی راہداری کا حالیہ دور میں دنیا کا سب سے بڑا معاشی منصوبہ کہا جاتا ہے،اِس منصوبے کی تکمیل سے نہ صرف چین بلکہ پاکستان کی بھی پوری دنیا تک رسائی ممکن ہو گی۔ چین لاکھوں بیرل تیل یومیہ درآمد کرتا ہے، سی پیک کی تکمیل کے بعد چین کو صرف تیل کے درآمدی اخراجات میں 20 ارب ڈالر سے زائد کا فائدہ متوقع ہے پاکستان کو اِس سے پانچ ارب ڈالر تک کا ٹول ٹیکس مل سکتا ہے کیونکہ چین کے لئے تیل کی درآمد کا کل راستہ موجودہ سفر سے لگ بھگ 75 فیصد کم ہو جائے گا۔ اقتصادی ماہرین کا خیال ہے پاکستان بین الاقوامی سطح پر دیگر دنیا کی معیشتوں سے منسلک ہو کر تجارتی فوائد کے ذریعے بہتری کی طرف جائے گایہ منصوبہ پاکستان کے لئے گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے، اِس سے نہ صرف معاشی استحکام حاصل ہو گا بلکہ پاکستان خطے میں معاشی طاقت بن کر اْبھرے گا ،معیشت کی بحالی کے لئے تشکیل دی گئی کونسل کی اپیکس کمیٹی کا پہلا اجلاس بھی اقتصادی راہداری کی10سالہ تقریبات کے دن ہی ہوا جس میں معیشت کی بحالی اور سرمایہ کاری سے متعلق اقدامات پر غور بھی کیا گیا نئی غیر ملکی سرمایہ کاری لانے کے ساتھ ساتھ نہ صرف سی پیک بلکہ ملک میں جاری ہر ترقیاتی منصوبے کی تکمیل میں حائل کسی بھی طرح کی رکاوٹ فوری طور پر دور کرنے کے اقدامات کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے ۔

تازہ ترین