قارئین!جیسے ہی قلم اٹھاتےاور کسی موضوع کیلئے خیالات کو ترتیب دیتے ہیں،مہنگائی کا جن اور اس کا خوف سامنے آ کر کھڑا ہو تا ہے، ذہن کو جکڑ لیتا ہے کہ اس وقت پاکستانی عوام جس طرح مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، ان کی چیخیں بھی کسی کو سنائی نہیں دے ر ہیں ۔ غربت ایک جرم بن کر اس قوم پر مسلط ہو گئی ہے تمام مراعات مخصوص طبقہ کیلئے وقف ہیں انہیں کوئی پروا نہیں، وہ طبقہ ملک کے وسائل کو بے دریغ نوچ رہا ہے جبکہ غریب ادھ مواہوتا جا رہا ہے ۔ ایک مرتبہ پھر پٹرول کی قیمتوں اضافے کی خبر نے صبح کی تازگی کو بدمزاکر دیا۔قوم کے ساتھ عجب مذاق ہو رہا ہے۔ ہرپندرہ دن بعد پٹرول کی قیمت بڑھتی ہے ۔ جس سے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ جاری ہے ۔ ہفتہ وار بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔گیس پانی کے بلوں پر کوئی توجہ نہیں دے رہا ۔ پانی کے بلوں میں یک دم تین سو فی صد اضافہ کر دیا گیا ہے ۔ سردی گرمی گیس دستیاب نہیں ہے مگر اس کے بلوں میں اضافہ ہوا ہے۔
ان حالات میں پچپن فیصد پاکستانی جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد پر مشتمل ہیں، وہ زندگی کو کس طرح برقرار رکھ سکتے ہیں؟دودھ سبزیوں اور گوشت کی پیداوار تو مقامی طور پر ہوتی ہے ۔ دال چاول ،گناتو اس زرعی ملک میں پیدا ہوتے ہیںان پر تو کوئی فارن ایکسچینج خرچ نہیں ہوتا تو پھر ان کی قیمتیں کیوں دن رات کے حساب سے بڑھتی ہیں چینی کی قیمت میں گزشتہ ایک ماہ کے دوران 75روپے فی کلو کا اضافہ ہوا ہے۔ چینی کی اسمگلنگ کیوں برداشت کی جا رہی ہے۔ پاکستانی عوام مہنگی چینی خرید رہے ہیںجبکہ چینی وافر مقدار میںا سمگل ہو رہی ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ اس میں حکومت کی رٹ کی ناکامی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ ملک سے چینی ،ڈالر ہمسایہ ملک میں اسمگل ہو رہا ہے مگر اس کو روکنے والا کوئی نہیں۔ افغانستان میں تو کوئی چارٹرڈ اکائونٹینٹ وزیر خزانہ نہیں مگر وہاں ایک ڈالر نوے روپے میں دستیاب ہے جبکہ پاکستان میں تو بے شمار ماہر معیشت وچارٹرڈ اکائو ٹینٹس ہیں مگر ان سے ڈالر کا ریٹ کنٹرول نہیں ہو ا ۔ روپیہ روزانہ کی بنیاد پر کمزور ہو رہا ہے ۔ حکومت معاشرے میں موجود ان مافیا ز کو کنٹرول کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے جو اس معاشرے میں مہنگائی کو اپنے مذموم عزائم کے تحت پھیلا رہے ہیں ۔ اس وقت معاشرے میں مایوسی عروج پر ہے ۔ ہر ماہ لاکھوں نوجوان ملک چھوڑ کر اپنا مستقبل سنوارنےکیلئے دوسرے ملکوں کا رخ کر رہے ہیں مگر ارباب حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ۔ کوئی نہیں سوچتا کہ اس ملک کے نوجوان اتنے مایوس کیوں ہیں ۔ تعلیم یافتہ نوجوان روز گار سے کیوں محروم ہیں۔
بجلی کی کمی اور ٹیرف میں اضافےکی وجہ سے صنعت کا پہیہ جام ہو رہا ہے،جس سے بے روز گاری بڑھ رہی ہے۔روزگار نہ ہو مگر اخراجات کی لسٹ دن
جائے تو پھر گزارہ کس طرح ہو گا۔ اخراجات کس طرح پورے ہوں گے ۔ آج 75 فی صد پاکستانی صرف اس کش مکش میں مبتلا ہیں کہ مہنگائی کے اس طوفان سے بچنے کیلئے کہاں جائے پناہ تلاش کریں۔ جائیں تو کہاں جائیں ؟اگر حکومت اپنی رٹ صدق دل سے لاگو کرے اور منافع خوروں کو کنٹرول کرے،ا سمگلنگ کا خاتمہ کرے کسانوں کو سہولتیں فراہم کر دے تو مہنگائی میں کافی حد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔ ملک میں پیدا ہونے والی اشیائے ضروریہ کو سستا کرے اور باہر سے منگوائی جانے والی اشیائےغیر ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ کرے تو مہنگائی سے عوام کی چیخیں نکلنا بند ہو جائیں ۔ ڈالر اور پیٹرول کا ریٹ فکس کر دیا جائے، اس کو بڑھنے نہ دے۔ حکومتی رٹ کو عوام کی فلاح کیلئے استعمال کیا جائے۔ ورنہ جو لاوا پک رہا ہے وہ جب پھٹے گا تو ہر چیز کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گا۔ لہٰذا عوام کو فوری ریلیف دیا جائے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)