انگلینڈ اور ویلز میں بچوں کے جنسی استحصال کے متاثرین کےلیے ہرجانے کے دعویٰ دائر کرنے کی 3 سالہ حد ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔
وزارتِ انصاف کے مطابق حکومت کی جانب سے کیے گئے طویل عرصے سے التوا کا شکار اصلاحاتی اقدامات کے تحت انگلینڈ اور ویلز میں بچوں کے جنسی استحصال کے متاثرین کےلیے ہرجانے کے دعوے دائر کرنے کی 3 سالہ قانونی حد ختم کی جا رہی ہے۔
وزارتِ انصاف کا کہنا ہے کہ قوانین میں مزید بہتری لائی جائے گی تاکہ ادارے اپنے موجودہ یا سابقہ ملازمین کے غلط اقدامات پر معذرت کر سکیں۔
اس اقدام کا مقصد متاثرین کو اسکولوں، نگہداشت کے اداروں اور اسپتالوں جیسے اداروں سے معذرت حاصل کرنے میں آسانی فراہم کرنا ہے۔
حکومتی اقدامات 2022ء کی آزادانہ تحقیقات برائے بچوں کے جنسی استحصال کی سفارشات پر عمل درآمد کےلیے کی جارہے ہیں، جس کی قیادت پروفیسر الیکسس جے نے کی تھی۔
ان اصلاحات کو آئندہ سال پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے والے بلوں کا حصہ بنایا جائے گا۔
انصاف کی وزیر شبانہ محمود نے کہا کہ پروفیسر جے کی سفارشات پر عمل ’طویل عرصے سے واجب الادا تھا‘، یہ اقدامات متاثرین کو انصاف کی راہ پر گامزن ہونے میں مدد فراہم کریں گے۔
پروفیسر جے نے متاثرین کےلیے ہرجانے کے دعوے دائر کرنے کی آخری تاریخ ختم کرنے کی سفارش کی تھی۔
فی الحال، بچوں کے جنسی استحصال کےلیے دیوانی دعوے 18 سال کی عمر کے بعد 3 سال کے اندر دائر کرنا لازمی ہوتے ہیں جب تک کہ متاثرہ فرد یہ ثابت نہ کرے کہ وقت گزرنے کے باوجود مقدمہ منصفانہ طریقے سے چلایا جا سکتا ہے۔
آئی آئی سی ایس اے کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ایک بڑی تعداد میں دعوے اس وجہ سے مسترد کیے جا رہے ہیں کیونکہ متاثرین کو اپنے ساتھ پیش آئے جنسی استحصال کے بارے میں بات کرنے میں کئی دہائیاں لگ جاتی ہیں۔
صدر ایسوسی ایشن آف پرسنل انجری لائرز کِم ہیریسن نے 3 سالہ حد کو بالکل نامناسب قرار دیا اور کہا کہ اب یہ ذمہ داری مدعا علیہ پر ہوگی کہ وہ ثابت کرے کہ وقت گزرنے سے مقدمہ غیر منصفانہ ہو گیا ہے۔ بجائے اس کے کہ متاثرہ فرد کو یہ ثابت کرنا پڑے کہ مقدمہ منصفانہ طور پر چلایا جاسکتا ہے۔