ملک کی سیاسی فضا میں ایک دلچسپ اور بظاہر حیرت انگیز پیشرفت آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور ان کے والد‘ پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے متضاد بیانات کی شکل میں رونما ہوئی ہے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جمعے کو بلاول نے کہا تھا کہ پیپلز پارٹی کا مطالبہ ہے کہ آئین کے مطابق 90دن میں انتخابات کرائے جائیں تاکہ منتخب نمائندے اقتدار میں آکر عوام کے مسائل حل کرسکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ پیپلز پارٹی کا موقف ہے جبکہ دیگر جماعتوں اور الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابات سے پہلے نئی حلقہ بندیاں ضروری ہیں۔تاہم بلاول کی جانب سے فوری الیکشن کے مطالبے کے محض ایک روز بعد آصف زرداری نے جو پارٹی کا سیاسی دماغ سمجھے جاتے ہیں‘ غیرمبہم الفاظ میں بلاول کے مؤقف کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ملک معاشی بحران کا شکار ہے، ہم سب کو سیاست سے پہلے معیشت کی فکر کرنی چاہئے۔ملک ہے تو ہم سب ہیں، مردم شماری کے بعد الیکشن کمیشن نئی حلقہ بندیاں کرانے کا پابند ہے، ہمیں چیف الیکشن کمشنر اور تمام ممبران پر پورا اعتماد ہے۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ نگراں حکومت سرمایہ کاری کی خصوصی کونسل کے منصوبے جلد از جلد مکمل کرا کے ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالے ۔آصف زرداری کے اس بیان پر جب گزشتہ روز بدین میں بلاول سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ میں گھر کے معاملات میںزرداری کی باتوں کا پابند ہوں لیکن جہاں تک سیاسی باتیں ہیں، آئین کی بات ہے اور جہاں تک پارٹی پالیسیوں کی بات ہے تو میں اپنے کارکنوں اور پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے فیصلوں کا پابند ہوں،انتخابات 90روز میں ہونے چاہئیں، کسی کی کوئی اور رائے ہے تو میرے سامنے رکھ سکتا ہے، نگراں حکومت پر ہمارا اعتراض نہیں ہے لیکن اگر کیئر ٹیکرز چیئر ٹیکرز بنیں تو ہمیں اعتراض ہوگا، میرے خیال میں معاشی بحران کا جلد حل ممکن نہیں، اگر ڈالر اور پیٹرول کی قیمت کم اور مسائل ختم کیے جاسکتے ہیں تو عوام کو کوئی اعتراض نہیں، نگراں حکومت اپنا جادو دکھائے۔ اسی سلسلہ گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ ہم نے پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں دونوں آراء پر غور کیا تھا ۔ اجلاس میں پی پی پی کے تمام قانونی ماہرین کی رائے تھی کہ آئین کے مطابق 90روز میں انتخابات ہونے چاہئیں۔ پھر کمیٹی کے فیصلے کے مطابق پارٹی کے وفد نے کمیشن سے ملاقات کی اور اپنی شکایات سے آگاہ کیا اور انہوں نے اپنے خیالات ہمارے سامنے رکھے۔ اب میں لاہور جا رہا ہوں ، وہاں پارٹی کا اگلا اجلاس ہوگا ، اگر کسی کی کوئی اور رائے ہے تو وہ اجلاس میں میرے سامنے رکھ سکتا ہے۔ باپ بیٹے پر مشتمل پیپلز پارٹی کی قیادت میں آئندہ عام انتخابات کے وقت کے تعین جیسے حساس اور بنیادی مسئلے پر بیچ چوراہے ہونے والا یہ اختلاف حقیقت ہے یا پارٹی کی سیاسی حکمت عملی؟ واقعات کی روشنی میں اس سوال پر غور کیا جائے تو اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سابقہ اتحادی حکومت کے آخری دنوں میں نئی مردم شماری کی توثیق کا لازمی نتیجہ نئی حلقہ بندیوں کے آئینی تقاضے کی تکمیل کی شکل میں نکلنا تھا۔ اگر 90دن میں الیکشن یقینی بنانا پیپلز پارٹی کے نزدیک ناگزیرتھا تو اسے نئی مردم شماری کی توثیق نہیں کرنی چاہئے تھی۔ آصف علی زرداری نے نئی حلقہ بندیوں کو ضروری قرار دے اتحادی حکومت کے موقف کی تائید کی ہے لیکن بلاول نے اس کے مقابلے میں مختلف مؤقف کیا ان کی اجازت کے بغیر اختیار کرلیا ہے اور اس پر ڈٹے ہوئے بھی ہیں؟ یہ بات بھی قرین قیاس نہیں۔ لہٰذا ان سیاسی مبصرین کی بات درست معلوم ہوتی ہے جو اس اختلاف کو وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے یعنی قومی مفاد کے ناگزیر تقاضوں کو ملحوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ عوام کو مطمئن رکھنے کی حکمت عملی کے قرار دے رہے ہیں۔