• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے ، اس سے تو یہ نہیں لگتا کہ عام انتخابات کے لئے یہاں نگران حکومت قائم کی گئی ہے ۔ انتخابات کے انعقاد سے زیادہ دیگر معاملات پر کام ہو رہا ہے اور یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ یہ معاملات انتخابات سے زیادہ اہم ہیں۔معیشت کی بحالی ، کرپشن کا خاتمہ اور دہشت گردی سے نمٹنا ایک ایسا ٹاسک یا ایجنڈا ہے ، جس پر فوری عمل درآمد ملک کے لئے انتہائی ضروری ہے ۔ چونکہ نگران حکومتوں کے پاس نہ مینڈیٹ ہے اور نہ ہی تجربہ ، صلاحیت اور ٹیم کہ وہ روز مرہ کے حکومتی امور چلانے کے علاوہ کوئی بڑے فیصلے کر سکیں ، لہٰذا چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر نے اس ٹاسک کو پورا کرنے کی ذمہ داری خود لے لی ہے ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ معاشی بحران ، کرپشن اور دہشت گردی نے پاکستان کے ریاسی ڈھانچے کی بنیادوں کو ہلا دیا ہے ۔ یہ مسائل ایسے نہیں کہ فوری طور پر حل ہو سکیں ۔ لیکن نگران حکومتوں کے دور میں ان مسائل کو اس طرح چھوڑا بھی نہیں جا سکتا ویسے بھی حکومتی اور پالیسی امور میں فوج کو نہ صرف شامل کرنےبلکہ نمایاں کردار ادا کرنے کا راستہ خود جمہوری حکومتوں نے دیا تھا ۔ امن وامان کی بحالی کے لئے قائم کردہ اپیکس کمیٹیوں سے لے کر معیشت کی بحالی کے لئے حال ہی میں تشکیل کردہ سرمایہ کاری کی سہولت کاری کی خصوصی کونسل ( ایس آئی ایف سی ) تک بے شمار ’’ سول ملٹری ہائبرڈ فورمز ‘‘ بنائے گئے اور تمام سویلین امور میں فوج کو قائدانہ کردار سونپ دیا گیا ۔ آہستہ آہستہ پاکستان کا ہر معاملہ پاکستان کی سیکورٹی ( سلامتی ) سے جوڑ دیا گیا ۔ ملک کے معاشی ، سیاسی ، داخلی ، خارجی اور آئینی معاملات کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور سماجی معاملات بھی ملکی سلامتی کے تابع ہو گئے ہیں ۔ اب آپ کچھ سوچتے ہیں یا اپنی رائے رکھتے ہیں تو یہ بھی سیکورٹی کا مسئلہ ہے ۔ پاکستان ایک مکمل سیکورٹی اسٹیٹ ہے ۔

معیشت کو سنبھالا دینے کے لئے چیف آف ا ٓرمی اسٹاف کی تھوڑی سی کوششوں سے نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں ۔ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت گری ہے ۔ جو لوگ کرنسی کے کاروبار کو کنٹرول کرتے ہیں ، انہیں منتخب سیاسی حکومتیں بھی کنٹرول نہیں کر سکی ہیں ۔ یہ کام اب فوج ہی کر سکتی ہے ۔ پاکستان طویل عرصے سے اسمگلرز کی جنت بنا ہوا تھا ۔ سویلین حکومتوں کے بس میں تھا اور نہ ہے کہ وہ اسمگلنگ کے اس نیٹ ورک کو توڑ سکیں ۔ جہاں تک کرپشن کے خاتمے کی بات ہے ، نیب جیسا ادارہ بھی صرف سویلین حکومتوں میں ایک ’’ خود مختار ‘‘ ادارہ ہوتا ہے اب وہ ایک نئے انداز کا ادارہ نظر آئے گا ۔ دہشت گردی تو ہے ہی صرف سیکورٹی کا معاملہ ، اس میں منتخب جمہوری یا سویلین حکومتوں کا کیا عمل دخل ؟ وہ تو امن و امان کے عام امور بھی فوج کے سپرد کر چکی تھیں منتخب حکومتیں نہ ہونے کا جو خلاء پیدا ہوا ہے ، وہ نگران حکومتوں سے پر نہیں ہوا بلکہ یہ خلا بڑھ گیا ہے اس لئے فوج کو ان تمام معاملات میں زیادہ آگے بڑھ کر کردار ادا کرنا پڑ رہا ہے ۔

اگرمعاشی بحران ، کرپشن اور دہشت گردی پر کسی حد تک قابو پالیا جاتا ہے اور اس کے مثبت نتائج سے عوام کو کچھ ریلیف ملتا ہے تو پھر عام انتخابات میں لوگوں کی دلچسپی ازخود کم ہو جائے گی۔ لیکن یاد رہے کہ مذکورہ بالا سنگین مسائل اگر بہت حد تک کم ہو جاتے ہیں یا حل ہو جاتے ہیں تو تاریخ بتاتی ہے کہ لوگوں کی سیاست میں دلچسپی ختم نہیں ہو گی کیونکہ امن و خوش حالی میں لوگ اپنے جمہوری اور سیاسی حقوق کے بارے میں زیادہ حساس ہو جاتے ہیں ۔ تاریخ کے مطالعے اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں کے تجربات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دہشت گردی سے معاشی بحران میں اضافہ ہوتا ہے اور آمریت کا جواز پیدا ہوتا ہے ۔

جمہوری اورمساوات پر مبنی سماجی اقدار تباہ ہو جاتی ہیں اور لوگ کسی ہیرو کی تلاش میں ہو تے ہیں ۔ پاکستان جن سنگین مسائل سے دوچار ہے ، اس کے مصنوعی اسباب کو تو طاقت کی بنیاد پر کنٹرول یا ختم کیا جا سکتا ہے اور عوام کو ریلیف دے کر ان کی بے چینی کو کم کیا جا سکتا ہے لیکن ان کے حقیقی اسباب کو ختم کرنے یا ان کی جڑوں کو کاٹنے کی کبھی کوشش نہیں ہو گی ۔ پاکستان یہاں تک دہشت گردی کی وجہ سے پہنچا ۔ بزرگ اور تجربہ کار سیاست دان مولانا فضل الرحمن نے اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے حالات کا درست تجزیہ کیا اور اس خدشے کا اظہار کیا کہ دہشت گردی میں اضافہ ہو سکتا ہے ۔طالبان پاکستان کے مختلف علاقوں میں تیزی سے پیش قدمی کر رہے ہیں ۔ ویسے بھی نئی علاقائی اور عالمی صف بندی میں پاکستان کو ایک بار پھر عالمی طاقتوں کا میدان جنگ بنانے کی باتیں ہو رہی تھیں ۔ مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ بعض علاقوں میں تو انتخابی مہم بھی نہیں چلائی جا سکے گی ۔ ان کے مطابق اگر اگلے جنوری یا فروری میں عام انتخابات ہو جائیں تو اچھی بات ہے ، ورنہ حالات اچھے نظر نہیں آ رہے ۔ جو لوگ آئین کے مطابق 90روز میں انتخابات کرانے کا مطالبہ کر رہے ہیں ، وہ انتظار کریں ۔ ابھی انتخابات سے پہلے بہت کام باقی ہیں ۔ سیاسی جماعتوں نے خود معاملات اپنے ہاتھ سے نکالے ۔ بقول شاعر

باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں

کار جہاں دراز ہے ، اب مرا انتظار کر

اب اگر عام انتخابات ہو جاتے ہیں تو اگلی اسمبلی کو سب سے پہلے آئینی ترمیم کے ذریعہ نگران حکومتوں کا موجودہ تصور تبدیل کرنا ہو گا یا ختم کرنا ہو گا ۔ اس کے بعد سارے معاملات خود اپنے ہاتھ میں لینا ہوں گے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اپنی حکمرانی اور کارکردگی کو بہتر کرنا ہو گا ۔ یہ ہائبرڈ سسٹم جن بحرانوں کی پیداوار ہے ، اسی سسٹم سے یہ بحران ختم نہیں ہوں گے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین