• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ اپنے ساتھ اور اپنے بعد آزاد ہونیوالے ممالک چین اور بھارت کی طرح پاکستان کیوں ترقی نہ کر سکا۔ پستہ قد بنگالیوں کو نسلی طور پر ہم حقیر سمجھتے تھے، وہ بھی آگے نکل گئے۔ ہر ملک کے پاس زرِ مبادلہ کے ذخائر موجود ہیں۔ صرف آئی ٹی کے میدان میں بھارت ہر سال 245 ارب ڈالر کما رہا ہے۔ جی ڈی پی میں اسکا حصہ 7.4فیصد ہے ۔

حالیہ صدیوں میں دنیا کے جن ممالک نے ترقی کی، انہوں نے انڈسٹری، آئی ٹی اور سروسز سے کمایا۔ قدرتی حسن سے مالا مال ممالک نے سیاحت کو فروغ دیا۔ سیاحت تو خیر ہم نے کیا کرانی ہے کہ ہماری جھیلیں بچوں کے پوتڑوں اور پلاسٹک سے اٹ چکی ہیں۔ دنیا کے جس مقام سے ایک بھی پاکستانی گزرے، وہ اپنے نشان چھوڑ آتا ہے۔ اگر آپ ان لوگوں کی فہرست نکالیں، جو برطانیہ میں خود کو بے روزگار ظاہر کر کے حکومت سے وظیفہ بٹورتے ہیں تو پاکستانی جگمگاتے نظر آئینگے۔ ادھر ہم منصوبے بنا رہے ہیں کہ فصلیں اگا کر غربت ختم کرینگے۔ معدنی ذخائر کے بل پر امیر ہو جائینگے۔ کیا یہ بات قابلِ شرم نہیں کہ ایک زرعی ملک اپنی اشرافیہ کو نوازنے کیلئے پہلے سبسڈی دیکر چینی برآمد کرے، نرخ دو گنا ہو جائیں اور پھر خود درآمد پہ مجبور ہو۔ ذمہ دار کون ہے؟ کیا پاکستانیوں کے دماغ ہی چھوٹے ہیں یا جیسا کہ بعض صحافی کہتے ہیں کہ ہمارے جینز میں خرابی ہے؟ ایسی کوئی بات نہیں ۔ زیادہ تر پاکستانیوں کے دماغ شارپ ہیں۔ مسئلہ ہے تو صرف یہ کہ اس ملک میں طاقتور پر کبھی کسی قانون کا نفاذ نہیں ہو سکتا۔ طاقتور پر تو نفاذ ہو ہی نہیں سکتا لیکن عام آدمی بھی اپنے پیاروں کی خطا کبھی تسلیم نہ کرے گا۔ ہر طبقہ اپنے بڑوں کی ڈٹ کر حفاظت کریگا، خواہ وہ کتنے ہی بڑے قصور وار کیوں نہ ہوں۔ کچہری میں ایک وکیل اگر کسی سائل کو تھپڑ مارے تو وکلا وجہ پوچھنے اور اسے روکنے کی بجائے اکٹھے ہو کر اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے مارشل لا لگایا اور ایمرجنسی نافذ کی۔ انکے احتساب کی کوشش ہوئی تو ناکام بنا دی گئی۔ مشرف کا اگر احتساب ہو جاتا تو اسٹیبلشمنٹ آئندہ سیاسی کردار کیسے ادا کرتی۔ وہ پاور پالیٹکس، جس میں اقتدار کا انبساط رچا ہے۔ قاف لیگ اسٹیبلشمنٹ نے بنائی، جس کے نتیجے میں ملکی سیاست کا رخ تبدیل ہو کے رہ گیا ۔اس سے پہلے نواز شریف کو سیاست میں اتارا گیا ۔بھٹو کی سرپرستی کی، پھر اسکو پھانسی پہ لٹکایا۔ نواز شریف کو ملک بدر کر دیا ۔ عمران خا ن کی سرپرستی کی۔ آج ایک بار پھر نواز شریف کی سرپرستی ہے۔ عمران خان منظورِ نظر تھا تو ملک کا وزیرِ اعظم تھا۔ آج دو سو کیسز لڑتا ہوا کال کوٹھڑی میں پڑا ہے۔ جنرل مشرف نے نیب بنائی احتساب کیلئے۔ ایک دو سال بعد اسکا استعمال سیاست دانوں کی وفاداریاں حاصل کرنے اور نافرمانوں کو سبق سکھانے کیلئے ہونے لگا اور آج تک ہو رہا ہے۔

ایک سیاستدان کی لینڈ کروزر اگر سگنل پر کھڑے سپاہی کو کچلتی ہوئی گزر جائے تو کسی میں ہمت ہے کہ اسے سزا دے سکے؟ کپتان جب سیاست میں آیا تو اس نے ایک فیصلہ کیا اور اس فیصلے پر وہ آج تک قائم ہے۔ یہ کہ کوئی سیاستدان کتنا ہی بڑا چور کیوں نہ ہو، تحریکِ انصاف میں شامل ہوجائے تو اسکے تمام گناہ ایسے معاف ہو جائینگے، جیسے ماں کے پیٹ سے ابھی پیدا ہوا ہے۔ لطیفہ یہ ہے کہ اسمبلیاں تڑوانے والے فواد چوہدری صاحب سب سے پہلے بھاگنے والوں میں سے تھے۔ عمران خان کی حکومت میں دو دفعہ صحافیوں کو انہوں نے تھپڑ مارے۔ ابھی چند روز پہلے نگران وزیرِ اعظم سے ملاقات کرتے پائے گئے۔ بھارت میں طاقتور سے طاقتور شخص اگر کبھی قانون کی پکڑ میں آجائے، اسے بچا کوئی نہیں سکتا ۔ سعودی عرب میں قانون نافذ ہوتا ہے ،وہاں اس سال امریکی شہری سمیت 19غیر ملکیوں کو سنگین جرائم میں سزائے موت دی گئی۔ اب آپ ریمنڈ ڈیوس کو یاد کریں ، بالآخر اسٹیبلشمنٹ کو جس میں اپنا کردار ادا کر کے امریکی شہری کو بچانا پڑا تھا۔ یاد پڑتا ہے کہ 2019ء میں ایک سعودی شہزادے کو قتل کے جرم میں سزائے موت دیدی گئی تھی۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ہیرو بننے کے شوق میں اسٹیل مل کی نجکاری روکنے اور ریکو ڈک کیس میں جو کارنامے سرانجام دیے، اسکا نتیجہ پاکستان کو سینکڑوں ارب روپے کے نقصان کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ ہے کوئی جو انہیں کٹہرے میں کھڑا کر سکے ؟ ارسلان افتخار کیس میں جب ڈاکٹر شعیب سڈل نے ارسلان کو پانچ کروڑ روپے اور دوسری پارٹی کو ایک ارب سے زائد ٹیکس چوری کا مرتکب قرار دیا تو کیسے دو پارٹیوں کا ذاتی معاملہ قرار دیکر ختم کر دیا گیا ۔ پاکستان ایک ہزار سال میں بھی نہیں ٹھیک ہو سکتا، جب تک طاقتور کو سزا نہ دی جائے۔ رسالت مآبؐ نے فرمایا تھا: وہ قومیں تباہ ہو گئیں ، جو اپنے کمزوروں کو سزا دیتیں اور طاقتوروں کو معاف کر دیتیں۔ فرمایا: فاطمہؓ بھی ہوتی تو اسکا بھی ہاتھ کاٹ دیا جاتا۔ دنیا بھر میں جائیدادیں رکھنے والے شریف اور زرداری آج آزاد پھر رہے ہیں۔ قانون اگر نافذ ہوتا تو ساری جائیدادیں ضبط اور باقی زندگی جیل میں گزرتی۔ اس ملک میں ادویات کی قیمت دو گنا ہو جائے، کسی کو سزا نہیں ملتی۔ مسلمان تو امیر المومنین ؓسے پوچھ لیتے تھے کہ ایک چادر سے لباس کیسے سلا؟ جب تک ہم سب اپنے اپنے پیاروں کو قانون سے بچاتے رہیں گے، ملک کبھی ترقی نہ کر سکے گا ۔ جانور جب تک نکالا نہ جائیگا، پانی کبھی پاک نہ ہو سکے گا۔

تازہ ترین