پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد
مولانا احمد رضافاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ سچے پکے موحد تھے۔ ان کے خیال میں تو حید یہ نہیں تھی کہ محبوبانِ خدا سے پیٹھ پھیر کر اللہ کے آگے سر نیاز خم کیا جائے۔ ان کے نزدیک مقام محبوبیت میں محبوبان خدا غیر نہیں۔ ابلیس اس نکتے کو نہ سمجھا اور مارا گیا۔ اگر اللہ کو ایک ماننا اور صرف وصرف اس کے آگے جھکنا توحید کا حقیقی مفہوم ہوتا تو ابلیس نہ مارا جاتا، بلکہ اس کو انعام سے نوازا جاتا اور سب سے بڑا موحد تصور کیا جاتا۔ تحقیر آدم پر وہ مردود ٹھہرا اور مقام عظمت سے گرا کر ذلت و خواری کی پستیوں میں دھکیل دیا گیا۔
امام احمد رضا کے خیال میں توحید یہ ہے کہ محبوبانِ خدا کی محبتوں اور عظمتوں سے دل کو آباد کرکے پھر اللہ کے آگے جھکا جائے کہ ویران دل جھکنے کے قابل ہی نہیں۔
امام احمد رضا کے فکر وشعور پر اللہ چھایا ہوا تھا ۔ وہ فکر وحیات کے ہر گوشے میں اللہ کی جلوہ گری دیکھنا چاہتے تھے۔ طبعیات ، فلکیات ، سیاسیات، معاشیات، غرض علم کی ہر شاخ اسی ایک اصل سے پھوٹ رہی ہے تو پھر اس کا ذکر کیوں نہ ہو ؟ ہمارے صفحات اس کے ذکرسے خالی کیوں ہیں؟ ہم نے اس کو کیوں بھلادیا؟ جس نے زندگی دی، جس نے علم دیا، جس نے بولنا سکھایا ، جس نے قلم پکڑنا بتایا ، جس نے قلم چلانا سکھایا، جس کے احسان سے انسان کبھی سبکدوش نہیں ہوسکتا ، پھر وہ ایسا احسان فراموش کیوں ہو گیا کہ اپنے منعم کو بھول گیا اور یہ سمجھ بیٹھا کہ سب کچھ خودہی ہورہا ہے۔
امام احمد رضا کا کہنا تھا کہ کوئی علم وفن اللہ تعالیٰ کے ذکر سے خالی نہ ہونا چاہیے۔ یہ ایک ایسا انقلابی خیال تھا کہ اگر اس پر عمل کیا جاتا تو دل ودماغ اس طرح ویران نہ ہوتے جس طرح آج ویران ہیں۔ امام احمدرضا کا اصرار تھا کہ ہر کتاب میں اس کاذکر ہونا چاہیے، تاکہ پڑھنے والا شعور بندگی لے کر اُبھرے۔ جس کو بندگی کا شعور آگیا، اسے زندگی کا شعور آگیا۔ جو بندگی سے بے خبر ہے وہ خودزندگی سے بے خبر ہے، اور ہاں !امام احمدرضا نے ہر علم وفن میں لکھا، لیکن کہیں اپنے آقاومولا کو فراموش نہ کیا۔ جو کچھ کہا ، کردکھا یا اور آنے والوں کو سبق دے دیا۔
اللہ کے خیال نے اور اللہ کی یاد نے انہیں ایسا مخلص بنادیا تھا کہ ان کے اخلاص کو دیکھ دیکھ کر انبیاء علیہم السلام کا اخلاص یاد آتا تھا۔ ان کے اخلاص کا یہ عالم تھا کہ ایسے ایسے فتوے لکھے اور ایسے ایسے رسالے اور کتابیں لکھیں جن کے سامنے دورِ جدید کے تحقیقی مقالات ہیچ نظرآتے ہیں، مگر ایک پائی نہ لی۔ تقریر کی مگر ایک پیسہ نہ لیا۔ تعویز ات دیے، مگر ایک کوڑی نہ لی۔
وہ اخلاص کا پیکر تھے انہوں نے جو کچھ کیا اللہ کے لیے کیا ۔ جو کچھ کہا اللہ کے لیے کہا۔ ان کی دوستی بھی اللہ کے لیے تھی، ان کی دشمنی بھی اللہ کے لیے۔ انہوں نے کبھی نماز باجماعت ترک نہ کی۔ سفروحضر میں انہوں نے نماز با جماعت کا اہتمام رکھا۔ مرض الموت میں بھی ان کو نماز یا درہی۔ سکرات میں بھی وہ اللہ کو یاد کرتے رہے ، اور یاد کرتے کرتے جان عزیز جاں آفر یں کے سپرد کی۔
یہی اللہ کی محبت تھی جس نے ان کو اللہ کے محبوب ﷺ کا شیدائی بنادیا۔ وہ محبت ِمصطفیٰ ﷺ اور عشقِ رسول ﷺ کو مسلمانوں کی ملی زندگی میں بنیادی حیثیت دیتے ہیں۔ قومیں عشق ہی سے زندہ رہتی ہیں ۔ ملت اسلامیہ بھی عشق ہی سے زندہ ہوئی، عشق ہی سے زندہ رہی ۔ عشق ہی سے زندہ رہے گی ۔ عش جتنا محکم ہوگا، زندگی اتنی پائندہ ہوگی ۔ امام احمدرضا محبت کی موت کو ملت کی موت سمجھتے تھے، اس لیے انہوں نے محبت کی خاطر ملک گیر تحریک چلائی۔
دلوں کو مرنے نہ دیا ، زندہ رکھا۔ ان کو معلوم تھا ‘عشق ومحبت نے صحابہ کرام ؓ کو سرفراز کیا۔ وہ عشق مصطفیٰ ﷺ کا بھی پرچار کرتے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا جہاں کے علوم قرآن میں ہیں۔ قرآن سینۂ مصطفیٰ ﷺ میں ہے ، تو پھر سینۂ مصطفی ﷺ میں دنیا جہاں کے علوم کیوں نہیں ؟ ان کےنزدیک علوم ”ماکان ومایکون“سے باخبری حضورﷺ کی نبوت کا سب سے بڑا امتیاز تھا۔ ڈاکٹرعلامہ اقبال بھی امام احمدرضا کی تائید کرتے ہیں اور علوم غیبیہ کو نبوت کا امتیاز خاص قرار دیتے ہیں۔
امام احمد رضا کے پیش نظر شریعت مصطفویﷺ تھی ۔ دوست یا دشمن جس نے بھی شریعت کے خلاف قدم اُٹھایا، انہوں نے سخت گرفت کی اور پوری قوت سے اس کی مزاحمت کی۔ ان کے سامنے شخصیات نہیں، بلکہ شریعت مصطفویﷺ تھی۔ انہوں نے شریعت مصطفویﷺ کو پیمانہ بنایا۔ یہی ان کی فکر کا امتیازِ خاص ہے۔