ڈاکٹر اقبال احمد اختر القادری
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی عظیم علمی و روحانی شخصیت اور اُن کے عالمگیر دینی و تجدیدی کارنامے کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ سو سال سے زائد ہوگئے، مگر ان کی ہمہ جہت ، محیرالعقول شخصیت آج بھی عالم اسلام پر بادل بن کر چھائی ہوئی ہے۔ آپ اس دور میں پیدا ہوئے جب بر صغیر کے حالا ت دگرگوں تھے، مسلمانوں کے حالات اور افکا ر واعمال میں ایک ہیجان برپا تھا، اس دور میں کچھ ایسی تحریکیں چل پڑی تھیں، جنہوں نے مسلمانوں کے ایمان ویقین کو کمز ور کرنا شروع کر دیا تھا۔
اعلیٰ حضرت نے جب ہوش سنبھا لا تو اپنی خدادادایمانی اور علمی قوت سے گرتے ہوؤں کو بچایا ، آپ نے مسلمانوں کے ایمان ویقین کو متز لز ل اور عشق ومحبت کو بربادنہ ہونے دیا اور عشق رسول ﷺ کی ایسی شمع روشن کی جس نے تاریک فضاؤں کو آج تک روشن کیا ہوا ہے ‘آپ نے عشق رسول ﷺ کے ذریعے مسلمانوں میں زندگی کی ایک ایسی لہر دوڑادی کہ جس نے مُردوں کو زندہ کر دیا۔ آپ نے پوری اسلامی تاریخ سے کشید کرکے مسلم ثقافت پیش کی۔
آپ نے عصر جدید کو مذہب اور تصوف کی شاندا رروایات کو پامال نہ کرنے دیا۔ آپ نے ایمان و عقائد کی حفاظت کی، وہ عقائد جو اسلاف کی یادگاراور اسلام کی اساس ہیں۔ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ اسلام کے اولین مآخذ ہیں جس سے رہتی دنیا تک انسانیت کوہدایت کی روشنی ملتی رہے گی‘ مگر چونکہ یہ عربی زبان میں ہیں، اس لیے ہر کس و ناکس کی سمجھ سے بالا تھے، اعلیٰ حضرت ؒ نے اس مشکل کو آسان کرتے ہوئے نہایت سلیس اردو زبان میں’’کنزالایمان ‘‘کے نام سے ایسا لاجواب ترجمۂ قرآن فرمایا کہ آج لوگ اس کے علمی و ادبی محاسن پرتحقیقی مقالات لکھ رہے ہیں۔
اعلیٰ حضرت ؒ کو یہ عظمت حاصل ہے کہ جو علو م وفنون آپ کے زمانے میں رائج و معروف تھے ،ان علو م وفنون میں آپ نے کثیر تعداد میں تصانیف یادگار چھوڑی ہیں، لیکن ان کے علاوہ بعض علوم سائنس اور مستقبل کے اُن علوم وفنون کی نشان دہی بھی کی جوابھی باقاعدہ وجود میں بھی نہیں آئے تھے۔ آپ نے ملت اسلامیہ کے دینی ، اخلاقی ، معاشی ، تعلیمی اور سیا سی مسائل کا جو حل پیش کیا‘ ایک صدی گزر جانے کے باوجود عالم اسلا م کے مسائل کے لیے آج وہ اسی طرح مؤثر ہیں۔
صاحبانِ علم و دانش آپ کے بحر علوم سے موتی چن چن کر مقالات و تصانیف کی مالائیں تیار کر رہے ہیں۔ پاک و ہند، عرب و عجم اور یورپی جامعا ت میں مسلسل تحقیقی کا م ہورہا ہے، اب تک تقریباً ۴۸؍ فضلاء آپ کی حیات اور افکار و خدمات پر پی ۔ایچ۔ڈی کے تھیسس لکھ کراسناد حاصل کر چکے ہیں ،چنانچہ پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد نے اپنی کتاب ’’امام احمد رضا اور عالمی جامعات‘‘میں اس حوالے سے کافی تفصیلات پیش کی ہیں۔
اعلیٰ حضرت ؒ نے اپنے فتاویٰ کا ایک عظیم ذخیر ہ چھوڑا ہے جو منقولا ت اور معقولات کا جامع ہے ۔ آپ کے ’’فتا وٰی رضویہ‘‘ کی تیس جلدیں باربارپاک و ہند سے شائع ہورہی ہیں‘ جس پر ڈاکٹر حسن رضا اعظمی، ڈاکٹر محمد انور خان پٹھان، ڈاکٹر محمد مہربان باروی، ڈاکٹر محمد اسحاق مدنی اور کئی اسکالرز ڈاکٹریٹ کے مقالات لکھ کر اسناد پا چکے ہیں۔ تاریخِ فتاویٰ میں ’’فتاوٰی رضویہ‘‘ اپنی نظیرآپ ہے۔
حضور اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے اورنبوت کا دعو یٰ کرنے والے پیدا ہوئے تو آپ نے ناموس مصطفیٰ ﷺ کی حفاظت فرمائی اورایسے افراد کی سخت مزاحمت فرمائی ، مسلسل رسالے لکھے اور فتاویٰ جاری کیے۔ سیرت نبوی ﷺ سے متعلق اگرآپ کے رسائل اور فتاویٰ جمع کیے جائیں تو سیرت النبی ﷺ پرالگ سے ایک انسائکلو پیڈیا تیار ہوجائے، چنانچہ علامہ محمد عیسیٰ رضوی قادری نے اس حوالے سے کام کر کے’’سیرت مصطفیٰ جانِ رحمت‘‘ کے نام سے ہزار ہزار صفحات کی چار ضخیم جلدیں مرتب کی ہیں جو پاک و ہند سے شائع ہو چکی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم غور سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ان کی ہر کتاب میں سیرت ہی سیرت جگمگا رہی ہے کیونکہ وہ اتباع سنت میں کامل اور ایک عظیم عاشق رسول تھے۔
اعلیٰ حضرت ؒ ایک بلند پایہ شاعر بھی تھے،آپ نے ادب وشاعر ی کو مجازی محبوبوں سے نجات بخشی اور حقیقی محبو ب کا ایسا رنگ دکھا یا کہ سارے رنگ پھیکے پڑگئے۔ فن شاعر ی میں نعت کو اتنا بلند کیا کہ پوری اردو شاعر ی تکتی رہ گئی۔ آپ نے نعتیہ شاعری سے ملت میں ایک نئی روح پھونک دی۔ آپ کا نعتیہ کلا م ’’ حدائق بخشش‘‘ کے نام سے ہزاروں کی تعداد میں چھپ چکا ہے، آپ کی عربی شاعری کا پورا مجموعہ ’’بساتین الغفران ‘‘ کے عنوان سے جامعہ از ہر‘مصر کے استا د ڈاکٹر شیخ سید حازم محمد احمد عبد الرحیم المحفوظ نے مرتب کیا، جو ۱۹۹۷ ء میں لا ہور سے شائع ہوچکا، جب کہ فارسی شاعری کا مجموعہ سابق ایڈیشنل سکریٹری وزارت تعلیم حکومت سندھ پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد نے ’’ارمغانِ رضا‘‘ کے نام سے مرتب کیا جو کراچی سے شائع ہوچکا ۔آپ کی نعتیہ شاعری کے محاسن پر ڈاکٹر محمد امام الدین جوہر،ڈاکٹر سید جمیل الدین راٹھوی،ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی، ڈاکٹر سراج احمد بستوی، ڈاکٹر تنظیم الفردوس ، ڈاکٹر محمد مبشر اور کئی اسکالرز نے ڈاکٹریٹ کے مقالات لکھ کر اسناد حاصل کی ہیں۔
اعلیٰ حضرت نے’’ دوقومی نظریہ‘‘ کا احیا ء کیا ‘ آپ نے اپنے رسالے ’’المحجۃ المؤتمنہ ‘‘ میں دوقومی نظریہ کی خوب وضاحت فرمائی ۔ نصاب تعلیم ، اسلا می طرز حکومت میں بنیا دی اہمیت کا حامل ہے۔ اعلیٰ حضرت نے جدید نظام تعلیم کے خلاف سخت جد وجہد فرمائی جو انگریز حاکموں نے مسلمانوں کے مزاج و معاشرت کے بدلنے اور اسلا م سے دور کر نے کے لیے نافذ کیا تھا۔
آپ نے نظام تعلیم اور اقتصادی نظام کا ایک خاکہ پیش کیا ‘جس کا تفصیلی ذکر علامہ جلا ل الدین قادری نے اپنی کتاب ’’ امام احمد کا نظر یۂ تعلیم ‘‘، پر وفیسر رفیع اللہ صد یقی نے اپنے مقالے ’’فاضل بریلوی کے معاشی نکا ت جدید معاشیات کے آئینے میں‘‘اور ڈاکٹر محمد ہارون نے اپنی کتاب ’’ امام احمد رضا محدث بریلو ی کا عظیم اصلاحی منصوبہ ‘‘ میں تفصیل سے بیان کیے ہیں۔
اعلیٰ حضرتؒ نے اپنے تبحر علمی سے و ہ علمی وتجدیدی کام کیا کہ علمائے اسلا م اور حکمائے اسلام کی یاد تازہ کر دی اور اُن کے شاند ار تسلسل کو قائم رکھا۔ منقو لات اور معقولات میں آپ نے اردو، فارسی اور عربی میں جو لاتعداد تصانیف اور شرح وحواشی پیش کیں، ان سے آپ کی حیرت انگیز و سعت علمی اور عظمت کا اند ازہ ہوتا ہے۔
آپ کے بہت سے قلمی مخطوطات ادارہ تحقیقات امام احمد رضا کراچی میں محفوظ ہیں جو ابھی تک تشنہ اشاعت ہیں۔ بلاشبہ، اعلیٰ حضرت ؒ اپنے دور کی ایک عظیم شخصیت تھے‘ ان کا علم ہمہ گیر اور عالمگیر تھا‘ ان کے اثرات بھی ہمہ گیر اور عالمگیر ہیں۔ ہمیں ان کے محیرالعقول علمی کمالات سے استفادہ کرناچاہیے۔