اس وقت ملک کے جو حالات ہیں ان میں عام انتخابات کا انعقاد ملک کو دیوالیہ کرنے کے مترادف ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاسی عدم استحکام پہلے ہی بہت زیادہ ہے ، عام انتخابات ہونے کے بعد اس میں کمی کی بجائے مزید اضافے کا اندیشہ ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ کم از کم اگلے دو سے تین سال پوری توجہ معاشی استحکام حاصل کرنے اور معیشت کو بہتر بنانے پر دی جائے۔ اس حوالے سے جیسے ماضی میں چارٹر آف ڈیموکریسی کیا گیا تھا اسی طرح چارٹر آف اکانومی کیا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان فیڈریشن آف چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے ساتھ ساتھ ملک کے مختلف شہروں کے ایوان ہائے صنعت و تجارت اور تمام بڑی کاروباری ایسوسی ایشنز کے نمائندوں پر مشتمل کونسل بنائی جائے جو معیشت کی بہتری کے لئے تجاویز مرتب کرے جن پر سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے اتفاق رائے سے عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔
موجودہ حالات میں بعض سیاسی جماعتیں اور وکلاء خود کو جمہوریت پسند ثابت کرنے کے لئے جس طرح 90دن میں الیکشن کے انعقاد کو آئینی تقاضا قرار دے کر جلد از جلد عام انتخابات کا انعقاد کرانے پر زور دے رہے ہیں، انہیں شاید پاکستان کی معاشی ابتری اور اس کی وجہ سے عام آدمی کو درپیش مسائل کا ادراک نہیں ہے۔ انہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر ملک کا خزانہ خالی ہے تو کوئی بھی بڑے سے بڑا سیاستدان یا معاشی ماہر اقتدار میں آ کر ملک کے حالات کو فوری ٹھیک نہیں کر سکتا ۔ اس حوالے سے ماضی کے انتخابات کے نتائج کو مدنظر رکھا جائے تو یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ پاکستان میں الیکشن ہارنے والی سیاسی جماعتوں نے کبھی انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کیا ۔ اس لئے اندیشہ ہے کہ اگر موجودہ حالات میں عام انتخابات کروا دیئے گئے تو نئی حکومت بنتے ہی الیکشن ہارنے والی سیاسی جماعتیں اس کے خلاف محاذ قائم کر لیں گی جس کے بعد ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام مزید شدت اختیار کر جائے گا۔
اس لئے ہر درد دل رکھنے والا پاکستانی یہ سمجھتا ہے کہ الیکشن اس وقت کروائے جائیں جب پاکستان کی معاشی حالت بہتر اور قومی خزانے میں ملکی ضروریات پوری کرنے کے لئے مناسب زرمبادلہ موجود ہو۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آئینی تقاضے اپنی جگہ اہم ہیں لیکن اگر الیکشن کروا کر ملک کو دیوالیہ کرنا ہے تو اس سے ملک اور قوم کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ ہمیں یہ سادہ سی بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جس گھر کی آمدنی سو روپے اور خرچہ دو سو روپے ہو وہ گھر نہیں چل سکتا۔ اس وقت ہمارے پاس ’’سی پیک ‘‘ کی شکل میں اپنی معیشت کو بحال کرنے کا سنہری موقع موجود ہے جس سے فائدہ اٹھانے میں ہم پہلے ہی کافی تاخیر کر چکے ہیں۔ چین میں لیبر مہنگی ہونے اور امریکی پابندیوں کے باعث چین اپنی انڈسٹری ’’ری لوکیٹ‘‘ کرنا چاہتا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان ان کے لئے بہترین آپشن ثابت ہو سکتا ہے۔
ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ دنیا ہتھیاروں اور فوجوں سے لڑی جانے والی جنگوں کے دور سے آگے نکل کر اقتصادی جنگوں کے دور میں داخل ہو چکی ہے اور کسی ایسے ملک کے لئے اپنی خودمختاری کا دفاع کرنا ممکن نہیں رہا ہے جو اقتصادی طور پر دوسروں کا دست نگر ہو۔ اس لئے ملک کی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ملک میں معاشی استحکام لایا جائے۔ اس کیلئے عام انتخابات کو چند سال کے لئے ملتوی کر کے ملکی معاملات چلانے کیلئے اسٹیبلشمنٹ، سیاستدانوں اور بزنس کمیونٹی کے درد دل رکھنے والے افراد پر مشتمل ایک کونسل بنائی جا سکتی ہے۔ اس کونسل میں ایسے افراد کو شامل کیا جائے جو سرکاری مراعات لینے کی بجائے ملک کی بہتری کے لئے اپنے وسائل پر انحصار کریں۔
اس سلسلے میں فوری پیشرفت کی ضرورت ہے تاکہ جو قابل لوگ ملک کے مستقبل سے مایوس ہو کر بیرون ملک منتقل ہو رہے ہیں انہیں اپنے ملک میں کام کرنے اور اس کی ترقی میں حصہ ڈالنے کے بہتر مواقع فراہم کئے جا سکیں۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان ہے تو ہم ہیں۔ اگر ہر پاکستانی اس جذبے کے ساتھ ملک کی بہتری کے لئے اپنا کردار ادا کرے اور ’’بی پاکستانی، بائے پاکستانی‘‘ کی پالیسی اپناتے ہوئے ملک میں نئی انڈسٹری لگانے اور پہلے سے موجود انڈسٹری کو فروغ دینے میں حصہ لے تو ہم موجودہ معاشی بحران سے بہت جلد چھٹکارہ حاصل کر سکتے ہیں۔ اس سے نہ صر ف درآمدی اشیاء پر خرچ ہونے والا زرمبادلہ بچایا جا سکے گا بلکہ مقامی طور پر لوگوں کو روزگار کے بہتر مواقع میسر آئیں گے۔ایکسپورٹ انڈسٹری کے حوالے سے سیاسی جماعتوں، اسٹیبلشمنٹ اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت اور اتفاق رائے سے اگلے پندرہ سے بیس سال کے لئے ایسی پالیسی تیار کرنے کی ضرورت ہے جو کہ حکومتوں کے تبدیل ہونے سے تبدیل نہ ہو تاکہ ایکسپورٹرز طویل المدت بنیادوں پر منصوبہ بندی کرکے برآمدات میں اضافے پر توجہ دے سکیں، اس کے لئے پہلے سے قائم خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کے ون ونڈو آپریشن کو ذمہ داری دی جا سکتی ہے یا ایکسپورٹ انڈسٹری کو فروغ دینے کے لئے الگ سے ون ونڈو آپریشن کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔ میں ایک بار پھر پورے خلوص اور اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ بات دہرانا ضروری سمجھتا ہوں کہ الیکشن سے زیادہ اس ملک کو اقتصادی بحالی کی ضرورت ہے۔ ماضی میں ایوب خان، ضیا الحق اور پرویز مشرف کےادوار میں ہونے والی صنعتی ترقی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم ایک بار پھر اسی ماڈل پر عمل پیرا ہو کر معاشی استحکام کی جانب گامزن ہو سکتے ہیں۔