ہم میں سے کچھ تو سچ اورانصاف کی راہ سے معمولی سے انحراف پر بھی بہت حساس ہیں ، جب کہ کچھ دیگر کووہ راستہ مرغوب ہے جس پر اکثر وہ گامزن رہتے ہیں ، چاہے وہ راستہ عوام یا ملک کے مفاد میں نہ بھی ہو۔ ان دونوں کے لئے اپنی تشویش دور کئے بغیر مشترکہ میدان عمل تلاش کرنے کی کوشش ایسی مشکلات کو دعوت دے گی جن کی وجہ سے سماج میں تقسیم کی لکیریں گہری ہوتی جارہی ہیں ۔ یہ موخر الذکر ، جو ہمیشہ اکثریت میں ہوتے ہیں، کو اختیار دے دیتا ہے کیوں کہ وہ صحیح یا غلط، جائز یا ناجائز، قانونی یا غیر قانونی، ملنے والے مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ دستور ساز اسمبلی سے قائد اعظم کے گیارہ اگست کے چونکا دینے والے خطاب کے بعد پاکستان کو اُن کے تصور کے مطابق ڈھالنے کی کوئی حقیقی کوشش نہیں کی گئی ۔ درحقیقت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم روشن خیالی، ترقی پسندی، روادار ی اور انسانی فلاحی تصورات سے دور ہٹتے ہوئے رجعت پسندی اور تاریکی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ اب مستقبل کی سمت رہنمائی کرنے والی روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی ۔
تصور اور حقیقت کے درمیان خلیج مسلسل وسیع ہوتی جارہی ہے ۔ ہم ان بیانات میں الجھ چکے ہیں جو ہر جماعت ببانگ دہل ارزاں کرتی ہے کہ صرف وہی درست، باقی سب غلط ہیں ۔ ان کی طویل خطابت میں نہ کوئی منطق ہوتی ہے نہ معقولیت اور نہ ہی کسی طریق کار کا ذکر ہوتا ہے کہ کس طرح امید کا دامن تھام کر مستقبل کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے ملک و قوم کے لئے فوائد سمیٹنے ہیں ۔ اسی طرح ریاست اور اس کے ہر طرح کے حکمرانوں، چاہے سویلین ہوں یا فوجی، کی زیادتیوں کا شکار ہونے والے عام، غریب انسانوں کی مایوسی بڑھتی جارہی ہے۔ زندگی کے مرکزی دھارے کے کناروں پر بھی ان کی زندگی کے امکانات معدوم ہوتے جارہے ہیں ۔ان کے دکھوں کے بارے میں ذرا بھی حساسیت کا مظاہرہ کرنے والا کوئی نہیں ہے کیونکہ ترقیاتی فنڈز کے نام پر اراکین اسمبلی کو اربوں روپے دیے جاتے ہیں جن سے ان کے خزانے اگلے انتخابات میں جیتنے کے لئے پھر بھر جاتے ہیں ۔ ان کی سرمایہ کاری بھاری منافع کے ساتھ واپس آجاتی ہے ، اوروہ خود بھی ریاست کی کھال اتارنے کے لئے پھر سے موجود ہوتے ہیں ۔ ہر ماہ اربوں روپوں لگائے جاتے ہیں تاکہ اشرافیہ ریاست کے وسائل پر عیش و عشرت کی زندگی بسر کرسکے۔
جس دوران ہماری گراوٹ کا سفر جاری ہے ، ہم جو کبھی ایشیا کا ستارہ کہلاتے تھے ، آج ہم ایک کھوکھلے ڈھانچے میں تبدیل ہوچکے ہیں ۔ آج ہمارا ٹریڈ مارک کشکول ہے جو ہم نے اٹھا یا ہوا ہے ۔ ہر روز خیرات ملتی اور ایک دن گزرتا ہے۔ بدترین بات یہ ہے کہ ہم اتنی شرم سے بھی محروم ہوچکے ہیں کہ اپنے اندر جھانک کر دیکھیں ، اپناجائزہ لیں کہ ہم اس پستی تک کیسے پہنچے ہیں اور کیا اس بیمار ذہنیت کے خوفناک چنگل سے خود کو نکالنے کا کوئی طریقہ ہے؟ اگر کچھ اضافہ ہوا ہے تو وہ ریاست کی سفاکیت میں ، جس نے نظام انصاف کو بالکل غیر متعلق کردیا ہے جو ملک کے لئےآج بھی کچھ کرسکتا تھا۔
آئین اور قوانین کی کھلم کھلا توہین کے ذریعے لوگوں کی رہی سہی عزت نفس کو بری طرح مجروح کیا گیا ہے، چاہے وہ آزادی اظہار سے متعلق ہویا پرامن احتجاج کرنے کے حق کے بارے میں، یا آزادی کے بارے میں۔ عدلیہ اور دیگر ریاستی ادارے جن کو معاملات چلانے کا کام سونپا گیا ہے، آج وہ آئین کی کتاب میں موجود ضابطوں کی بجائے افراد کی خواہش پر کام کرتےدکھائی دیتے ہیں۔ جو کوئی بھی اس بندوبست کو نامنظور کرتا ہے ، اُس کی قسمت میں اُسی تہہ خانے میں بند ہوجانا لکھ دیا جاتا ہے جہاں اس طرح کے اور بھی بہت سے طویل عرصے سے قید ہیں۔
ایسے تباہ کن ماحول میں ریاست کو مزید زک پہنچائے بغیر آگے بڑھنے کے لئے کون سے آپشنز ہیں ؟ وہ ریاست جس کا ڈھانچہ عشروں کے غلط استعمال اور استحصال کی وجہ سے زنگ آلود اور بوسیدہ ہوچکا ہے۔ صرف ایک ہلکا سا دھکا ہی اس ڈھانچے کو دھماکے سے گرا سکتا ہے، لیکن اس کی قسمت پر ماتم کرنے والا کوئی نہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم خود اس کا انجام شیطانی ارادوں سے لکھ رہے ہیں۔ تو کیا یہ کہتے ہوئے چیلنج ترک کر دینا چاہئے کہ جب کوئی فرد کرپٹ اور مفاد پرست اشرافیہ کے خلاف کھڑا ہو تو وہ کچھ نہیں کرسکتا؟ کیوں کہ اس کے پاس اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لئے بہت سے شاطرانہ حربے اور آزمودہ چالیں ہیں ۔
لیکن ریاست ان کروڑوں کی ماں ہے جن کی تقدیر چند لوگوں کے مفاد کی قربان گاہ پر گھائل ہوچکی ہے۔ یہ ان کا واحد اثاثہ ہے، اور ان کا وجود اس کی بقا اور ترقی پر منحصر ہے۔ مفاد پرست اشرافیہ کا بڑا حصہ دنیا کے کسی اور مقام پرپاکستان سے لانڈرنگ کی رقم سےمحلات تعمیر کرتا ہے، غریب افراد کے پاس اس ریاست کے علاوہ کوئی اور جگہ نہیں ہے۔ مایوسی ان لوگوں کی ایک بڑی تعداد سے بھی ظاہر ہوتی ہے جو اپنی جان کے خطرے کی وجہ سے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ انہیں یہاں کوئی بقا نظر نہیں آتی اور ان کے بچوں کا مستقبل نظر نہیں آتا۔
یہ وہ متناقضہ ہے جس میں ملک پھنسا ہوا ہے جس کا کوئی آسان حل نظر نہیں آتا۔ جو صاحب اختیار ہیں، وہ اپنی سوچ میں تبدیلی لانے کے لئے تیار نہیں۔ اور جو لوگ بار بار آزمائشوں اور مصیبتوں سے گزر رہے ہیں ان کے پاس اختیارات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ان کے گھر اور چولہے، ان کے خاندان اور کاروبار، ان کی عزت نفس، کچھ بھی محفوظ نہیں۔ درحقیقت یہ سارا معاملہ آسانی سے لوگوں کو سیاسی جماعت سے دور کرنے کے لئے ہے۔ یہ صورت حال کس نہج تک پہنچے گی؟
پاکستان کے قیام کے 76 سال مکمل ہونے کے بعد ایسا لگتا ہے جیسے جیسے دنیا پر امید مستقبل کی طرف چھلانگ لگاتی بڑھ رہی ہے ہم اتھاہ گہرائی میں جھانک رہے ہیں۔جس کھائی میں ہم گر رہے ہیں، اس گہرائی کی پیمائش کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟ اس خوف ناک گراوٹ کی کوئی مثال نہیں۔