• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ویسے تو کافی عرصے سے مختلف اطراف سے سندھ کی وحدت، معیشت اور ثقافت کے خلاف سازشیں ہوتی رہی ہیں مگر گزشتہ کچھ عرصے سے اس سلسلے میں سندھ پر مختلف اطراف سے کئی وار ہونے لگے ہیں’’ یہ وار سندھ اور ملک کے مختلف اقتدار پرست حلقوں کی طرف سے ہوتے رہے‘‘ مثال کے طور پر کبھی یہ کہا گیا کہ کراچی جو نہ صرف سندھ کا دارالحکومت ہے بلکہ صدیوں سے سندھ دھرتی کا حصہ رہا ہے‘ اسے سندھ سے الگ کرکے الگ صوبہ بنایا جائے‘ کچھ حلقوں کی طرف سےپی ٹی آئی حکو مت کے دور میں مطالبہ کیا گیا کہ سندھ کو دو الگ صوبوں میں تقسیم کیا جائے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ان منصوبوں کو اس وقت کے وزیر اعظم عمران اور ان کی پارٹی کی بھی حمایت حاصل تھی‘ اس عرصے کے دوران صرف اتنا کرنے کی کوشش نہیں کی گئی بلکہ سندھ کی ساحلی پٹی میں کچھ علاقے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو فروخت کرنے کی بھی منصوبہ بندی کی گئی حالانکہ اس ساحلی پٹی کے علاقوں میں صدیوں سے رہنے والے مقامی لوگوں کے کئی گائو?ں ہیں‘ جب یہ خبر پھیلی تو اس علاقے کے سیاسی رہنما?ئوں مکینوں اور سمندری علاقے کے ہزاروں ماہی گیروں میں کافی بے چینی پیدا ہوگئی‘ اس کے نتیجے میں مختلف سیاسی حلقوں کی طرف سے ان سازشوں کے خلاف اخباری بیانات جاری ہونے لگے اور مختلف سیاسی حلقوں اور متاثر ہ مکینوں کی طرف سے مختلف انداز میں احتجاج ہونے لگے۔اب تو ڈیجیٹل مردم شماری کے ذریعے سندھ کو ایک کالونی کی شکل دینے کے منصوبے کے ساتھ ساتھ کئی خفیہ طریقوں سے سندھ کی اصل تعداد کم کرکے پیش کرنے کے منصوبے بھی سامنے آنے لگے۔ ان حرکات کے خلاف سندھ بھر میں کئی لانگ مارچ اور احتجاج کئے گئے یہ لانگ مارچ سندھ کے مختلف حصوں میں تو ضرور کئے گئے مگر کچھ لانگ مارچ سندھ کے ایک کونے سے دوسرے کونے کراچی تک بھی کئے گئے مگر ان احتجاجوں کا پاکستان کے حکمراںحلقوں پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ وفاقی حکومت کے زور دینے پر اس طرز سے گھر شماری کرنے کے بعد مردم شماری کرنے پر دن رات عمل ہورہا ہے حالانکہ اس پر سندھ کے عوام و دیگر حلقوں کی طرف سے ڈیجٹیل مردم شماری میں اختیار کئے گئے ناجائز طریقوں کے استعمال کے بارے میں کئی اہم اور پریشان کن اعداد و شمار بھی

سامنے لائے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں خاص طور پر پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر نے کافی تحقیق کی ہے۔ وہ کئی بار سینیٹ میں اس ایشو کو اٹھا چکے ہیں‘ ایک بار انہوں نے سینیٹ میں ایک قرارداد بھی پیش کی۔ وہ اس ایشو پر ایک تحقیقی کتابچہ بھی شائع کرچکے ہیں۔ انہوں نے تازہ ترین انکشاف کیا ہے کہ اس مردم شماری میں سندھ کی آبادی 2 کروڑ کم دکھائی گئی ہے۔ علاوہ ازیں سندھ کے اور بھی کئی حلقےاس مردم شماری پر کئی شدید اعتراضات کرچکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس مردم شماری کے نتیجے میں سندھ کی حیثیت پاکستان کی ایک چھوٹی سی کالونی کی سی ہوجائے گی۔ سندھ کے عوام اور سیاسی حلقے ابھی ان خطرات کا ہی جائزہ لے رہے تھے تو کچھ اور خطرات سامنے آنے لگے ‘ اس ایشو پر2ستمبر کو سندھ کے ممتاز سیاستدان رسول بخش پلیجو کی جماعت ’’عوامی تحریک‘‘ کی طرف سے حیدرآباد پریس کلب میں ایک سیمینار منعقد کیا گیا جس میں عوامی تحریک کے رہنمائوں اور کارکنوں کے علاوہ سندھ بھر سے کئی اور قوم پرست سیاسی جماعتوں کے رہنما?ئوں‘ دانشوروں‘ سینئر وکیلوں اور صحافیوں کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ اس سیمینار میں تمام محققین نے اس سلسلے میں کئی اعداد و شمار پیش کئے۔ اس سیمینار میں خاص طور پر عوامی تحریک کے صدرلال جروار نیایک نے بڑی اہم تقریر کی ۔اس تقریر میں اور دیگر مقررین اور محققین کی طرف سے جو اعداد و شمار و حقائق پیش کئے گئے ان میں سے کچھ میں یہاں پیش کررہا ہوں ۔ ’’ایک طرف سندھ کی لاکھوں ایکڑ زمین میگا ہائوسنگ اسکیم کے ذریعے اسٹیل مل کراچی‘ کراچی پورٹ‘ تھر کا کچا‘ کوہستان‘ سمندری علاقے کی زمین کارونجھر جبل‘ کھیر تھیر جبل اورگورکھ ہل فروخت کرنے کے علاوہ لاکھوں افغانیوں و دیگر غیر ملکیوں کو غیر قانونی طور پر این آئی سی کارڈ دے کر ان کو سندھ کا حصہ بناکر سندھ کے اصل عوام کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لئے راستہ ہموار کیا جارہا ہے۔ ان مقررین کے مطابق اب سندھ کی صوبائی حکومت کی طرف سے آثار قدیمہ بشمول پکا قلعہ حیدرآباد کو بھی فروخت کرنے کے پروگرام بنائے جارہے ہیں۔ اس سلسلے میں یہ بھی کم دلچسپ انکشاف نہیں کہ حکمراں پارٹی سے تعلق رکھنے والے کچھ ایم این ایز کی طرف سے ایک قرارداد پیش کی گئی تھی کہ سندھ کے جزیروں اور معدنی وسائل میری ٹائم زونز بل قائم کرکے ان کو وفاق کے حوالے کیا جائے۔ ان حلقوں کے مطابق خلیج کے ملکوں نے میگا اسکیموں کے تحت وفاقی حکومت سے ان زمینوں میں سے 10لاکھ ایکڑ زمین مانگی ہے۔

تازہ ترین