یونیورسٹی آف سرگودھا کے چمن زار سے شادابیاں سمیٹنے کے بعد میں کوئی ایک سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے جھنگ پہنچا تو رات اپنا دامن پھیلا چکی تھی۔ عزیزی خالد عمر اور حافظ شفیق کاشف کی گرم جوش میزبانی سے سیر جب دھند میں لپٹے چناب کالج کے مہمان خانہ خصوصی میں پہنچے تو رات کا پہلا پہر سمٹ رہا تھا لیکن کالج کے پرنسپل جناب زاہد خورشید لودھی اور ثقافتی سرگرمیوں کے منتظم جناب ذوالفقار علی وینس سراپا انتظار تھے۔ اُن کی پُرتپاک محبتوں کا نقش دیر تک قائم رہے گا۔
اگلی صبح بھی گہری دھند کا نقاب اوڑھے ہوئے تھی سو میں کمرے کی کھڑکی سے کالج کے درو دیوار کی کوئی جھلک نہ دیکھ پایا۔ ناشتے اور کالم سے فراغت کے بعد تیار ہوا تو گھڑی پر بارہ بج رہے تھے۔ یہ ملک کے طول و عرض سے آئے طلبا و طالبات کے مابین ایک تقریری مقابلہ تھا جس میں کوئی تیس اداروں سے آئی ٹیمیں حصہ لے رہی تھیں۔ مجھے بتایا گیا کہ پروگرام صبح ساڑھے نو بجے سے شروع ہے۔ ایک وسیع و عریض پنڈال میں بہت بڑا خیمہ نصب تھا۔ حد نظر تک طلبا و طالبات اپنی نشستوں پر بیٹھے تھے۔ پرنسپل، اساتذہ اور طلبہ کے پرُجوش استقبال کی یادیں بڑی دیر تک میرے دل و دماغ پر نقش رہیں گی۔ میں کسی مبالغے کے بغیر کہہ سکتا ہوں کہ بڑے بڑے شہروں کی عالی مرتبت درس گاہوں میں بھی اس قدر منظم، اتنی آراستہ پیراستہ، اس قدر خوش جمال اور ایسی پُرکشش تقریب کم کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔
کم و بیش چار گھنٹوں تک میں طلبا و طالبات کی تقریریں سنتا اور بچھڑ جانے والے ماضی کی خوش رنگ یادوں سے کھیلتا رہا۔ میں بھی زمانۂ تدریس میں سر سید کالج راولپنڈی کی ڈبیٹنگ سوسائٹی کا انچارج تھا۔ تب اسٹوڈنٹس یونینز زندہ تھیں۔ یہ یونینز سیاسی نعروں، جلسوں، جلوسوں اور بوقت ضرورت توڑ پھوڑ کے علاوہ مشاعروں، مباحثوں، تقریری مقابلوں، کھیلوں اور اس نوع کی دیگر ہم نصابی سرگرمیوں کا اہتمام بھی کرتی رہتی تھیں۔ سر سید کالج میں ہونے والے مباحثے اور تقریری مقابلے منفرد معیار و مقام رکھتے تھے۔ اپنے طلبہ کے لئے بیشتر تقریریں خود مجھے ہی لکھنا پڑتی تھیں۔ معروف شاعر پروفیسر جمیل ملک شعبہ ٔ اردو کے سربراہ تھے۔ کالج کے ایک طالب علم کی شعلہ بارتقریر سن کر انہوں نے مسکراتے ہوئے غالب کا ایک مصرعہ پڑھا تھا
سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
شاید ہمیشہ سے یہی ہوتا چلا آیا ہے۔ اساتذہ خود ہی اپنے طلبہ کو تقرریں لکھ کر دیتے۔ خود ہی انہیں یاد کراتے، خود ہی ادائیگی کے نشیب و فراز بتاتے اور خود ہی انہیں ڈرامائی حرکات و سکنات کا درس دیتے تھے۔ اب طلبہ کی انجمنوں کا دور تمام ہوگیا۔ سو تعلیمی اداروں میں بھی وہ پہلی سی چہل پہل نہیں رہی۔ مباحثوں، تقریری مقابلوں اور مشاعروں کی بساط لپٹ چکی ہے۔ لیکن چناب کالج جھنگ کی اس تقریب سے لگا کر بجھی راکھ میں بھی چنگاریاں نہ صرف موجود ہیں بلکہ دہک رہی ہیں۔ کوئٹہ سے لیکر خیبرپختونخوا کے دور دراز اداروں سے آئے طلبا و طالبات کو دیکھ کر خوشی ہوئی۔ تقاریر کا معیار بھی عمدہ تھا، میں اسٹیج پر لپکتی چمکتی شمشیروں کو دیکھتا اور سوچتا رہا کہ ان سب کے دم، سینۂ شمشیر سے باہر پنڈال کے کسی گوشے میں بیٹھے ہیں۔ میرے لئے سب سے خوشی اور کسی قدر حیرت کی بات یہ تھی کہ کالج کے سیکڑوں طلبا و طالبات تالیاں پیٹ رہے تھے۔ مقررین کو جی بھرکے داد دے رہے تھے لیکن کئی گھنٹوں پر مشتمل اس نشست کے دوران ایک لمحے کے لئے بھی ہلڑ بازی یا بدنظمی کا تاثر نہ ابھرا۔ نظم و ضبط کی یہ پختگی یقیناً پرنسپل اور اساتذہ کی محنت و ریاضت کا ثمر ہے۔
میں نے اپنے زمانہ تدریس کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کالج کے طلبا و طالبات سے کہا کہ وہ اس نوع کی مثبت اور باثمر روایت کو زندہ رکھیں۔ تقاریر کے دو پہلوئوں سے مجھے قدرے مایوسی ہوئی۔ ایک یہ کہ نوّے فیصد تقاریر منفی سوچ سے بھری تھیں۔ میں نے بچوں سے کہا کہ وہ پاکستان کے حوالے سے مثبت انداز فکر اپنائیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں بہت خرابیاں ہیں، لاتعداد کمیاں، کجیاں اور کوتاہیاں ہیں۔ بلاشبہ ہم پاکستان کو اس منزل مراد تک نہیں پہنچا سکے جو قائداعظم اور لاکھوں شہدائے آزادی کے پیش نظر تھی لیکن کیا یہ کم ہے کہ آج ہم آزاد ہیں۔ اس آزادی کی قدرو قیمت کا اندازہ لگانے کے لئے ہمیں ان کروڑوں مسلمانوں کے احوال و کوائف پر ایک نظر ضرور ڈالنی چاہئے جو آج بھارت میں برہمنی سامراج کے تسلط تلے زندگیاں گزار رہے ہیں۔ بہت سی کمزوریوں کے باوصف پاکستان نے تعمیر و ترقی کے شاندار مراحل بھی طے کئے ہیں، کئی شعبوں میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔ نوجوانوں کے لئے روشن امکانات کے تابناک دریچے کھولے ہیں۔ ہمارا سفر کچھ ایسا سفرِ رائیگاں بھی نہیں۔ لاتعداد وسائل کا حامل پاکستان دنیا کی سات ایٹمی طاقتوں میں سے ایک طاقت ہے۔ میں نے طلبا و طالبات کو یاددلایا کہ منفی سوچ، انسان کو احساس کمتری میں دھکیل دیتی ہے۔ یہ موذی مرض اچھے بھلے باصلاحیت شخص کی قوت عمل کو مفلوج کر دیتا ہے۔ اقبال اور قائداعظم نے نوجوانوں کو یہی درس دیا تھا کہ وہ اپنے سینوں میں عزم بلند کے چراغ روشن کریں اور ستاروں پر کمندیں ڈالنے کا ہنر پیدا کریں۔ منفی سوچ نوجوانوں کے لئے زہر قاتل ہے۔ مجھے افسوس ہوا کہ سینۂ شمشیر سے باہر والے دم، یعنی اساتذہ نے بچوں کی تقاریر کو ایسے حوصلہ شکن اور زندگی بیزار مواد سے بھر دیا۔
دل کو کدورت سے بھر دینے والی دوسری بات یہ تھی کہ مزاحیہ عنوانات پر کی جانے والی بیشتر تقاریر فضول جملہ بازی، پست مواد، اخلاق باختہ حوالوں اور انتہائی بے ذوق پھکڑپن سے لتھڑی ہوئی تھیں۔ اتنی خوبصورت درس گاہ کی اتنی دل نشیں تقریب کا اسٹیج بعض مرحلوں میں تیسرے درجے کا اسٹیج شو دکھائی دیا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ کیا یہ تقاریر بھی اساتذہ نے لکھ کر دیں؟ میں نے پرنسپل صاحب اور ڈبیٹنگ سوسائٹی کی انچارج سیدہ صوفیہ رضوی سے گزارش کی کہ وہ آئندہ تقریب سے ہفتہ بھر قبل تمام شرکاء کی تقاریر کے مسودے منگوا کر ان پر ایک نظر ڈال لیا کریں۔
جھنگ میں چناب کالج جیسے ادارے کے خدوخال دیکھ کر دل شادابی سے بھر گیا۔ مرحوم محمد خان جونیجو نے وزارت عظمیٰ کے دوران اس کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ 1989ء میں نواز شریف نے وزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے اس کی منظوری دی اور عملی کام کا آغاز ہوا۔ 1991ء میں سفر شروع ہوا۔ تقریباً بار سو کنال کے وسیع و عریض رقبے پر قائم اس درس گاہ کی عمارت اسلامی اور مشرقی فن تعمیر کا گہرا نقش چھوڑتی ہے۔ اس کے بورڈ آف ٹرسٹیز میں جسٹس منظور حسین سیال، مہر جیون خان، صاحبزادہ سلطان حمید اور محمد انور ہرل جیسی شخصیات شامل ہیں۔ ڈی سی او بلحاظ عہدہ بورڈ کے چیئرمین ہیں۔ اتفاق سے موجودہ ڈی سی او اور راجہ خرم شہزاد عمر بھی سر سید کالج راولپنڈی کے سابق طالب علم نکلے۔ خرم کی جچی تلی تقریر میں مجھے اپنے کالج کی نمایاں جھلک نظر آئی۔
سیدہ صوفیہ رضوی کی پیش کردہ نظم، میرے کمرے کی میز پر سجی ہے۔ ان کا بے کراں شکریہ۔ پرنسپل زاہد خورشید لودھی اور اساتذہ کو مبارک باد پیش کرنے کو جی چاہتا ہے کہ وہ جھنگ میں ایک جہان تازہ کی نمو کررہے ہیں۔ طلبا و طالبات کو بھی شاباش کہ انہوں نے نظم و ضبط کا عمدہ نمونہ پیش کیا۔ بلاشبہ پاکستان آگے بڑھ رہا ہے اور ہماری نسل نو منزل مراد پانے کو ہے۔