ملکی معیشت بیک وقت کئی مسائل سے دوچار ہے جنہیں ایک ساتھ حل کرنا ناگزیر ہے۔معیشت کے ضمن میں ہم ہمیشہ اس کوتاہی کے مرتکب رہے ہیں کہ ہم کسی ایک چیز پر انحصار کرکے اُسے اپنی تمام تر معاشی مشکلات کا حل سمجھ لیتے ہیں جیسا کہ ماضی میں سی پیک معاہدے کو لے کر کیا گیا یا پھر آئی ایم ایف پروگرام کے حوالے سے یہ موقف اختیار کیا گیا کہ یہ پروگرام ہمارے تمام تر معاشی مسائل کا حل ثابت ہوگا۔ یہی رویہ سیاست سمیت دیگر شعبوں میں بھی روا رکھا جاتا ہے۔ اگر صرف ہمارے حکمراں ٹھیک ہو جائیں تو سارا نظام ٹھیک ہو جائے گا، اگر ملک سے کرپشن کا خاتمہ کر دیا جائے تو ملک ترقی کے راستے پر گامزن ہو جائے گا ، اگر ملک میں تعلیم اور افرادی قوت پر توجہ دی جائے تو پیسے کی ریل پیل ہو جائے گی، اگر ملک میں انصاف کا بول بالا ہو تو سب مسائل حل ہو جائیں گے، یہ وہ جملے ہیں جو سیاستدانوں سے اکثر سننے کو ملتے ہیں۔ یعنی اُن کے نزدیک کسی ایک شعبے کو ٹھیک کرنےسے سارے ملک کا نظام ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن ملک اور ملکی معیشت کی سمت درست کرنے کے لئے ان مسائل سے بیک وقت نمٹنے کی ضرورت ہے۔ ڈالر کی کمی ہمارا ایک مستقل مسئلہ ہے کیونکہ ہماری برآمدات اور درآمدات میں فرق کی وجہ سے بڑا تجارتی خسارہ موجود رہتا ہے۔دوسرا ہماری حکومتیں اپنی آمدنی سے زیادہ پیسہ خرچ کرتی ہیں۔ تیسرا ہم اپنے ہاں صنعت کو فروغ نہیں دے پائے جس کی وجہ سے پاکستان کا شمار دنیا کے غیر پیداواری ممالک میں ہوتا ہے۔ ان سب مسائل کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری حکومتوں کی توجہ بنیادی مسائل کے مستقل حل کے بجائے عوام کو وقتی ریلیف دینے پر مرکوز رہتی ہے۔
لیکن اگر دیکھا جائے تو یہ وقتی ریلیف عوام کے لئے نہیں بلکہ خود حکومت کے لئے ہوتا ہے کیونکہ اس وقتی ریلیف کے بعد عوام خاموش ہو جاتے ہیں اور حکومت پر پریشر ختم ہو جاتا ہے۔مثلاً عمران خان نے ایسے وقت میں عوام کو پٹرول پر سبسڈی دی جب عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا تھا لیکن چیئرمین تحریک انصاف نے جاتے جاتے عوام میں اپنی مقبولیت پیدا کرنے کے لئے ایسا قدم اٹھایا جس سے عوام کو وقتی ریلیف تو ملا لیکن وہ اب تک اُس غلط اقدام کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ اُن کے اُس اقدام کی وجہ سے آئی ایم ایف پروگرام معطل ہوا، پاکستان کی ساکھ متاثر ہونے کی وجہ سے اس پروگرام کی بحالی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور عالمی مالیاتی فنڈ کی ایسی ایسی شرائط ماننا پڑیں جن کی وجہ سے ملک میں بجلی،پٹرولیم مصنوعات اور ڈالر کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں۔ پھر جیسے تیسے مفتاح اسماعیل آئی ایم ایف کا پروگرام بحال کروانے میں کامیاب ہو گئے تو عوام کو وقتی ریلیف دینے کے لئے اسحاق ڈار کو بھیج دیا گیا۔ یہ ریلیف بھی عوام کے لئے نہیں تھا بلکہ مسلم لیگ (ن) اپنی گرتی ہوئی مقبولیت کو بحال کرنے کےلئے خود کو یہ ریلیف دے رہی تھی اور اب عوام اتحادی حکومت کے وقتی ریلیف کی بھی بھاری قیمت چکا رہے ہیں۔عوام کو ریلیف دینا اچھی بات ہے لیکن اس کاتعین پہلے ہی کر لینا چاہئے کہ اُنہیں اس کی کیا قیمت چکانا ہو گی۔ درد کش دوا کھلانے سے تکلیف سے وقتی ریلیف تو مل جاتاہے لیکن یہ مستقل علاج نہیں بلکہ اس سے علاج کا عمل مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ان معاشی مسائل سے نمٹنے کےلئے اشرافیہ کی قربانی بھی بہت ضروری ہے۔حکومت اپنی آمدنی سے زیادہ اخراجات کی متحمل نہیں ہوتی لہٰذا حکمرانوں کو پلاٹوں کی تقسیم، بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومنا اور مراعات کی بندر بانٹ کا سلسلہ ترک کرنا ہوگا اور اپنے اخراجات کو ملکی آمدنی کے مطابق رکھنا ہوگا۔ ان دنوں ملک میں اسمگلروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کریک ڈائون جاری ہے جس کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں، اس طرح کے سخت اقدامات نظام کا مستقل حصہ ہونے چاہئیں۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کا فروغ بھی اچھی بات ہے لیکن مقامی سرمایہ کار کی بھی حوصلہ افزائی ضروری ہے تاکہ ملک میں صنعتی پہیہ بلا تعطل چلتا رہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایک ایسا لائحہ عمل جو کاروبار اور صنعت کو فروغ دے، نظام کا مستقل حصہ ہوتا ہے۔ کسی ایک شعبے پر وقتی طور پر توجہ دینا معاشی مسائل کا حل نہیں ہے بلکہ بیک وقت ان سب مسائل پر توجہ دینا بہت ضروری ہے،حکومت جو پیسہ فضول خرچیوں میں ضائع کر دیتی ہے اسے ریاستی اداروں کی بہتری کےلئے استعمال کیا جانا چاہئے اور اس عمل کو سیاست کی نذر نہیں ہونا چاہئے مثلاً پی آئی اے جو ایک مثالی اور منافع بخش ادارہ اور ملکی اثاثہ تھا لیکن اب یہ نہ صرف روز افزوں خسارے کا شکار ہے جو کہ 686ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے بلکہ اس کے ذمہ واجب الادا رقم جو کہ 369ارب روپے ہے جو اسکے مجموعی اثاثوں سے بھی زیادہ ہے، اس لئے اب یہ ادارہ مسائل کا شکار ہے۔یہ کیسا ملکی اثاثہ ہے جو سالہا سال سے خسارے کا شکار ہے۔ آپ کوئی بھی سرمایہ کاری کریں، آخر کب تک اسے خسارے میں چلائیں گے۔ اگریہ کوئی نجی فضائی کمپنی ہوتی تو کب کی اپنے خسارے پر قابو پا چکی ہوتی یا بند ہو چکی ہوتی۔ حکومتی سر پرستی میں یہ ادارہ کبھی اپنے پائوں پر کھڑا نہیں ہو سکتالیکن چونکہ یہ عوام کے ٹیکس پر چل رہا ہے اس لئے ابھی تک بند نہیں ہوا۔ آخریہ سلسلہ کب تک چلے گا، کب تک خسارے میں چلنے والے اداروں کا بوجھ عوام کے کندھوں پر ڈالا جاتا رہے گا۔ عوام اب یہ بوجھ مزید نہیں اٹھا سکتے اس لئے حکومت کوایسے فیصلے کرنا ہوں گے جو معیشت کو مستحکم کریں نہ کہ اسے کمزور کرنے کا باعث بنیں۔
عوام مہنگائی کی جس چکی میں پس رہے ہیں اُس کے پیش نظر یہ پیسہ اُن پر لگانا زیادہ ضروری ہے لیکن اُس کے لئے وقتی ریلیف نہیں بلکہ مستقل ریلیف کو ترجیح دینا ہوگا۔ اس ضمن میں عوام کی توقعات بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس کی سیاسی قیمت ضرور چکانا پڑے گی لیکن اب سیاست بچانے کے لئے ریاست کو مستقل خسارے کی نظر نہیں کیا جا سکتا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)