’’حقیقت یہ ہے کہ جنرل مشرف نے افغانستان میں امریکہ کی مدد کے لئے جو متعدد کام کئے، اُن میں سے کوئی بھی عملاً پاکستان کے قومی مفاد میں نہیں جبکہ پشتون علاقوں میں پاکستانی فوج بھیج کر تو انہوں نے فی الحقیقت اپنے ملک کو خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے‘‘۔ امریکی سی آئی اے کے افغان امور کے ماہر مائیکل شیور کی دسمبر 2006ء میں کی گئی یہ پیشگوئی آج ایک خوفناک حقیقت بن کر ہم پر مسلط ہے۔ شمالی علاقوں میں کی گئی فوج کشی کے ردعمل نے پورے ملک میں برسوں سے خونریزی اور دہشت گردی کی آگ بھڑکا رکھی ہے۔ یہ مسئلہ حکومت اور ملک کی پوری سیاسی و عسکری قیادت کی جانب سے شمالی علاقوں کی مزاحمتی قوتوں کو امن مذاکرات کی مسلسل پیشکش کے باوجود سلجھنے کے بجائے الجھتا چلا جارہا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کی پے در پے کارروائیاں امن مذاکرات کے بجائے صورت حال کو ہولناک تصادم کی جانب لے جارہی ہیں۔ حالانکہ چند ماہ پہلے تحریک طالبان نے خود ہی قیام امن کے لئے بات چیت کی پیشکش کی تھی۔ اس پر مسلم لیگ نون کی حکومت کی جانب سے بلائی جانے والی کل جماعتی کانفرنس نے متفقہ طور پر بات چیت کے حق میں قرارداد منظور کی تھی۔ پاکستان میں طالبان سے بات چیت پر اتفاق اسی لئے ہے کیونکہ عام خیال ہے کہ ان کا رویہ ماضی کی حکومتوں کے غلط فیصلوں اور موجودہ قیادت کے حوالے سے طالبان کی کچھ غلط فہمیوں کا نتیجہ ہے جو بات چیت سے دور ہوسکتی ہیں۔ اس کل جماعتی کانفرنس میں فوج کی اعلیٰ قیادت بھی شریک تھی اور مذاکرات کے فیصلے کو اُس کی بھی مکمل تائید حاصل تھی اور ہے۔ تحریک طالبان نے بھی کل جماعتی کانفرنس کے فیصلے کا خیر مقدم کیا تھا لیکن امریکی ڈرون حملے میں تحریک کے امیر حکیم اللہ محسود کے نشانہ بنائے جانے کے بعد اس کا رویہ بالکل بدل گیا۔ طالبان کی نئی قیادت نے مذاکرات کے راستے کو مسترد کرکے پاکستان کے اندر اپنی کارروائیاں تیز کردیں لیکن طالبان کو سنجیدگی سے سوچنا چاہئے کہ کیا اس طرح بات چیت سے انکار کرکے اور پاکستان کو کمزور کرنے کی کارروائیاں جاری رکھ کر وہ ٹھیک وہی کام نہیں کررہے ہیں جو پاکستان، اسلام اور مسلمانوں کی دشمن طاقتوں کا ایجنڈا ہے۔
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ اوباما انتظامیہ پاکستان میں امن مذاکرات نہیں ہونے دینا چاہتی اور اس کا عملی مظاہرہ کئی بار ہوچکا ہے۔ سوات امن معاہدے کے فوراً بعد اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ نے اس معاہدے پر سخت برہمی ظاہر کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے اسے ختم کرنے کا پرُزور مطالبہ کیا تھا۔ بدقسمتی سے دوسری جانب مولانا صوفی محمد نے معاہدے کے بعد پاکستان کے آئین اور پورے نظام ریاست کو کافرانہ قرار دے کر خود ہی اپنے خلاف آپریشن کے حق میں راستہ ہموار کرنے کا کام شروع کردیا جبکہ معاہدے کے بعد ملک کے اندر بڑی خوشگوار فضا قائم ہوگئی تھی۔ حتیٰ کہ اے این پی اور پیپلزپارٹی کے اعلیٰ عہدیدار تک اس معاہدے کے نتیجے میں نافذ ہونے والے شرعی قانون پر مبنی ’’نظام عدل‘‘ کے حق میں یہ دلیل دے رہے تھے کہ پاکستان تو بناہی اسی مقصد کے لئے ہے۔ بہرحال یہ معاہدہ نہیں چل سکا اور سوات میں فوجی آپریشن شروع ہوگیا تاہم سابقہ حکومت کے آخری دنوں میں اور مسلم لیگ نون کی موجودہ حکومت کے قیام کے فوراً بعد مذاکرات کی بات پھر چلی اور خود طالبان نے اس پر آمادگی ظاہر کی تو ان کے نائب امیر ولی الرحمٰن کو ڈرون حملے کا نشانہ بناکر بات چیت کے ماحول کو خراب کیا گیا۔امریکی حکمرانوں کی اس حکمت عملی سے بخوبی واضح ہے کہ وہ پاکستان میں بدامنی جاری رکھنے کے لئے حکومت اور طالبان میں مذاکرات نہیں ہونے دینا چاہتے جبکہ خود افغانستان میں طالبان سے بات چیت کے لئے سارے جتن کررہے ہیں۔ اس تناظر میں ہوشمندی کا تقاضا ہے کہ اپنے دشمنوں کے عزائم کو ناکام بنانے کے لئے طالبان پاکستان کے اندر تباہ کن کارروائیاں بلاتا خیر بند کرکے معقول اور قابل عمل مطالبات کے ساتھ جلد از جلد مذاکرات کی میز پر آجائیں اوراس کے لئے جن ضمانتوں کی انہیں حقیقی ضرورت ہے اُن کی قابل اعتماد بنیادوں پر فراہمی حکومت پاکستان یقینی بنائے۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ طالبان نے اپنے دشمنوں کے عزائم کو ناکام بنانے والے اس قطعی قابل فہم راستے کو اختیار کرنے کے بجائے دہشت گرد حملے اس وقت بھی جاری رکھے جب مذاکرات کی جانب پیشرفت ہورہی تھی۔ان میں دیربالا میں فوجی قافلے اور پشاور میں چرچ پر حملہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اس طرح مذاکرات کے لئے درکار سازگار ماحول کو خراب کرنے میں امریکہ کے ساتھ ساتھ خود تحریک طالبان نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
امریکہ کی مذاکرات مخالف حکمت عملی کی وجہ تو ظاہر ہے’’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘‘ مسلمانوں کے خلاف مغربی طاقتوں کا پرانا حربہ ہے۔ اس پالیسی کے مطابق پاکستانی مسلمانوں کو باہم متصادم رکھنے کے لئے اس کی کوششیں سمجھ میں آتی ہیں۔ اسی طرح بھارت، اسرائیل اور کئی دوسرے ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں کی ہمارے اندر اختلافات کو فروغ دینے کی سازشیں بھی قابل فہم ہیں لیکن یہ سمجھنا محال ہے کہ پاکستان سے محبت کا دعویٰ رکھنے والی تحریک طالبان دہشت گرد کارروائیاں جاری رکھنے پر آخر کیوں مصر ہے جبکہ پاکستان کی پوری سیاسی اور عسکری قیادت بات چیت کے ذریعے اختلافات طے کرنے پر مسلسل زور دے رہی ہے اور مشرف دور سے اب تک کی جانے والی غلطیوں کی اصلاح پر آمادہ ہے۔اللہ نے تو کافروں تک کی صلح کی پیشکش کو مان لینے کا حکم دیا ہے۔ سورۂ انفال میں ہدایت کی گئی ہے ’’اگر دشمن صلح و سلامتی کی طرف مائل ہو تو تم بھی اس کے لئے آمادہ ہوجاؤ، اور اللہ پر بھروسہ رکھو، بے شک اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ اگر وہ دھوکے کی نیت رکھتے ہوں تو تمہارے لئے اللہ ہی کافی ہے‘‘یعنی اللہ کے نزدیک صلح و آشتی اتنی پسندیدہ چیز ہے کہ دشمن سے دھوکے کا اندیشہ ہو تب بھی اللہ کے بھروسے پر صلح کے راستے کو ترجیح دینے کو کہا گیاہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام جو امن و سلامتی کا دین ہے، حتی الامکان خونریزی کو روکنا چاہتا ہے اور کوئی دوسری صورت باقی نہ رہنے کی شکل ہی میں مسلح جنگ کی اجازت دیتا ہے۔ تحریک طالبان کو سوچنا چاہئے کہ پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کی مذاکرات کی پیشکش کو مسترد کرکے وہ قرآن کے اس صریح حکم کی خلاف ورزی کیوں کررہے ہیں اور اس طرح عملاً پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے اس ایجنڈے کا حصہ کیوں بن گئے ہیں جس پر اسلام دشمن یہود و ہنود اور صہیونی وصلیبی قوتیں عمل پیرا ہیں۔باہمی جنگ و جدل کے سبب خدانخواستہ پاکستان بھی شام یا عراق بن گیا تو عالم اسلام کے لئے باعث تقویت، مکمل اسلامی آئین رکھنے والی اس نظریاتی اسلامی مملکت کی تباہی اسلام دشمن طاقتوں کے لئے تو یقیناً باعث اطمینان ہوگی لیکن طالبان کو اس سے کیا حاصل ہوگا سوائے اس کے کہ ان کا نام بھی اسلام دشمن صہیونی اور صلیبی قوتوں کے مقاصد کی تکمیل کرنے والوں میں لکھا جائے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ تحریک طالبان ان سوالات کی روشنی میں مذاکرات سے انکار کی اپنی موجودہ حکمت عملی پر نظرثانی کرے۔
پیر بیس جنوری کے اخبارات میں شائع ہونے والی یہ خبر خوش آئند ہے کہ تحریک طالبان نے حکومت کو بامقصد مذاکرات کی ازسرنو پیشکش کردی ہے تاہم طالبان کو قابل عمل شرائط کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے۔ ڈرون حملے رکوانے کی شرط پوری کرنا بوجوہ حکومت کے بس سے باہر نظر آتا ہے لیکن طالبان اور حکومت پاکستان دونوں کی جانب سے جنگ بندی کا فیصلہ مذاکرات کے لئے فضا کو سازگار ضرور بناسکتا ہے۔