• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افراد اور قوم کے وجود اور ترقی کو جو چیز سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے وہ بیرونی دشمنوں سے زیادہ ان کے اندرونی اختلافات اور لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں جنہیں ’’خانہ جنگی‘‘ بھی کہتے ہیں۔ ذرا سوچئے جس گھر میں ماں باپ، بہن بھائی یا دوسرے اہلِ خانہ ہر وقت ایک دوسرے سے دست و گریباں ہوں وہاں کوئی مثبت کام خاک ہوگا۔ وہاں نہ تو بچوں کی اعلیٰ تعلیم و تربیت ہو سکتی ہے اور نہ ہی وہاں معاشی خوشحالی آسکتی ہے۔ اس خانہ جنگی کی بنیادی وجہ ایک دوسرے کی فیملی کے اندر حیثیت اور اختیارات کو تسلیم نہ کرنا اور ایک دوسرے کے کام میں مداخلت کرنا ہے۔

اسی طرح ریاست بھی کئی قسم کی خانہ جنگیوں کا شکار ہو سکتی ہے۔ جو سب سے زیادہ خطرناک خانہ جنگی ہے وہ ریاستی اداروں کا آپس میں تصادم اور ٹکرائو ہے۔ جو ظاہر ہے ایک دوسرے کی آئینی اور قانونی حیثیت کوتسلیم نہ کرنے کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ وہ خانہ جنگی ہے جو اگر ایک مرتبہ شروع ہوجائے تو ساری زندگی چلتی ہے۔ اس کے دوران گزرا ہوا ہر لمحہ اپنے حریف یا دشمن کے انجانے خوف اور دبائو کے تحت گزرتا ہے جس میں ایک دوسرے کے خلاف سازشیں سوچی جاتی ہیں۔

جہاں تک اختلافِ رائے کے حق کا تعلق ہے تو یہ مہذب معاشرے کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ لیکن اختلافِ رائے کے ’’حق‘‘ کے راستے میں کچھ ’’ فرائض ‘‘بھی آتے ہیں۔ اس میں بھی شرطِ اوّل ہر ایک کی انفرادی اور اجتماعی حیثیت کو تسلیم کرنا ہے جس کے تحت وہ اختلافِ رائے کا حق رکھتا ہے۔ اسی طرح اس ’’حق‘‘ کے راستے میں دوسرا ’’ فرض‘‘ اس اختلافِ رائے کو برداشت کرنا اور تیسرا خوبصورت ترین’’ فرض‘‘ اس اختلافِ رائے میں اگر کوئی اجتماعی مفادات ہوں تو اسے ’’ تسلیم ‘‘ کرلینا ہوتا ہے۔ خانہ جنگی اس وقت شروع ہوتی ہے جب اختلافِ رائے کے تمام ’’ حقوق و فرائض‘‘ تسلیم نہیں کئے جاتے اور اپنے مفاد کو قومی مفاد قرار دے دیا جاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ انہی خانہ جنگیوں نے خاندانوں ، بادشاہوں اور ملکوں کے وجود کو مٹا کر رکھ دیا ۔

پاکستان اپنے ابتدائی برسوں میں ہی اُس خطرناک ترین خانہ جنگی کا شکار ہو گیا تھاجسے اداروں کی خانہ جنگی کہتے ہیں۔ ہماری بد قسمتی کی ابتدا اس وقت ہوئی جب 1951ءمیں آرمی چیف جنرل ایوب خان کی تعیناتی عمل میں آئی۔ قیامِ پاکستان کے ابتدائی برسوں میں تقسیم کے وقت کے فسادات بدامنی اور انتشار نیز انتظامی و معاشی مجبوریوں کی وجہ سے مسائل کی انتہا تھی ۔ جسے کوئی بھی انتظامیہ خاص طور پر نا تجربہ کار سیاستدانوں اور جمہوری کلچر نہ ہونے کی بنا پر کما حقہ حل نہیں کر سکتی تھی یہ ایک فطری عمل تھا۔ لیکن جنرل ایوب نے کمانڈر انچیف بننے کے بعد سویلین اقتدار کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومتی امور میں براہِ راست دخل دینا شروع کردیا۔ جس میں سیکرٹری دفاع اسکندر مرزا ان کے دستِ راست تھے۔ اپنی آئینی مدّت مکمل ہونے کے بعد مدّتِ ملازمت میں توسیع کا سلسلہ بھی انہوں نے ہی شروع کیا تھا۔ بلکہ ایک وقت ایسا آیا کہ جنرل ایوب کمانڈر انچیف کے ساتھ ساتھ وزیرِ دفاع بھی بن گئے۔ کابینہ کا رکن ہونے کی وجہ سے وہ اپنے ادارے کے اختیارات بڑھانے کیلئے سویلین حکومت پر اثر انداز ہونے لگے۔ یہیں سے ’’ ملٹری سول خانہ جنگی‘‘ کا آغاز ہوگیا جس نے پاکستان کی بنیادیں کھوکھلی کر کے رکھ دیں۔اس ’’سول ملٹری خانہ خانہ جنگی ‘‘ کے تحت ایوب خان نے ملک میں مارشل لا لگا دیا۔ لیکن ان کے خلاف جمہوری تحریکیں برابر چلتی رہیں۔ جو 67میں ان کے اقتدار کے خاتمے کا باعث بنیں ۔ لیکن فوج نے پھر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ جمہوری تحریک کے دبائو کے تحت 71میں عام انتخابات بھی کروادیے گئے لیکن عوام کا فیصلہ تسلیم نہ کیا گیا۔ اور آدھا ملک گنوادیا گیا۔ یوں 51ء سے شروع ہونے والی ’’ سول ملٹری خانہ خانہ جنگی ‘‘نے 71میں ملک کو دو ٹکڑے کردیا۔ اور ’’ خوفناک تباہی ‘‘ کے بعد بھی کسی نے تاریخ سے سبق نہ سیکھا۔ 79ء میں ایک سویلین وزیرِ اعظم کو ایک فوجی حکمران نے پھانسی پر لٹکا کر نئے مسائل پیدا کردیے ۔ اس طرح 99ء میں ایک اور فوجی حکمران نے سویلین وزیرِ اعظم کو جلاوطن کردیا۔ اس دوران ہمیں سیاچن اور کارگل میں تکلیف دہ جنگوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ہمارے ہاں بجلی، پانی اور گیس کی قلت ہوگئی، ملک میں دہشت گردی پھیل گئی، اقتصادی حالت تباہ ہوگئی۔ ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا جانے لگا کئی اور مذہبی ، گروہی اور لسانی خانہ جنگیاں شروع ہوگئیں لیکن ’’سول ملٹری خانہ خانہ جنگی‘‘ ابھی تک ختم نہیں ہو سکی کوئی بھی دوسرے کو اس کی آئینی حیثیت دینے اور تسلیم کرنے کیلئےتیار نہیں۔ سویلین حکومت آتی ہے تو وہ ملٹری کے خوف کے دبائو میں رہتی ہے۔ جس کی وجہ سے اس کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے بلکہ کرپشن کی ایک وجہ ’’ سول ملٹری تنائو بھی ہے جس کے تحت کروڑوں روپے خرچ کر کے پارلیمنٹ میں پہنچنے والے اسی خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ نجانے ان کو کب فارغ کر دیا جائے ۔ چنانچہ وہ بھی مار دھاڑ اور لوٹ کھسوٹ میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح جب ملٹری گورنمنٹ آتی ہے تو کچھ عرصے کے بعد وہ بھی سویلین کے خوف اور دبائو کی وجہ سے کچھ ڈیلیور نہیں کر پاتے ۔ جس کی وجہ سے قوم کی حالت بد سے بدتر ہونے لگتی ہے۔

ہم چاروں طرف سے خطرات میں گھرے ہوئے ہیں کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ اس مہلک ِ ملک و قوم ’’ملٹری سول خانہ جنگی‘‘ کو روکا جائے جو ہمارے وجود کے لئے ایک چیلنج بن گئی ہے۔

تازہ ترین