درویش کو ’جناح ثانی‘ ذوالفقار علی بھٹو سے بوجوہ جتنی مغائرت ہے محترمہ بینظیر بھٹو سے اتنی ہی عقیدت، وہ ایک سلجھی ہوئی بااصول خاتون تھیں جنہوں نے جمہوریت، انسانی حقوق اور پاک و ہند دوستی کیلئے کام کیا، امریکی کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اپنے دل کی آواز بیان کی کہ وہ دنیا بھر کی تمام جمہوریتوں کو قریب آتے دیکھنا چاہتی ہیں یا انکا کلب بنوانا چاہتی ہیں جبکہ انکے والد مزاج، خیالات اور اطوار میں قطعی مختلف جاگیردارانہ ذہنیت کے آدمی تھے۔ محترمہ نے جس روز لال مسجد کے حوالے سے بیان دیا، درویش نے اخبار پڑھتے ہوئے اس خبر پر رک کر اپنے مصاحبین سے کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ دہشت گرد اب بی بی کو نہیں چھوڑیں گے۔ وہ سچی اور کھری انسان تھیں انکا ورلڈ ویو خاصا گہرا اور وسیع تھا۔ وہ اپنے ملک، اسکی سیاست اور اونچ نیچ کو بہت بہتر سمجھنے لگی تھیں لیکن اسکے باوجود وہ ملک میں مذہبی جنونیوں اور انکی تباہ کاریوں پر مبنی ذہنیت سے شاید پوری طرح آگاہی نہ رکھتی تھیں، اگر رکھتی بھی تھیں تو اپنے آدرشوں سے مجبور تھیں۔ بہرحال اُنکی اندوہناک موت کی تلخی آج بھی سینے کے اندر محسوس ہوتی ہے اور تمنارہتی ہے کہ اُنکی اولاد اور پارٹی کے بارے میں اچھی اچھی باتیں لکھی جائیں مگر افسوس انکا بیٹا ان سے قطعی مختلف ہوبہو اپنے نانا کے نقش قدم پر ہے اور شاید اپنے ناناکی آئیڈیالوجی بچانے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگا دینا چاہتا ہے۔ نانا کو تو اسٹڈی کی عادت تھی، بلاول میں شاید وہ بھی نہیں۔ اُسکی باتیں سنتے ہوئے اکثر ایک کھلنڈرے لڑکے کا گماں گزرتا ہے جو راتوں رات ترقی کرتے ہوئے وزارتِ عظمیٰ کے سنگھاسن پر براجمان ہوجائے، اس لحاظ سے یہ ایک نیا عمران خان بن سکتا ہے لیکن نوجوانوں میں پاپولیریٹی بھی خاں جتنی حاصل کر لے اس کاا مکان دکھائی نہیں دیتا۔ بلاول کے ابا اگرچہ کوشاں ہیں کہ انکا لاڈلا دنیا میں بڑا نام پیدا کرے قومی لیڈر بن کر ابھرے اور دنیا میں اسے اپنی ماں اور نانا سے زیادہ شہرت و مقبولیت ملےتاہم صلاحیتوں کا فقدان اسے اوپر اٹھنے نہیں دے رہا ۔’مال غنیمت‘ کی صورت ملی حکومت کے دوران بلاول کے ابا نے اُسے عالمی لیڈر کے طور پر لانچ کرنے کی خاطر وزیر خارجہ بنوایا لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکا ، اس پر بھی اُسے یا اسکے ساتھیوں کو احساس نہیں ہوا کہ اس میں کچھ ٹھہراؤ لائیں، مطالعہ کی طرف راغب کرتے ہوئے اسکے اندر سنجیدگی و شعور کو جڑ پکڑنے دیں۔ ابا اماں کی پارٹی کا چیئرمین بن جانا اور پارٹی ورکرزسے اپنے حق میں نعرے لگوا لینا کوئی بڑی بات نہیں، بات تب ہوتی اگر وہ پارٹی مقبولیت کا گراف اوپر لے جاتا۔ پنجاب میں پیپلزپارٹی طویل عرصہ سے جتنی مضمحل تھی آج بھی وہیں ہے، اسکے جو بھاری بھرکم ایڈووکیٹ لیڈر تھے بلاول کے بقول انہوں نے اپنی مرضی سے وہ پی ٹی آئی کو کرائے پر دے رکھے تھے اسی لئے چانڈیو صاحب کا یہ کہتے ہوئے منہ بند کردیا گیا کہ جب مجھے شکایت نہیں ہے تو آپ کو کیا پرابلم ہے۔ شاید باپ بیٹے نے گھر بیٹھے یہ سمجھ لیا تھا کہ میاں صاحب کی تو طاقتوروں سے پکی پکی کٹی ہوچکی ہے اب انکا پتہ تو صاف ہے رہ گیا کرکٹر یہ بھی 9مئی کو ریڈلائن کراس کرنے کے بعد فارغ ہوچکا ہے چنانچہ اب جنگل کے بادشاہ ہمی ہیں ۔ کھلاڑی کے یہی نعرے اب اس پینتیس سالہ نوجوان کے لبوں پر بھی مسکان لارہے تھے اسی چکر میں اس نےچیری بلاسم کا مقابلہ اس قدر کیا کہ خوشامدی دنگل میں کسی حد تک اسے مات دے ڈالی، انڈیا دشمنی کے شدید ترین بیانات تک میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اُسے یوں محسوس ہورہا تھا کہ اب اقتدار پکے ہوئے پھل کی طرح اُسکی جھولی میں گرنے کو ہے مگر لازم تو نہیں کہ آپ جو بھی خواب دیکھیں وہ اُسی طرح پورا بھی ہوجائے، بعض اوقات تعبیر الٹی بھی ہوجاتی ہے، سو ہوئی۔ جب کھلاڑی کی حماقتوں نے اس کی پارٹی کا تیا پانچہ کروایا تو باپ بیٹا اس تگ و دو میں تھے یا دعائیں مانگ رہے تھے کہ تمام بھگوڑے جو شاید اپنی ہی کھوئی ہوئی بھیڑیں محسوس ہوتی تھیں مراجعت کرتے ہوئے ’’ہے جمالو ‘‘ کیمپ میں آن پہنچیں گی غیبی اشارے بھی ایسے ہی ہونگے مگر کیا کریں یہ جو ساس صاحبہ کے بقول مارشل لا بھی نہیں لگارہا اس نے اِدھر غیبی اشارے بھیجنے کی بجائے اُدھر بھیج دیے جدھر سے اس پر برکتیں نازل ہوئی تھیں سو سارے خواب چکنا چور ہوگئے ۔ بلوچستان سے جو پیغامات وصول ہورہے تھے انہوں نے بھی اپنا رخ بدل لیا اہم ترین یا غالب ترین بھی اپنے چوزے لیکر الگ بیٹھ گیا کہ رحمتِ ایزدی جدھر بہتر سمجھے گی ادھر بھیج دے گی۔ اس پر اونچے خوابوں والا نوجوان ،سوائے لندن والے بیمار کے جسکی طرف غیبی اشارے ہورہے ہیں، کس پر غصہ نکالے۔ دل تو چاہتا ہے کہ براہِ راست غیبی طاقتوں کو چھیڑا جائے مگر کھلاڑی نے انہیں چھیڑ کر جو مزا چکھا ہے یہ سب دیکھنے کے بعدکسی کا حوصلہ نہیں پڑرہا، یہ ہے شان نزول ان تمام بیانات کا جو ان دنوں چوتھی باری کیلئے تسمے باندھنے والے کیخلاف آرہے ہیں یہ کہ میاں صاحب پاؤں پڑتے ہیں یاگلے اور یہ کہ لیول پلینگ فیلڈ کی شکایت سوائے ن کے اور کسی سے نہیں کیونکہ وہ سب کو نظر آرہی ہے کہ ایک جیسی نہیں۔ 90دن میں انتخابات کی دہائی میں مدعا یہ تھا کہ شاید اس طرح کرکٹر یا اس کے فینز رجوع فرمالیں مگر ادھر بھی دال نہیں گلی لیکن مایوسی کی کوئی بات نہیں شاید آنیوالے مہینوں میں اُدھر بات بن جائے۔ فی الحال کیلئے درویش کا مشورہ ہے کہ خورشید شاہ جیسے منجھے ہوئے حقائق آشنا بزرگ کی کھلی باتوں سے رہنمائی لے لی جائے جو ابا حضور کو کہہ رہے ہیں کہ بچہ ابھی سیاست میں کچا ہے تیز رفتاری میں مبادا کوئی بڑا حادثہ کروابیٹھے اور ہم دوبارہ واپس 80والی دہائی میں پہنچ جائیں۔