• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

میکینزی گلوبل رپورٹ نے 2025تک مصنوعی ذہانت کے بارے میں یہ پیشں گوئی کی ہے کہ 2025ء تک اس کا کاروبار 15.6کھرب ڈالر تک پہنچ جائیگا، جو اسے اعلیٰ ترین قومی ترجیح دینے کی ضرورت کو واضح کرتاہے۔ اگر پاکستان اس مارکیٹ کا ایک فیصد بھی حاصل کر سکتا ہے، تو وہ اپنی معیشت میں 156ارب ڈالرکی سالانہ برآمد کر سکے گا۔ اس پیش رفت کی روشنی میں، پاکستان نے میری نگرانی میں پاکستان کے مختلف حصوں میں مصنوعی ذہانت میں عمدہ کارکردگی کے تحقیقی مراکزکے قیام کیلئےانتہائی اہم قدم اٹھایاتھا۔ایک عمدہ کارکردگی کا مرکز ہری پور ہزارہ میں پاک آسٹرین جامعہ کے اندر قائم کیا گیا جبکہ دوسرا پاکستان کے اعلیٰ تحقیقی ادارے بین الاقوامی مرکز برائےکیمیائی و حیاتیاتی علوم، جامعہ کراچی میں قائم کیا جو کہ یونیسکو کاعمدہ کارکردگی کا ادارہ بھی ہے۔

مصنوعی ذہانت اب تدریس، سیکھنے اور تحقیقی عمل کو بڑھانے کیلئےابتدائی اسکولوں سے لے کر جامعات تک مختلف تعلیمی سطحوں پر استعمال کی جا سکتی ہے۔ تعلیم میں اس کے قابل ذکر استعمالات میں سے ایک ذاتی نوعیت کے تجربے کو آسان بنانے کی صلاحیت ہے۔موافقتی تربیتی سطح پر ڈریم باکس نامی ایک ٹول تیار کیا گیا ہے جو مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے نصاب کو طلبا کے سیکھنے کی صلاحیت کے مطابق ڈھالتاہے ۔ مثال کے طور پر، اگر ڈریم باکس ریاضی کے اسباق کیلئے استعمال ہورہاہے تو وہ ہر طالب علم کے جوابات کی بنیاد پران کی مشکل کی سطح کا تعین کرکے اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ یہ طلبا کی صلاحیت کے مطابق ہو۔ موافقتی تربیتی سطح پر دیگر پروگرام بھی استعمال ہو رہے ہیں مثال کے طور پر نیوٹن اور اسمارٹ اسپیرو۔ خان اکیڈمی نے خانمیگو تیار کیا ہے جو ذاتی نوعیت کی ٹیوشن جیسی خدمات کا حامل ہے۔ اس اکتوبر سے جامعہ ہارورڈمیں ایک تعارفی کوڈنگ کورس مصنوعی ذہانت کے استاد کے ذریعے پڑھایا جائے گا۔ کیونکہ یہ نصاب یہ اساتذہ ،انسانی اساتذہ سے کہیں زیادہ موثر انداز سے پڑھا سکتے ہیں ۔اب کوانٹیفائےنامی کمپنی ابھر کر سامنے آئی ہے جو بڑے پیمانے پر مصنوعی ذہانت پر مبنی ٹیوٹرزفراہم کرتی ہے جو متعدد سیاق و سباق اورمتفرق نصاب کو بہتر انداز سے سمجھانے میں طلبا کی مدد کرتے ہیں، کورس ورک کا جائزہ لیتے ہیں اور ساتھ ہی طلبا کی فرداً فرداً صلاحیت بڑھانےکیلئے مفید مشورے اور تجاویز بھی فراہم کرتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کی زبان سیکھنے والا طریقہ جیساکہ ڈیولینگو متعامل اور ذاتی نوعیت کی زبان میں ہدایات فراہم کر سکتی ہیں جامعہ جارجیا اسٹیٹ جیسے کچھ اداروں نے پاؤنس نامیچیٹ بوٹس کو لاگو کیا ہے جو طلبا کو کیمپس کے وسائل کو ڈھونڈھنے،ملاقات کا شیڈول بنانےاور تعلیمی معاونت کی خدمات تک رسائی میں مدد کرتے ہیں۔ اس سے طلبا کی خود انحصاری اور بروقت معلومات تک رسائی حاصل کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔

گزشتہ دو سال کے دوران، مصنوعی ذہانت کے نظاموں میں سے ایک نیا ماحولیاتی نظام سامنے آیا ہے جسے ’’جنریٹو اے آئی‘‘ کہا جاتا ہے۔اس کی یہ شکل تخلیقی فطرت کی حامل ہے، اور یہ اصل مواد تخلیق کرتی ہے، بالکل اسی طرح جیسے انسان کرتے ہیں۔ ان تخلیقات میں موسیقی سے لے کر بصری فنون تک، ادب کے خطوط لکھنے سے لے کر نئے سافٹ ویئر کوڈز بنانے تک، ایسے مواد جو ہنر مند انسانی ماہرین کی اہلیت کو پورا کرتے ہوں ، شامل ہیں ۔ مصنوعی ذہانت کی تعلیمی میدان میں تیزی سے مداخلت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ GPT-4، دسمبر 2022میں اوپن اے آئی کے ذریعے جاری کیا گیا تھا لیکن اب یہ اس قلیل عرصے میں طلباء اور محققین کیلئےدستیاب مصنوعی ذہانت کےبہت سےآلات میں سے ایک ہے، جن میں سے بہت سے OpenAI کے بنیادی نمونوں یا انتھروپک جیسے حریفوں پر مبنی ہیں۔ آج طلباء ایک چھوٹےسے جملے کو انتہائی آسانی کے ساتھ مڈجرنی کے ذریعے حقیقی خاکوں میں تبدیل کر سکتے ہیں، اور سنتھیسیا کے ذریعے فلموں میں تبدیل کر سکتے ہیں، اور گٹ ہبکو پائلٹ کے ذریعے سافٹ ویئر کوڈ میں تبدیل کر سکتے ہیں، یا یہاں تک کہ دھنوں کی ترتیب (MusicLM) کے ذریعے کر سکتے ہیں جس کا موازنہ کسی بھی تجربہ کار فنکار اور موسیقار کے معیار سے کیا جا سکتا ہے۔ بہت سے پلگ ان جی پی ٹی 4اور دوسرے آلات کی جانب سے آن لائن نمودار ہوتے ہیں جو معلومات تک رسائی فراہم کرتے ہیں۔

اساتذہ اپنے دئیے گئے کاموں میں طلباء کے امتحانی جوابات کی درجہ بندی کیلئے مصنوعی ذہانت کے آلات کا استعمال کرکے اپنا قیمتی وقت بچا سکتے ہیں۔ اسی طرح، ٹرنیٹن کا فیڈ بیک اسٹوڈیو اور گریڈاسکوپ مصنوعی ذہانت الگورتھم استعمال کر کے طلباء کے مضامین پر تفصیلی جائزہ فراہم کرتے ہیں۔ وہ نہ صرف گرامر ،ہجے بلکہ مواد کے معیار اور اصلیت کا تجزیہ بھی کر سکتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے ذریعے ورچوئل کلاس رومز کی آمد نے بہت سے اسکولوں، خاص طور پر دور دراز علاقوں میں تعلیم کی فراہمی کے طریقے میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ کلاس کرافٹ جیسے پلیٹ فارمز مصنوعی ذہانت کو مربوط کرتے ہیں تاکہ سیکھنے کا مرحلہ پرلطف بن جائے، اس طرح طالب علم کی حوصلہ افزائی اور دلچسپی میں اضافہ ہوتا ہے۔ مصنوعی ذہانت کی ورچوئل جماعتیں خودکار حاضری ، لیکچروں کاکم وقت میں سمجھانا، اور طلباء کی جذباتی حالتوں کا تجزیہ کرنے جیسے کام بھی انجام دے سکتی ہیں۔اس کی پیشں گوئی کی صلاحیتیں طلباء کی کامیابیوں کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہورہی ہیں۔جامعہ ٹیکساس مصنوعی ذہانت الگورتھم کا استعمال کرتے ہوئے طلباء کو ان کی صلاحیتوںکے مطابق درپیش تعلیمی چیلنجوں کی پیشں گوئی کرتی ہےکہ انہیں اسے جاری رکھنا چاہئے یا چھوڑ دینا چاہئے ۔ یہ معلومات انہیں طلبا کے گزشتہ تعلیمی ریکارڈ، حاضری اور مصروفیات کے محتاط تجزیے سے حاصل ہوتی ہیںجس کی بدولت اساتذہ بروقت مداخلت کرکے طلبا کو مدد فراہم کرتے ہیں۔

آئرس اے آئی مصنوعی ذہانت کا ایسا پلیٹ فارم ہے جس سے محققین مصنوعی ذہانت الگورتھم کا استعمال کرتے ہوئے،تحقیقی عنوانات یا سوالات ڈال کر اس پلیٹ فارم پر متعلقہ مقالے ، مضامین اور ان کے وسائل شناخت کر سکتے ہیں اس طرح ادبی جائزے کا عمل نمایاں طور پر تیز ہو تا ہے جو محققین کو وسیع تر ذرائع تک رسائی حاصل کرنے اور اپنی تحقیق کے معیار کو بہتربنانے میں مدد فراہم کرتا ہے جواساتذہ کی پیشہ ورانہ ترقی میں بھی حصہ ڈال رہا ہے۔(جاری ہے)

تازہ ترین