پیرس (اے ایف پی)نیچر نامی جریدے میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق یورپ کی فزکس لیب سی ای آر این نے گزشتہ روز اعلان کیا کہ پہلی بار سائنس دانوں نےہمارے چاروں نظرآنے والے مادے کے پراسرار جڑواں اینٹی میٹر ذرات کا مشاہدہ کیا ہے،جو کشش ثقل کے اثر کی وجہ سے نیچے کی طرف گر رہے ہیں۔اس تجربے کو بہت بڑا سنگ میل قرار دیا گیاہے، اگرچہ زیادہ تر طبیعیات دانوں کو اسی نتیجہ کی توقع تھی، اور اس کی پیشین گوئی آئن سٹائن نے 1915میں نظریہ اضافیت میں کی تھی۔یہ یقینی طور پر اس نظریے کو مسترد کرتا ہے کہ کشش ثقل اینٹی میٹر کو اوپر کی طرف دھکیلتی ہے، ایک ایسی دریافت جو کائنات کے بارے میں ہماری بنیادی تفہیم میں موجود غلط فہمیوں کو ختم کر دے گی۔یہ خیال کیا جاتا ہے کہ تقریباً 13.8ارب سال پہلے بگ بینگ نے ایک نظر آنے والا مادہ اور اس کے مساوی لیکن مخالف ہم منصب اینٹی میٹر مساوی مقدار میں پیدا ہوا تھا۔تاہم کائنات میں اصل میں کوئی اینٹی میٹر نہیں ہے، جس نے طبیعیات کے سب سے بڑے رازوں میں سے ایک ۔۔۔کہ تمام اینٹی میٹر کا کیا ہوا؟۔۔۔کو جنم دیا۔جنیوا میں نیا تجربہ کرنے والے CERN کے الفا اشتراک کے رکن جیفری ہینگسٹ نے کہا کہ نصف کائنات لاپتہ ہے۔طبیعیات دانوں کا خیال ہے کہ بگ بینگ کے بعد مادہ اور اینٹی میٹر ایک دوسرے سے ملے اور تقریباً مکمل طور پر ایک دوسرے کو تباہ کر دیا۔اس کے باوجود اب مادہ کائنات کا تقریباً پانچ فیصد حصہ بناتا ہے، باقی کوناقابل فہم تاریک مادّہ اور تاریک توانائی سمجھا جاتا ہے، جبکہ اینٹی میٹر غائب ہو گیا ہے۔اینٹی میٹر کے بارے میں ایک اہم سوال یہ تھا کہ کیا کشش ثقل اسے عام مادے کی طرح نیچے گرا سکتی ہے؟اگرچہ زیادہ تر طبیعیات دانوں کا خیال تھا کہ ایسا ہے، چند ایک نے برعکس قیاس کیا تھا۔ایک گرتے ہوئے سیب سے متاثر ہوکر آئزک نیوٹن نے کشش ثقل پر کام کیا،لیکن اگر وہ سیب اینٹی میٹر سے بنا ہوتا، تو کیا یہ آسمان تک پہنچ جاتا؟اینٹی میٹر پر کشش ثقل کے اثر کا مطالعہ کرنے کے لیےالفاٹیم نے ایک 25سینٹی میٹر لمبی (10انچ) بوتل بنائی جس کےدونوں سروں پر مقناطیس رکھے گئے۔