(جمال احمد جمال)
کرم پہ نازشِ افلاک کے ہے،انحصار اپنا
اُنؐ ہی کی ذات سے ہے،شہرِدل میں اعتبار اپنا
وہ جامِ کوثر و تسنیم دیتے ہیں،بدستِ خود
تصور سے ہی اُس کے ہوگیا افزوں،خمار اپنا
ہیں گردش میں ہر اک نقش قدم کے کہکشاں سارے
بڑھانے کو محض اک لمس ہے،حُسنِ وقار اپنا
صبا کاہے خرامِ ناز پہ،بے جا نہ اترانا
کہ شہرِ عشق سے لائی ہے ،نقشِ افتخار اپنا
بہاروں کے جلو میں خوشبوؤں کا سیلِ پیہم ہے
دکھانے کو نبیؐ کے شہر سے حاصل نگار اپنا
عیاں ہے حُسن جن کا،پیکرِ رشک تجلی سے
فدا ہوتا ہے دل اُس حُسن پر بے اختیار اپنا
جمال، اُن ؐ کے تصور میں بھی تابِ دید ہے پنہاں
چھپا سکتا نہیں کوئی بھی کیفِ انتظار اپنا