مولانا نعمان نعیم
رحمۃ لّلعالمین،خاتمُ النّبیین، سرورِ کونین ،فخرموجودات، حضرت محمد ﷺ کی ولادت و بعثت یعنی آپﷺ کی دنیا میں تشریف آوری اور آپﷺ کی بہ حیثیت امام الانبیاء نبوت و بعثت بلاشبہ، انسانیت پر اللہ تعالیٰ کا سب سے عظیم احسان اور انسانی تاریخ کا سب سے عظیم واقعہ ہے۔آپﷺ کی تشریف آوری اور بعثت سے قبل کی تاریخ اور اس دنیا کا جو نقشہ مورخین نے بیان کیا ہے، تاریخ کے وہ اوراق نہ تحریر کے، نہ بیان کرنے کے قابل ہیں۔ چھٹی صدی عیسوی میں انسانیت اگرچہ اپنے آپ کو ہلاک کرنے پر تُلی ہوئی تھی،لیکن ان کے خالق و مالک کو ان کی یہ حالت قبول و منظور نہیں تھی۔
ضرورت اس بات کی تھی کہ ان میں ایک ایسا فرد بھیجا جائے جو جبلّی اور فطری طور پر ان تمام خامیوں اور خرابیوں سے پاک ہو اور ان ہی کے معاشرے میں رہ کر انہیں انسانی صفات سے بھرپور زندگی کی طرف رفتہ رفتہ لے کرآئے۔ اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے جس عظیم انسان کو چُنا، وہ انسانی طبقے کا سب سے بہتر، برتر، افضل، اکمل،اشرف انسان تھا جس کا نام نامی اسم گرامی محمد بن عبداللہ ہے۔
سرور کائنات حضرت محمدﷺ نے زندگی اپنے معاشرے میں اس طرح گزاری کہ کسی قسم کی بداخلاقی، بدگوئی، بدعملی کی طرف کوئی ایک واقعہ بھی بدترین مخالف اور دشمن نقل نہیں کرسکا۔جب کہ اس وقت بداعمالیوں کا یہ حال تھا کہ پورا معاشرہ اس میں مبتلا تھا، ایک نبیﷺ کی ذات تھی کہ جوان تمام عیوب سے پاک تھی،جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایسے مضبوط کردار کا انسان ہی انسانیت کا رُخ موڑ سکتا ہے۔
چالیس سال کی عمر مبارک ہونے پر آپﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اعلان نبوت فرمایا۔اس اعلان کے موقع پر آپﷺ نے اپنی چالیس سالہ حیات مبارکہ کو قوم کے سامنے پیش فرمایا، جسے قرآن مقدس نے اپنے الفاظ میں اس طرح بیان فرمایا ہے :’’میں اس سے پہلے تم میں ایک عمر رہا ہوں۔‘‘(سورۂ یونس) یہ ارشاد گرامی آپﷺ کے مخلص ہونے اور باکردار زندگی پر دلالت کرتا ہے۔اعلان نبوت کے بعد کی اختیار کردہ زاہدانہ زندگی کا ہرہر دن اور رات اس بات کے گواہ ہیں۔
آپﷺ کی حیات مبارکہ اعلان نبوت کے بعد کی ایک ایسی زندگی ہے جو فکرمند تو نظر آتی ہے، لیکن اپنی ذات کے حوالے سے نہیں۔ اس عقدے کو اس خوب صورت انداز میں قرآن مقدس نے کھولا ہے کہ جس سے بہتر اور برتر تاقیامت کسی دانش ور کے لیے بات کرنا ناممکنات میں سے ہے۔ سورۂ توبہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرمﷺ کی درج ذیل چار صفات بیان فرمائی ہیں، جنہیں چودہ سو سال گزرنے کے بعد بھی جھٹلایا نہیں جاسکا۔نہ قیامت تک جھٹلایا جاسکے گا۔
وہ جس نے تاحیات اپنے اقوال کی حقانیت کو اپنے ہرہر لمحے کے ہر چھوٹے بڑے افعال سے ثابت فرمایا ہو کہ ’’مجھے دنیا سے کیا تعلق اور کیا لینا!میرا تعلق دنیا کے ساتھ ایسا ہے، جیسا کہ کوئی سوار مسافر کچھ دیر سایہ لینے کے لیے کسی درخت کے نیچے ٹھہرا، اور پھر اسے اپنی جگہ چھوڑ کر منزل کی طرف چل دیا۔‘‘(مشکوٰۃ )’’دنیا میں ایسے رہو، جیسے کہ تم پردیسی ہو، بلکہ راستہ چلتے مسافر۔‘‘(مشکوٰۃ )
وہ جو انسانی طبقات کے سب سے اونچے، اکمل ترین طبقے سے صرف تعلق ہی نہیں رکھتا، ان کا امام بھی ہو جن کا اپنے اپنے زمانوں میں اپنی ذات کے حوالے سے بلندترین نعرہ ہی یہ ہوکہ’’اور میں اس کام کا تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا۔‘‘(سورۂ شعراء) وہ کب اس طرف مرغوبانہ توجہ کرسکتا ہے؟آپﷺ کو آپﷺ کے رب کی جانب سے یہ کہا گیا کہ اگر آپﷺ چاہیں تو مکے کی پہاڑیوں کو سونے کا بنا دیا جائے، وہ آپﷺ کے ساتھ ساتھ چلتی رہیں اور جہاں اور جیسے آپﷺ چاہیں خرچ فرماتے رہیں۔ اس پیشکش کو قبول کرلینے یا رَد کردینے کے بجائے بصداحترام مؤدبانہ طور پر اس کے جواب میں عرض کیا کہ اے میرے رب، میں تو یہ چاہتا ہوں کہ ایک دن مجھے کھانے کی نعمتیں ملیں، تاکہ میں شکر گزاری کروں ایک دن فاقے سے رہوں کہ تیری جناب میں آہ و زاری پیش کرسکوں۔(مشکوٰۃ 442)
وہ جو اپنے لیے اپنے اللہ سے یہ مانگتا رہتا ہو۔ ’’اے اللہ! تو مجھے مسکین زندہ رکھ اور مسکینی کی حالت میں موت دے اور مجھے حشر میں مسکینوں کے ساتھ اُٹھا۔‘‘ (مشکوٰۃ 447) وہ جس کے پاس اس کے جاں نثار صحابہؓ بھوک کی حالت میں آکر اپنے پیٹ پر بندھا ہوا ایک پتھر دکھائیں تو وہ اپنے پیٹ سے کپڑا ہٹا کر بندھے دو پتھر دکھائے۔وہ جس کے گھر میں اسلامی حکومت کا سربراہ ہوتے ہوئے دو دو تین تین ماہ چولہا نہ جل پاتا ہو۔(بخاری ومسلم) اور وہ جاں نثار صحابہؓ پر اپنی ذات کے لیے خانگی اخراجات کے لیے کوئی ٹیکس نہ لگائے وہ غیروں کی پیشکش کو پرکاہ کے برابر بھی اہمیت دینے کے لیے کبھی تیار ہوسکتا تھا؟
وہ جس نے اپنے اہل کے لیے دعا مانگی ہو ۔(مشکوٰۃ 440) ’’اے اللہ! آل محمدﷺ کو بقدر کفایت رزق عطا فرما۔‘‘ (بخاری) وہ جسے اس کے رب نے نماز کی اہمیت بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا ہو :’’اپنے گھر والوں کو نماز کی تاکید کیجیے او رخود بھی اس کا اہتمام رکھیے! ہم آپ سے روزی کموانا نہیں چاہتے، روزی تو آپ کو ہم دیتے ہیں (دیتے رہیں گے) آخری انجام تو پرہیزگاری ہی کا ہے۔‘‘ (سورۂ طٰہٰ 132) وہ جس سے ایمان و اعمال صالحہ کی بنیاد پر زمین پر خلافت کا وعدہ کیا گیا ہو:’’تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کیے ہیں اللہ تعالیٰ وعدہ فرماچکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا۔‘‘(سورۂ نور55)
اس کی نظر میں مخلوق کی طرف سے دی گئی سرداری کی کیا حیثیت ہوگی جب کہ وہ بھی مشن، دعوت اور تبلیغ سے دست برداری کے بدلے ہو؟وہ جس کی انگلی کے اشارے پر چاند دو ٹکڑے ہوجائے،جس کی آرزو پر بارش برسنے لگے،جس کے ہاتھ کے اشارے پر بادل چھٹ جائیں، جس کے منہ کے لعاب سے سانپ کا زہر کافور ہوجائے، آنکھوں کی بیماریاں دور ہوجائیں، ٹوٹی ہوئی ٹانگ درست ہوجائے،جو دیگر جان داروں (حیوانات،جنات وغیرہ) کی بولیاں سمجھتا ہو، جس کے حکم سے دشمن کی مٹھی میں بند کنکریاں اس کی رسالت کی گواہی دینے لگ جائیں، چھوٹے سے برتن میں ذرا سے پانی میں انگلیاں ڈبونے سے پانی ٹھاٹھیں مارتی نہر کا روپ دھار لے اور پورے قافلے کے تمام برتن پانی سے لبریز ہوجائیں،جن کی توجہ سے آگ پر رکھی تھوڑے سے سالن کی ہانڈی کھولتی بھی رہے، افراد شکم سیر بھی ہوتے رہیں اور سالن بھی کم نہ ہو۔
جس کی برکت سے ایک گلاس دودھ تقریباً ستّراصحاب صفہؓ کو باری باری ایک ہی مجلس میں مکمل سیراب بھی کردے، پھر بھی بچ رہے۔ ایسے صاحب معجزات کو ایسی پیشکشیں کیا متاثر کرسکتی ہیں؟ان سب پیشکشوں اور مختلف مواقع پر آپﷺ سے ہونے والے مکالمات کا ایک ہی جواب تھا جوکہ دیا گیا ’’خدا کی قسم! اگر وہ میرے سیدھے ہاتھ میں سورج اور اُلٹے ہاتھ میں چاند رکھ دیں اور یہ چاہیں کہ میں اس کام کو چھوڑ دوں، تب بھی میں اس سے باز نہ آؤں گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس (اسلام) کو غالب فرما دے یا میں اس راستے میں شہید ہوجاؤں۔‘‘(سیرت ابن ہشام )
آپ ﷺ کی دعوت و تبلیغ اور پیغمبرانہ مشن کی تکمیل کے تاریخ ساز موقع پر آخرایک وقت وہ آیا کہ سرورِ کونین حضرت محمدﷺ کی نبوت ورسالت کا ماہِ تمام مشرق و مغرب کومنور کرگیا،اسلام کی سربلندی اور دینِ مبین کی عالمگیر ترویج و اشاعت کے مواقع میسر آئے۔ اسلام کو غلبہ اور سربلندی نصیب ہوئی جو رسالتِ محمدیؐ کا اعجاز اور امام الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی نبوت و رسالت کا کرشمہ ہے۔