انڈیا اور کینیڈا کی حالیہ تلخی کو سمجھنے کیلئے ایک طائرانہ نظر خالصتانی تحریک پر ڈال لینی چاہیے جو تحریک پاکستان جتنی ہی پرانی ہے بلکہ اس سے بھی پہلے سکھ گرو مغلوں کے خلاف اکثر اٹھتے یا ان سے الجھتے اور اذیتیں سہتے رہے ۔ 1940 میں جب محمدعلی جناح نے قرارداد لاہور منظور کروائی تو اس کے فوری بعد لاہور ہی میں ایک سکھ رہنما ڈاکٹر ویر سنگھ بھٹی نے خالصتان کے نام سے پمفلٹ تحریر کیا ،یہ تو ماسٹر تارا سنگھ کی سیاسی سوجھ بوجھ تھی کہ انہوں نے بدلتے تقاضوں میں پنجاب اسمبلی کے سامنے کرپان لہراتے ہوئے کہا کہ ہم دیس کا بٹوارہ نہیں ہونے دیں گے۔دراصل پنڈی میں ماسٹر تارا سنگھ کی ماں کو جس بے دردی سے گھر کو آگ لگاتے ہوئے فسادیوں نے زندہ جلا ڈالا تھا شاید یہ اسی کا اثر تھا کہ جب محمد علی جناح نے انہیں کورے یا خالی کاغذ پر دستخط کرتے ہوئے یہ یقین دہانی کروانی چاہی کہ جو شرائط آپ لوگ مناسب سمجھتے ہیں وہ لکھ لیں تو انہوں نے اعتماد و اعتبار نہ کیا شاید یہ سمجھتے ہوئے کہ کل کو یہ تمام سبز باغ سراب ثابت ہوں گے یا یہ کہ مغلیہ دور حکمرانی میں ان کے گرو صاحبان کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا سکھ کمیونٹی وہ کبھی نہ بھول پائی۔ 47 کےپارٹیشن کے بعد سکھ مسلم فسادات میں کون ظلم ڈھانے میں پیش پیش رہا ، اس حوالے سے تحقیقی جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ البتہ آپریشن بلیو اسٹار کو ہندوئوں کے حوالے سے ضرور پیش کیا جا سکتا ہے لیکن یہ پہلو بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کو بنیادی طور پر پالا پوسا بھی تو اکالی دل کے بالمقابل خود کانگریسی قیادت یعنی گیانی ذیل سنگھ اور اندرا گاندھی نے ہی تھا بالکل اسی طرح جیسے کہ پاکستان نے طالبان کو پالا اور وہ اُسی کوپڑ گئے آپریشن بلیو سٹار میں ہلاکتیں 493 ہوئی تھیں یا اس سے زیادہ جیسے کہ خالصتانیوں کا دعویٰ ہے کہ 3 ہزار ، اس میں کس کی کیا کوتاہی تھی؟ اس کا جائزہ لیا جا سکتا ہے اور کیا خون خرابے کے بغیر سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ سے مکتی حاصل نہیں کی جا سکتی تھی ؟ جو بھی ہوا مناسب حکمت عملی اختیار نہ کی گئی جس کے کارن آپریشن کرنے والوں کا بھی اچھا خاصا جانی نقصان ہوا اور پھر اپنے باڈی گارڈز کے ہاتھوں جس طرح اندرا گاندھی کو مارا گیا اور رد عمل میں چار ہزار یا آٹھ ہزار سکھوں کی جانیں گئیں یہ سب افسوسناک واقعات ہیں اور شاید موجودہ منافرتوں میں ان غلطیوں یا کوتاہیوں کا بھی کردارہے ۔کئی سانحات منافرتوں میں ڈھل کر نسلوں تک جاتے ہیں سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالا ایک طرف تو یہ کہہ رہے تھے کہ اگر دربار صاحب پر حملہ ہوا تو وہ خالصتان کی بنیاد رکھ دیں گے دوسری طرف انہوں نے مذہب کا سیاسی استعمال کرتے ہوئے گولڈن ٹیمپل کا سہارا لے کر ریاست کے اندر ریاست قائم کر رکھی تھی جس کا لازمی وبدیہی نتیجہ آپریشن کی صورت میں ہی نکلنا تھا۔موصوف جس طرح کے اقدامات کر رہے تھے ،ان کو بھارتی پنجابی فلم دھرم یدھ میں بھی فلمایا گیا ہے ، کیا کوئی خالصتانی بھائی آج بھی انہیں جسٹی فائی کرسکتا ہے؟ اس سے پہلے اکالی دل کے سمرن جیت سنگھ مان اور خالصہ دل کا رول بھی ملاحظہ کیاجاسکتا ہے چرن سنگھ پنجی اور ڈاکٹر جگجیت سنگھ چوہان نے بھی ستر اور اسی کی دہائیوں میں اودھم مچارکھا تھا۔ اس طرح ایک ہوتے تھے سردار گنگا سنگھ ڈھلوں ان سے تو ایک مرتبہ درویش کی ملاقات بھی ہوئی تھی جو اکثر پاکستان کے دورے پر آتے رہتے تھے اور اپنے آپ کو جگجیت سنگھ چوہان کی طرح خالصتان کا خیالی لیڈر خیال کرتے تھے۔ انہی منافرت بھرے نعروں میں 1981 سےلیکر 1993ء تک 21470انسان اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور یہ بھی خالصتانی تحریک کا ہی نتیجہ تھا کہ 23 جون 1985ء کو کینیڈا کے شہر مونٹریال سے ممبئی کیلئے ایئر انڈیا کی فلائٹ کو ٹائم بم کے ذریعے آئرلینڈ کی فضا میں اڑا دیا گیا تھا جس میں 329 بے گناہ مسافر اپنی زندگیاں گنوا بیٹھے تھے۔ ایم سنگھ اور ایل سنگھ کے حوالے سے تمام کوائف سامنے آ گئےتھے ۔سچ تو یہ ہے کہ سکھ بھائیوں کے اندر خالصتانی جوت جگانے میں کچھ کردارہم پاکستانیوں کا بھی رہا ،بطور صحافی بھی اور سرکاری ملازم بھی درویش نے اپنے پورے کیریئر میں اس بات کو اچھی طرح ملاحظہ کیا ۔ یہ 2011 کی بات ہے کچھ مدت کیلئےدرویش کی ڈیوٹی یا تعیناتی ننکانہ صاحب میں ہوئی اس دوران عید بھی تھی اور بابا گرو نانک دیو جی مہاراج کے جنم کی مناسبت سے جو سالانہ میلہ لگتا ہے وہ بھی آگیا سرکاری طور پر کچھ خصوصی ذمہ داریاں بھی درویش کو سونپی گئیں ،یاتریوں کا استقبال کرنا ان کی سہولت کاری کے معاملات وغیرہ، انڈیا سے تشریف لائے ہوئے سکھ تو پھر بھی ذرا نرم رویہ اپناتے لیکن بیرونی ممالک بالخصوص کینیڈا سے آئے ہوئے سکھ گویا خصوصی حیثیت کے حامل ہوتے ان سے تبادلہ خیال کے مواقع بھی ملے اور بعد ازاں ایک مرتبہ آصف ہاشمی کے ساتھ اور ایک مرتبہ مقامی سکھ گرنتھیوں کے ہمراہ گردوارہ جنم استھان میں دو دفعہ تقریر کرنے کے مواقع بھی میسر آئے اور جی بھر کر باتیں بھی ہوئی سکھ دوستوں کی طرف سے تلوار اور سروپے کے تحائف بھی ملے ،سب سے اہم بات یہ ہے کہ کینیڈا والے سکھ یہ سمجھتے تھے کہ شاید ہم سارے پاکستانی خالصتانی تحریک کےحامی ہیں جبکہ درویش کو اس بات پر ہمیشہ حیرانی رہی۔ (جاری ہے)