• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

سوال:۔ میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ غیر قوموں کے ساتھ تشبہ منع ہے، تو پھر یہ ہر چیز میں منع ہوگی، مجھے تعجب یہ ہے کہ ہم غیر قوموں کی ایجادات سے تو فائدہ اٹھاتے ہیں، ان کے جدید آلات استعمال کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ غیر قوموں کے ساتھ تشبہ منع ہے۔

جواب :۔ مسلمانوں کے لیے غیر قوموں کی ایجادات سے فائدہ اٹھانا اور ان کے بنائے ہوئے جدید آلات استعمال کرنا جائز ہے، یہ اس تشبہ میں داخل نہیں ،جس سے نبی کریم ﷺ نے منع فرمایا ہے، بلکہ اسے دوسرے انسان کی بنائی ہوئی چیز سے فائدہ اٹھانا اور اپنی دنیوی ضرورت کو پورا کرنا کہا جاتا ہے، تشبہ اور دنیوی ضرورت کو پورا کرنے میں فرق ہے، کیوں کہ ملا علی قاری رحمہ اللہ مرقاۃ الفاتیح میں لکھتے ہیں کہ حدیث مبارک’’من تشبه بقوم فهو منهم‘‘ میں تشبہ سے لباس، پوشاک اور وضع قطع میں مشابہت مراد ہے، علامہ طیبی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس حدیث سے غیر مسلموں کے مذہبی شعار میں مشابہت اختیار کرنا مراد ہے، اور یہ منع ہے، جب کہ دنیا میں پیش آمدہ ضروریات کو پورا کرنے کے لیے غیر قوموں نے مسلمانوں اور مسلمانوں نے غیر قوموں کی ایجادات اور جدید آلات سے فائدہ اٹھایا ہے اور اٹھا رہے ہیں، اسے کوئی بھی دوسرے کی مشابہت اختیار کرنا اور تشبہ سے تعبیر نہیں کرتا، بلکہ اسے استعمال کرنا یا فائدہ اٹھانا کہتے ہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں: مجموعہ رسائل حکیم الاسلام، اسلامی تہذیب و تمدن : ۵/ ۱۲۸-۱۳۳، التنبہ علی ما فی التشبہ للکاندھلوی، ص: ۸ -۱۲ ، فیض الباری: ۲/ ۱۵، انوار الباری: ۱۱/ ۱۰۵، ۱۰۶)