مولانا ڈاکٹر محمد عبدالحلیم چشتی
انسان کی روحانی زندگی کی بقا واصلاح کے لیے دو چیزوں کی اصلاح نہایت ضروری ہے:1-صحتِ عقیدہ 2- صحتِ عمل۔ انسان ان دونوں چیزوں کی اصلاح میں درماندہ وعاجز ہے، کیونکہ بُرے کاموں سے بچنا اور نیک کام کرنا اللہ تعالیٰ کی نصرت وہدایت کے بغیر نہیں ہوسکتا، اس لیے شریعت نے تعوُّذ اور بسم اللہ کی تعلیم دی ہے اور ہمہ وقت اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم رکھنے کے لیے ادعیہ واذکار کا ایک مستقل نظام قائم کیا، جو روحانی ترقی کا نہایت مؤثر اور اہم ذریعہ ہے۔ اسلامی عبادات کا مرکزو محور ’’ذکر اللہ‘‘ ہے، اسلام کے ارکانِ خمسہ میں سے اہم رکن نماز ہے، قرآن نے اس کی غرض و غایت ان الفاظ میں بیان کی ہے : یعنی ’’میری یاد کے لیے نماز پڑھا کرو۔‘‘ (سورۂ طٰہٰ:۱۴)
اقامتِ صلوٰۃ کا مقصد یادِ الٰہی کو دل میں تازہ رکھنا ہے۔ اسی طرح اسلام کا اہم رکن حج ہے، اُس کا آغاز ہی تکبیر و تہلیل اور تسبیح و تحمید سے ہوتا ہے۔ طواف و عمرہ اذکار و ادعیہ پرمشتمل ہیں۔ حج کا اہم رکن قیامِ عرفات ہے،اس میں سارازور اذکاروادعیہ پردیا گیا ہے، اس کے لیے میدانِ عرفات میں نماز میں تقدُّم و تاخُّر کیا گیا ہے، جس سے اسلام میں اس کی اہمیت ظاہر و باہر ہے۔
قرآن کریم نے انبیاء علیہم السلام کی دعاؤں کے الفاظ کو نقل کیا، اُن کے دعا مانگنے کے اسلوب اور طور طریقے کو بیان کیا، دعاکے آداب کی طرف رہنمائی کی، نیز اس حقیقت کا انکشاف کیا کہ دعا بنی نوعِ انسان کا ایک فطری عمل ہے جو آڑے وقت اور مشکلات میں پوری طرح جلوہ گر ہوتا ہے۔ شریعت چاہتی ہے کہ یہ فطری عمل عیش وطیش، رنج وراحت، سودوزیاں، خوشی وناخوشی، نرمی وگرمی، تنگدستی وخوشحالی، عزّت وذلّت ہرحال میں جاری رہنا چاہیے۔
دعا اپنے خالق ومالک سے براہِ راست تعلق وقرب کا نہایت کامیاب اور سب سے زیادہ زوداثر اور نہایت مجرب عمل ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں دعا مانگنے کا حکم دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ ستودہ صفات جو مسلمانوں کے لیے نمونۂ عمل ہے اور اس حقیقت کی آئینہ دار ہے کہ ’’دعا‘‘ آپ ﷺ کی زندگی کا نہایت روشن باب ہے۔ آپ ﷺ کی ادعیۂ ماثورہ اصحابِ فکر ونظر واربابِ صدق وصفا کا نظری وعملی دونوں اعتبار سے نہایت پسندیدہ موضوع رہی ہیں۔
مفسّرین، محدثین، فقہاء ومتکلمین ، صوفیاء واُدباء، ائمۂ لغت، مؤرخین اور سیرت نگاروں نے اس موضوع سے اعتنا ءکیا، چنانچہ کسی نے رسالت مآب ﷺ کی دعاؤں کو اپنی سندوں سے جمع کیا۔ کسی نے ان کے مطالب ومعانی کی وضاحت کی اور موقع ومحل کو بیان کیا۔ کسی نے توبہ واستغفار پرکلامی نقطۂ نظر سے بحث کی۔ کسی نے مشکل الفاظ کی لغوی تحقیق کی۔ کسی نے ان کی نحوی ترکیب سے اعتنا ءکیا۔
کسی نے اس امر پر روشنی ڈالی کہ حضور اکرم ﷺ نے نماز میں کیا کیا دعائیں مانگیں، حج میں کس موقع پر کن الفاظ میں اللہ کے حضور التجاکی، نمازِ جنازہ وتشہد وتہجد میں کیا کیا دعائیں رسولِ خدا ﷺ سے منقول ہیں، جنگ و غزوات میں کس موقع پر کن الفاظ میں اپنے رب کویادکیا، خوشی کے موقع پر اپنے رب کو کن الفاظ میں پکارا اور مصیبت میں کن الفاظ سے اِلتجا کی۔ صوفیاء نے اپنے تجربات والہامات سے ان دعاؤں کو اَحزاب واَوراد میں تقسیم کیا، جو اَحزاب واَوراد کے نام سے معروف ومشہور ہیں۔ بعض نے ان کے خواص واثرات کوموضوعِ بحث بنایا، اور اس موضوع پر کتابیں تالیف کیں۔ کسی نے دعا کی حقیقت کوبتایا اور اس کی قبولیت کی شرائط پر روشنی ڈالی۔ اس طرح دعا کے گوناگوں پہلو زیرِ بحث آتے رہے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں ادعیہ واذکار کے نظام کو نہایت بلند مقام حاصل ہے۔ کتبِ حدیث میں رسول اللہ ﷺ سے جن الفاظ سے دعائیں اوراذکار حدیث کی کتابوں میں منقول ہیں، وہ سب الہامی اور توقیفی ہیں۔ ان الفاظ سے مانگنا اجروثواب کاموجِب اور بارگاہِ الٰہی میں سب سے زیادہ محبوب ومقبول ہے۔ علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’تدریب الراوي‘‘ میں تصریح کی ہے کہ دعائیں توقیفی(الہامی) ہیں: ’’ألفاظ الأذکار توقیفیۃ۔‘‘ (ص:۴۰۶) ترجمہ: ’’اذکار اور دعاؤں کے الفاظ الہامی ہیں (یعنی اُنہی الفاظ میں اُنہیں پڑھنا چاہیے)۔‘‘
اس دور میں جہاں ہر طرف سامانِ عیش وطرب کی فراوانی ہے ،خوش دلی و خوش حالی کا سامان بکثرت موجود اور بآسانی دستیاب ہے ، زندگی کے ہر میدان میں ترقی کی راہیں کشادہ ہیں، پھر بھی دنیا میں ہر جگہ معاشرہ گھٹن کا شکار ہے، اور اطمینانِ قلب کی دولت کا کہیں سراغ نہیں، اس کے حصول کے لیے اجتماعی اور انفرادی جو بھی کوشش ممکن ہے برابرجاری ہے، لیکن تمام کوششیں رائیگاں جاتی ہیں۔
اس کی بنیادی وجہ اسلام کے نظامِ اذکار و ادعیہ سے بے رغبتی،غفلت اور دوری ہے۔ دنیا میں غفلت و دوری کا یہ پردہ ہی وہ پردہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرماںبر داری اور یادِ الٰہی سے دور رکھتا ہے، دینِ حق قبول کرنے، دعوتِ حق کو سننے سے مانع ہے ،اور آخرت میں انسان کو جہنم کا ایندھن بناتا ہے ۔ قرآن کہتا ہے :ترجمہ: ’’جن کی آنکھوں پر(دُنیا میں) میر ے ذکر کی طرف سے پردہ پڑ ا ہوا تھا، اور جو سُننے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔‘‘ (سورۃ الکہف:۱۰۱)
معلوم ہوا کہ اللہ کی یاد ہی وہ بنیاد ہے جس سے بندے کا رشتہ اللہ سے جڑتا اور قائم رہتا ہے ، قرآن کہتا ہے :ترجمہ: ’’یہ وہ لو گ ہیں جو ایمان لائے ہیں، اورجِن کے دِل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں، یاد رکھو کہ صرف اللہ کا ذکرہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔‘‘ (سورۃالرعد: ۲۸)
ذکرالٰہی کے بھی درجات ہیں، جس درجے کا ذکر ہوتا ہے، اُسی درجے کا اطمینان ہوتا ہے، ذ کر کی خاصیت ہی اطمینانِ قلبی ہے۔ جو ذکر اللہ سے جُڑتا اور استوار ہوتا ہے، اُس کا ہر لمحہ عبادت میں گزرتا اور وہ ہر حال میں خوش رہتا ہے۔ یہ اسلام کا ایسا نظریۂ حیات ہے، جس کی مثال عالم کے مذاہب میں ملنی مشکل ہے۔ اس نظام کی یہی سب سے بڑی خوبی ہے کہ بندے کی زبان ہمہ وقت ذکر اللہ سے تر رہتی، دل اللہ کی یاد سے آباد اور قناعت و غنا کی دولت سے ہمیشہ سرشار رہتا ہے۔
سخت سے سخت گھڑی اور کٹھن سے کٹھن منزل پر جزع و فزع، گھبراہٹ اور بےچینی نہیں ہوتی، اس کا سکون و اطمینان برقرار رہتا ہے، اس لیے کہ اس کا دل اور زبان یادِ الٰہی سے معمور ہے۔ اذکار و ادعیہ کا اسلامی نظام اس نوع کی زندگی بناتا اور سنوارتا ہے کہ ہر لمحہ اور ہر آن عبادت میں گزرتا اور وہ اطمینانِ قلب کی لذت سے لطف اندوز ہوتا رہتا ہے۔
یہاں یہ نکتہ بھی ملحوظِ خاطر رہنا چاہیے کہ یہ دنیا عالمِ اسباب ہے، یہاں ہر کام کسی وجہ سے ہوتا ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہرکام سلسلۂ اسباب کی ایک کڑی ہے، ہر ایک واقعہ کا کوئی نہ کوئی سبب ہے، اِس کا انکار گویا قانونِ فطرت کا انکار ہے۔ البتہ اسباب کی پابندی سے کامیابی کا یقین نہیں ہوتا۔ اسباب بذاتہ اگر مؤثر ہوتے تو مطلوبہ نتیجہ ضرور حاصل ہوتا، ایسے ہی موقع پر انسان اپنے آپ کو عاجز پاکر مسبب الاسباب کی طرف لوٹتا اور اُسے پکارتا ہے، اور وہ اس کی مراد کوپورا کرتا ہے۔ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ کائنات کا سارا نظام اللہ کے علم وارادہ اور قدرت وحکمت کے ماتحت چل رہا ہے۔
دُعا ایک تدبیر وسبب ہے، اور سنت اللہ اس طرح جاری ہے کہ اسباب کے بغیر مطلوب حاصل نہیں ہوتا، گو اس کی قدرتِ کاملہ سے کچھ بعید نہیں کہ کبھی وہ سبب کے بغیر بھی مراد بَرلاتا ہے، مگر ایسا بھی اس کی حکمت ومصلحت سے ہوتا ہے۔ سلسلۂ سبب ومسبب کانام حکمت ہے۔
اُمّتِ مسلمہ کا مذہب یہ ہے کہ ’’دُعا‘‘، ’’توکل‘‘ اور ’’عملِ صالح‘‘ دنیا وآخرت کے مقاصد کے حاصل کرنے میں ایک سبب کی حیثیت رکھتے ہیں اور معاصی سے بچنے کا ذریعہ ہیں۔ جو حکم کسی سبب سے وابستہ ہوتاہے، اس کے پورا ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی شرائط کوپورا کیا جائے، اور موانع اور رکاوٹوں کو دور کیا جائے، پھر مسبَب پایا جائے گا، ورنہ نہیں۔
اسلام میں ادعیہ واذکار کا نظامِ عبادت دوسری اسلامی عبادات کی طرح مخصوص شرائط، اوقات ومقامات کے ساتھ وابستہ اور خاص نہیں ہے، جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ او رجہاد وغیرہ میں وقت، مقام، ہیئت اور شرائط ضروری قرار دی گئی ہیں، اس طرح کی شرائط اذکار اوردعاؤں کے نظام میں لازمی اورضروری نہیں۔ ابن ابی حاتم،ؒ ابن المنذرؒ اور ابن جریرؒ نے بواسطۂ علی بن ابی طلحہ الہاشمیؒ ترجمان القرآن حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیاہے، وہ فرماتے ہیں: ترجمہ :’’ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر کوئی عبادت فرض نہیں کی، مگر اس کے لیے حد مقررومتعیّن کی ہے (یہ مقررہ حد‘ وقت، مقام، ہیئت وشرائط سے عبارت ہے)، پھر حالتِ عُذر میں انہیں مہلت دی ہے، سوائے ذکر ودعا کے کہ اللہ تعالیٰ نے ذکرودعا کے لیے کوئی حدمقرر نہیں کی جس پر وہ ختم ہوتی ہو، اور اُسے چھوڑ دینے میں کسی کو معذور قرار نہیں دیا، مگر اسے جواپنی عقل وفہم ہی کھو بیٹھے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے: ’ کھڑے، بیٹھے اور لیٹے اللہ کو یاد کرو۔ رات میں، دن میں، خشکی میں، سمندر میں، سفرمیں، وطن میں، تنگدستی میں، تونگری میں، تندرستی میں، بیماری میں، چُھپے اور کُھلے، ہرحال میں اللہ کاذکر کرو، اس سے دُعا مانگو۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں دوقسم کی عبادات ہیں: ایک وہ عبادات ہیں جو خاص وقت، خاص مقام، خاص ہیئت اور خاص شرائط کے ساتھ اداکی جاتی ہیں۔ دوسری وہ عبادات ہیں جن میں اس نوع کی کوئی شرط وقیدنہیں، یہ اذکاراوردعائیں وہ ہیں جن کا نفع عام وتام ہے۔ (جاری ہے)