• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صوفی تاج گوپانگ ہمارے ملک کے درویش صفت دانشورہیں۔میں ان کی دانشمندی اوردانشوری کا بہت بڑا معترف ہوں ۔ ان کا شمار پاکستان کی ان معدودے چندشخصیات میں کیا جا سکتا ہے ، جن کا مطالعہ بہت وسیع ہے ۔ ویسے تو ان کی شخصیت کی بے شمار خوبیاں ہیں مگر میں ان کی ایک خوبی سے بہت زیادہ متاثر ہوں ۔ انہیں بات کرنے کا سلیقہ ہے ۔ وہ انتہائی تلخ حقائق اس طرح بیان کرتے ہیں کہ لوگوں کو تلخی محسوس نہیں ہوتی ۔ وہ ایسی بات کہہ سکتے ہیں ، جو کوئی دوسرا نہیں کہہ سکتا ۔ گذشتہ دنوں انہوں نے ایس ایم ایس کے ذریعے ایک شعر بھیجا کہ
ان کہی کی الگ اذیت ہے
اور کہی کا عذاب مت پوچھو
یہ شعر پڑھ کر میں نے محسوس کیا کہ صوفی تاج گوپانگ بھی کبھی کبھی بے بسی کی اس کیفیت سے دوچار ہوئے ہوں گے ، جس کا اظہار اس شعر میں کیا گیا ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انہیں یہ شعر پسند آیا ہو گا ۔ آج کے کالم کے موضوع کا انتخاب کرکے میں بھی کچھ اسی طرح کی کیفیت میں مبتلا ہوں ۔ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی آج کا موضوع ہے ۔ اس حوالے سے بہت سی باتیں ’’ ان کہی ‘‘ ہیں اور وہ کہی بھی نہیں جا سکتی ہیں لیکن بقول شخصے
ہم دُہری اذیت کے گرفتار مسافر
پاؤں بھی شل ، شوق سفر بھی نہیں جاتا
ابھی ٹی وی چینل پر یہ منظر براہ راست دکھایا جا رہا تھا کہ مستونگ میں دہشت گردی کا شکار ہونے والے مظلوم افراد کی میتیں رکھی ہوئی ہیں اور ان کے غم زدہ لواحقین سخت سردی میں میتوں کے ساتھ احتجاجاً دھرنا دے کر بیٹھے ہوئے ہیں ۔ ٹی وی چینل کا رپورٹر براہ راست بتا رہا ہے کہ مظلوم مظاہرین کی اس وقت کیا حالت ہے لیکن اس رپورٹر کی بات اچانک کاٹ دی جاتی ہے اور یہ بریکنگ نیوز آنے لگتی ہے کہ پشاور میں بم دھماکہ ہو گیا ہے ، جس میں متعدد بے گناہ لوگوں کی ہلاکت کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے ۔ کراچی میں بھی لاشیں گرنے کی خبریں مسلسل آرہی تھیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ خبر بھی چل رہی ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ملاقات کی ہے ، جس میں سکیورٹی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے ۔ بہتر یہی ہوتا کہ وزیر اعظم اور آرمی چیف کی ملاقات کی خبر میڈیا کو جاری نہ کی جاتی کیونکہ اس صورت حال میں لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ ملاقاتیں کرکے کیا کرلیں گے ۔
پاکستان میں اس وقت وہ کچھ ہو رہا ہے ، جس کی نشاندہی قیام پاکستان سے پہلے مولانا ابوالکلام آزاد نے کردی تھی ۔ کوئی اس سے اتفاق کرے یا نہ کرے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس صاحب بصیرت سیاستدان نے بہت پہلے متنبہ کردیا تھا ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم مولانا آزاد کی باتوں کو غلط ثابت کرتے اور ایک قوم بن کر دکھاتے تاکہ آج اس عذاب میں مبتلا نہ ہوتے ، جو ایک قوم نہ بننے کی وجہ سے ہم پر مسلط ہے ۔ ۔۔۔اورایک قوم کس طرح بنتی ہے ؟ اس کے بارے میں بھی شیخ الحدیث حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ نے دو ٹوک الفاظ میں بہت پہلے سے بتا دیا تھا ۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ ’’ قومیں وطن کی بنیاد پر بنتی ہیں ، لسانیت اور مذہب سے نہیں ‘‘ لیکن ہم سے غلطی یہ ہو گئی کہ ہم نے لسانیت اور مذہب کی بنیاد پر قوم بنانے کی کوشش کی ۔ہم نے پاکستان کو اقلیتی گروہوں کی حکمرانی کے لیے مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کیا اور اسے ایک لسانی فرقہ وارانہ ( Ethno-sectarian ) ریاست بنانے کی کوشش کی ۔ آج پاکستان میں جو انتہا پسندی اور لسانی فرقہ وارانہ دہشت گردی ہے ، انہی کوششوں کا نتیجہ ہے ۔ جن مذہبی جماعتوں نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی ، پاکستان بننے کے بعد وہی مذہبی جماعتیں یہ کہنے لگیں کہ پاکستان مذہب کے نام پر بنا ہے لہذا پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ وہ کریں گی ۔ اقلیتی حکمرانی کی خواہش مند پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے بھی پاکستان کی قومیتوں کے حقوق سے انکار اور اپنی غیر جمہوری حکومتوں کے جواز کے لیے ان مذہبی گروہوں کو آلہ کار کے طور پر استعمال کیا اور ان سے ایک مستقل گٹھ جوڑ قائم کیا ، جو آج تک قائم ہے ۔ جس وطن پر پاکستان قائم کیا گیا تھا ، اس کے لوگوں کو دوبارہ مسلمان اور محب وطن بنانے کے لیے ایک خود کار نظام وضع کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ نظریہ پاکستان اور اسلام کو خطرہ ہے ۔ اس وطن کی جغرافیائی سرحدوں کو تسلیم نہیں کیا گیا ۔ جنرل یحییٰ خان کے لیگل فریم ورک آرڈر ( ایل ایف او ) میں فوج کے کردار کا از سر نو تعین کیا گیا اور اسے پاکستان کی ’’ نظریاتی سرحدوں ‘‘ کا محافظ قرار دیا گیا ۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے ، جس کی نظریاتی سرحدیں ہیں ۔ نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے نام پر حب الوطنی کا جو معیار قائم کیا گیا ، اس میں تحریک پاکستان میں تن ، من اور دھن قربان کرنے والے سیاسی رہنما غدار قرار دیئے گئے اور بنگالیوں کا قتل عام جائز قرار دیا گیا ۔ اس وقت موجودہ پاکستان میں کراچی سے لے کر ملک کے دیگر علاقوں تک عام لوگوں کا جو قتل عام ہو رہا ہے ، اس کا اگر گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو وہ سابقہ مشرقی پاکستان کے حالات کا تسلسل نظر آتا ہے ۔ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کی جنگ پاکستان کی حقیقی سرحدوں کے اندر لڑی گئی اور کچھ گروہوں کو یہ کھلی چھوٹ دی گئی کہ وہ پاکستانیوں کو دوبارہ مسلمان بنائیں اور ان میں ’’ نظریاتی وطن ‘‘ کی محبت پیدا کریں ۔ ان گروہوں کے بارے میں کہا گیا کہ یہ پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ آج صورت حال یہ ہے کہ پاکستان کے ہر علاقے کا تاریخی ، ثقافتی ، تہذیبی اور سیاسی کردار مسخ ہو چکا ہے ۔ وطن لہولہوہے ۔جمہوریت میں بھی حکومت نواز شریف کی اور اپوزیشن عمران خان کی ہے ۔ اس کے باوجود لوگوں کو امان نہیں مل رہی ہے ۔ اب اس مرحلے پر یہ سوال پیدا ہوگیا ہے کہ کیا پاکستان کی اصل حکمران قوتیں اس دہشت گردی کا خاتمہ کردیں گی ، جو ریاست کو ایک مخصوص شکل دینے کے لیے ہو رہی ہے ؟یہ سوال اس لیے پیدا ہوا ہے کہ
نگاہ یار نے کی خانہ خرابی ایسی
نہ ٹھکانا ہے جگر کا نہ ٹھکانا دل کا
لیکن اس سوال کا جواب تلاش کرنا بہت مشکل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ فیصلہ نہیں ہو پا رہا کہ بات چیت کی جائے یا لڑائی۔
تازہ ترین