پچاس سال پہلے اکتوبر 1973ءمیں یہودیوں کے مقدس دن یوم کِپور پر مصر، شام اور کچھ دیگر عرب ممالک کے اتحاد نے اسرائیل پر حملہ کردیا تھا۔ حملے کا مقصد ان علاقوں کو واپس لینا تھا جن پر 1967ء میں اسرائیل نے قبضہ کرلیاتھا۔ امریکا فوری طور پر اسرائیل کی مدد کو پہنچ گیا۔ سابقہ سوویت یونین (روس) کی قیادت نے امریکا کو مشرق وسطیٰ میں مداخلت سے منع کیا اور دونوں سپر پاورز آمنے سامنے آگئیں۔ پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پی اے ایف کے پائلٹ مصر اور شام بھیج دیئے جنہوں نے کئی اسرائیلی جنگی جہاز مار گرائے۔ اس دوران اقوام متحدہ نے سیز فائر کرا دیا اور امریکا نے بیک ڈور چینل سے اسرائیل اورمصر میں امن مذاکرات شروع کرائے۔ مصر کے ساتھ وعدہ کیا گیاکہ اگر وہ اسرائیل کوتسلیم کرلے تومصریوں کی تقدیربدل جائے گی۔تاہم مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کی بجائے فلسطینیوں کو کمزور اور تنہا کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کے بعد مصر سمیت کئی مسلم ممالک نے اسرائیل کوتسلیم کرلیا اور پاکستان کے علاوہ دیگر مسلم ممالک کو یہی لارا لگایا گیا کہ اگر آپ اسرائیل کوتسلیم کرلیں تو آپ کی تقدیر بدل جائے گی۔ امریکا اور اسرائیل نے مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کی بجائے فلسطین پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی شروع کردی اور تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کو بھی زور زبردستی سے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات پر مجبور کردیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پی ایل او کمزور ہوگئی اور حماس ابھر کے سامنے آئی۔ پچاس سال بعد اکتوبر 2023ء میں حماس نے اسرائیل پر حملہ کردیا ہے۔ یہ حملہ اور اس کا ردعمل اتنا شدید ہے کہ دنیا ایک دفعہ پھر دو کیمپوں میں تقسیم ہو رہی ہے۔ کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ حماس کے اس حملے کا اصل مقصد سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان کسی ممکنہ امن معاہدے کو سبوتاژ کرنا ہے۔ کچھ دن پہلے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایک نئے مشرق وسطیٰ کا نقشہ لہرایا تھا اور کہا تھا کہ متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، اردن اور اسرائیل کی راہداری یورپ کو ایشیا سے ملائے گی لیکن نیتن یاہو نے فلسطینیوں کے لئے کوئی امید افزا بات نہیں کی۔ اس کےبعد اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن نے اشارہ دیا کہ بہت جلد چھ، سات مسلم ممالک اسرائیل کوتسلیم کرلیں گے جس کےبعد پاکستان میں یہ بحث شروع ہوگئی کہ اگر سعودی عرب نے اسرائیل کوتسلیم کرلیا تو پاکستان کیا کرے گا؟
پاکستان کا اسرائیل کے بارے میں موقف بڑا واضح ہے کہ مسئلہ فلسطین کے حل کے بغیر مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہوسکتا اور جب تک مسئلہ فلسطین حل نہیں ہوتا تو اسرائیل کوتسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ 1994ء میں سوئٹزر لینڈ کے شہر جینوا میں محترمہ بے نظیر بھٹو اوریاسر عرفات کی ایک ملاقات ہوئی تھی۔ اس ملاقات میں یاسر عرفات نے محترمہ بے نظیربھٹو سے کہا تھا کہ ہمیں مار مار کر اسرائیل سے مذاکرات پر مجبور کیا جا رہا ہے ہماری گزارش ہے کہ پاکستان ابھی اسرائیل سے مذاکرات نہ کرے ورنہ ہم مزید کمزور ہو جائیںگے۔ اس ملاقات کے بعد مجھے یاسر عرفات اور اگلے دن ڈیووس میں اسرائیلی وزیر خارجہ شمعون پیریز کے ساتھ گفتگو کا موقع ملا اور مجھے پتہ چلا کہ پاکستان اوراسرائیل کو قریب لانے کے لئے صرف بیرونی طاقتیں نہیں بلکہ کچھ اندرونی طاقتیں بھی سرگرم تھیں۔ یاسر عرفات نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو غزہ کے دورے کی دعوت دی۔ دورے کی تاریخ 4 ستمبر 1994ء طے ہوئی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے مصر کے علاقے رفاہ سے غزہ جانا تھا لیکن اسرائیل نے انہیں یہاں آنے سے روک دیا کیونکہ یہ مقبوضہ علاقے سے ملحق تھا۔ وزیر اعظم پاکستان کا دورہ منسوخ ہوگیا۔ آج نہیں تو کل یہ حقیقت ضرور سامنے آئے گی کہ 1988ء کے بعد متعدد منتخب وزرائے اعظم پر اسرائیل کوتسلیم کرنے کے لئے دبائو ڈالا گیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو پر اس دبائو کا آغاز 1989ء میں ہوگیا تھا لیکن انہوں نے دبائو ڈالنے والے خفیہ ادارے کے سربراہ کا ٹرانسفر کردیا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ 1990ء میں انہیں کرپشن کے الزام میں برطرف کیاگیا اور 1996ء میں ماورائے عدالت قتل و غارت میں ملوث ہونے کا الزام لگا کر برطرف کیا گیا۔
جنرل پرویز مشرف تو اسرائیل کو تسلیم کرنے کےبہت قریب پہنچ چکے تھے لیکن 2007ء کی وکلا تحریک نے ان کے سب منصوبے خاک میں ملا دیئے۔ 2019ء میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے وزیراعظم عمران خان کو اسرائیل کے ساتھ بیک ڈور روابط بڑھانے کا مشورہ دیا۔ یہ وہ معاملہ ہے جس پر عمران خان نے زیادہ کھل کر بات نہیں کی لیکن ایک موقع پر انہوں نے یہ ضرور کہا تھا کہ اسرائیل پر پاکستان کی وہی پالیسی ہوگی جو قائد اعظمؒ کی تھی۔ قائد اعظمؒ نے 8دسمبر 1947ء کو امریکی صدر ٹرومین کو ایک خط لکھا تھا جس میں اسرائیل کے قیام کو اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے امریکی صدر سے اپیل کی گئی کہ وہ فلسطین کی تقسیم کو روکیں۔ جو لوگ پاکستانیوں کو آنکھیں بند کرکے اسرائیل کوتسلیم کرنے کا مشورہ دیتے ہیں انہیں یہ معلوم نہیں کہ آل انڈیامسلم لیگ کی قیادت نے قیام پاکستان سے بہت پہلے فلسطین کی حمایت شروع کر دی تھی۔ 1923ء میں فلسطینیوں کا ایک وفد ہندوستان آیا اور مسلم لیگ نے اس وفد کو مسجد اقصیٰ کی تعمیر نو کے لئےفنڈز اکٹھے کرکے دیئے۔ علامہ اقبالؒ نے مفتی امین الحسینی کی دعوت پر مسجد اقصیٰ کا دورہ کیا اور بعد ازاں مفتی امین الحسینی پاکستان آئے تو انہوں نے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کی۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا آخری اجلاس 14 اور 15 دسمبر 1947ء کو منعقد ہوا جس میں فلسطین کی تقسیم کو مسترد کیا گیا۔ 1947ء سے آج تک ایک فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے سوا کسی سیاسی حکومت نے اسرائیل کو تسلیم کرنے پر آمادگی ظاہر نہیں کی لیکن جب بھی پاکستان کی معیشت کمزور ہوتی ہے تو حیلے بہانوں سے پاکستان کو اسرائیل کےساتھ دوستی کی طرف دھکیلا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ مصر کو اسرائیل سے دوستی کا کیا انعام ملا؟۔ 1979ء میں اسرائیل کے ساتھ دوستی کے بعدسے مصر سیاسی افراتفری کا شکار ہے۔دوستی کے معاہدے پر دستخط کرنے والے صدر انور السادات قتل ہوگئے۔ مصر کو کچھ نہیں ملا تو پاکستان کو کیا مل جائے گا؟ امریکا اور اسرائیل اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ فلسطین حل کریں۔ مسئلہ فلسطین حل کئے بغیر آپ سعودی عرب سے دوستی کرکے دیکھ لیں نتیجہ وہی نکلے گاجواسرائیل اور مصر کی دوستی کا ہوا۔ سبق یہ ہےکہ مسئلہ فلسطین کو حل کئے بغیر مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہوسکتا اور مسئلہ کشمیر کو حل کئے بغیر جنوبی ایشیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ پاکستان اور بھارت میں کرکٹ میچ کھیلنے کا اصل مزہ مسئلہ کشمیر کے حل کےبعد ہی آئے گا۔