ٹی وی چینلز پر آج کل سابق حکمرانوں کے عدالتوں میں پیش ہونے کا موسم ہے۔ ملک اور عوام کی لڑائی لڑنے والے یہ وہ شریف النفس حکمران تھے جو بدعنوانیوں کے سچے پیروکار تھے لیکن یہ بات ہم کہہ سکتے ہیں عدالتوں میں ثابت نہیں کرسکتے۔ ان حکمرانوں کے خلاف اربوں روپے کی کرپشن اور غداری کے مقدمات عدالتوں میں زیرسماعت جوئے کے مقدمے محسوس ہوتے ہیں۔ ایسا کوئی سوال نہیں جس کا جواب اُن سے نہ بن پڑے۔ ایسا کوئی الزام نہیں جس کا ثبوت پیش کرنا ممکن ہو۔ ’’کیا میں نے کوئی غلط کام کیا ہے؟‘‘ تو جواب میں ہمارے اینکر پرسن معصومیت سے ان سابق حکمرانوں کو جواب دیتے ہیں ’’جی نہیں‘‘۔ ثبوت اور گواہوں کی فراہمی میں ناکامی ان کی وہ پناہ گاہ ہے جسے کوئی جنگی جہاز ٹینک اور میزائل تباہ نہیں کر سکتا۔ اس حقیقت سے انکار کرنا ممکن نہیں کہ عدالتوں میں ان کے خلاف ثبوت پیش نہیں کئے جا سکتے۔ کیوں؟ منّو بھائی (خدا انہیں صحت اور زندگی دے) اس کا جواب یوں دیتے ہیں:
اوکھا سب توں منکا منگنا
شیر دے منہ وچوں بوٹی کھوہنی
چلّاں کولوں ماس نئیں لبھدا
ہونی نئیں ہوندی انہونی
چوراں ڈاکوواں قاتلاں کولوں
منگیا کدے ثبوت نئیں لبھدے
فائلاں وچ گواچے ہوئے
بڑے بڑے کرتوت نئیں لبھدے
جس طرح سانپ کبھی اپنا زہر چوسنے والا منکا کسی کو نہیں دیتا اور شیر کے منہ سے گوشت نہیں چھینا جاسکتا چیل کے گھونسلے سے گوشت نہیں مل سکتا اور ہونی انہونی نہیں ہوسکتی اسی طرح مانگنے پر چور ڈاکو اور قاتل کبھی اپنے خلاف ثبوت فراہم نہیں کرتے اور جو کرتوت سرکاری فائلوں میں گم ہوجائیں کبھی ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔
بہتر ہے سب کو ایمانداری کے سرٹیفکیٹ جاری کردیئے جائیں۔ نہ کسی نے کرپشن کی نہ کسی نے غداری اور عوام کے مسائل پر توجہ دی جائے۔ عوام جن کا سب سے بڑا مسئلہ پیٹ ہے۔ اگر عوام کو روٹی مل رہی ہے ان کی معیشت چل رہی ہے تو سب اچھا ورنہ سب برا۔ اسحاق ڈار کہتے ہیں ’’دسمبر تک زرمبادلہ کے ذخائر16ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے، گزشتہ مہینوں میں مالیاتی خسارہ کم اور جی ڈی پی گروتھ بڑھی ہے، ترسیلاتِ زر اور برآمدات میں اضافہ ہوا ہے‘‘۔ ان بڑی بڑی باتوں سے ہمیں کیا لینا دینا۔ ہمیں تو یہ بتاؤ کہ غریبوں کو پیٹ بھر کھانا کب ملے گا۔ روزگار کب دستیاب ہوگا، مہنگائی کب کم ہوگی۔
جلاوطنی کے دنوں میں وزیراعظم نوازشریف سے پوچھا گیا تھا کہ ’’دو تہائی اکثریت کے باوجود جب آپ کی حکومت ختم کی گئی تو لوگ سڑکوں پر کیوں نہیں نکلے؟‘‘ نوازشریف نے جواب دیا ’’لوگ ہم سے ناراض تھے‘‘۔ عوام کو ناراض کر دینے کی اس صلاحیت میں اب ان کی ترقی ششدر کردینے والی ہے۔اخباری رپورٹ ہے کہ موجودہ حکومت نے قیمتوں میں 80فیصد اضافہ کردیا ہے۔ چھ ماہ میں یہ ریکارڈ ہے۔ اس کی وجوہات جاننے سے پہلے ایک واقعہ سن لیجئے۔ میر ہزار خان کھوسو نگراں وزیراعظم بنے۔ وزارت خزانہ میں بریفنگ کے دوران انہیں بتایا گیا کہ ملک کی معاشی حالت انتہائی خراب ہے۔ وزیراعظم کی حیثیت سے آپ کے پاس دو راستے ہیں۔ نمبر ایک عالمی ساہوکار اداروں بشمول ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے قرضہ لیا جائے دوسرا یہ کہ وزیراعظم کی حیثیت سے آپ نئے ٹیکس لگائیں اور عوام کو دی جانے والی سہولت زرتلافی یعنی سبسڈی کا خاتمہ کر دیں۔ وزیراعظم کھوسو سمجھ گئے کہ دونوں عزت مٹی میں ملانے والے راستے ہیں۔ انہوں نے دونوں راستوں پر چلنے سے اجتناب کیا۔ موجودہ حکمرانوں کا کارنامہ یہ ہے کہ وہ ان راستوں پر بگٹٹ دوڑے جارہے ہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرض بھی لے رہے ہیں عوام پر نئے نئے ٹیکس بھی لگارہے ہیں اور سبسڈی کا بھی تیزی سے خاتمہ کررہے ہیں۔ بجلی پر دی جانے والی سبسڈی جسے ختم کرنے کی پرویزمشرف کو ہمت ہوئی اور نہ زرداری کو مگر موجودہ حکومت نے یہ ایک ہی جھٹکے میں ختم کردی۔ ترقی کامتضاد فلسفہ موجودہ حکمرانوں کے ذہن میں اس طرح بیٹھ گیا ہے کہ وہ نہ صرف اس راہ کو ذریعہ نجات سمجھتے ہیں بلکہ اس پر سختی سے عمل پیرا بھی ہیں۔ اس پالیسی سے مہنگائی کے طوفان اٹھتے ہیں تو اٹھیں، روزگار کے مواقع محدود ہوتے ہیں تو تنزلی کے اس سفر میں فری مارکیٹ اکانومی آپ کو خوش آمدید کہتی ہے۔ جس میں مارکیٹ کی قوتوں کو لامحدود منافع کمانے کی کھلی چھوٹ دی جاتی ہے۔ جو چاہے کریں ریاست ان کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ اس طرز معیشت میں بڑے بڑے صنعتی اور مالیاتی ادارے حکمرانوں سے گٹھ جوڑ کرلیتے ہیں۔ اس گٹھ جوڑسے اشیاء کی قیمتوں میں سو فیصد بلکہ اس سے بھی زیادہ اضافہ ہونے لگتا ہے۔ 30 روپے کلو بکنے والا ٹماٹر 200 روپے کلو بکنے لگتا ہے۔ غریبوں کی آمدنی کم ہونے لگتی ہے اور مہنگائی آسمان تک جا پہنچتی ہے۔
طائر لاہوتی کی عوام دوستی کی مثالی پرواز یہاں آکر رکی نہیں بلکہ ایک بڑی معاشی جارحیت نجکاری کی صورت حملہ آور ہونے کو ہے۔ موجودہ حکومت اس سال جب برسراقتدار آئی تو اس نے 65 قومی اثاثوں کو ملک کے خسارے اور معاشی بدحالی دور کرنے کی غرض سے نجی ملکیت میں دینے کا ارادہ ظاہر کیا۔ چند روز پہلے 8جنوری 2014ء کو ان میں سے 31 کو شارٹ لسٹ کیا گیا جبکہ تین اداروں پی آئی اے، ہیوی الیکٹریکل کمپلیکس اور نیشنل پاور کمپنی کی نجکاری فوری طور پر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ حکمرانوں کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ یہ ادارے قومی خزانے پر بوجھ ہیں اور ان سے ملک کی معیشت برباد ہورہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان اداروں کی نجکاری کے بعد بھی اگر ملک کی معیشت نہیں سنبھلی تو پھر کیا کریں گے۔ دوسری بات یہ کہ مذکورہ ادارے صرف قومی اثاثے نہیں بلکہ دفاعی اور جنگی اعتبار سے بھی ان کی حیثیت ہے۔ تیسری بات یہ کہ گھر کے اثاثے بیچنے کی یہ پالیسی کسی قومی مفاد میں نہیں بلکہ آئی ایم ایف کے دباؤ پر کی جارہی ہے اور آخری بات یہ کہ نجکاری کے عمل سے عوام کو سوائے مہنگائی کے کچھ نہیں ملتا، مزدوروں کی چھانٹی کی جاتی ہے، بیروزگاری میں اضافہ ہوتا ہے اور حکومت محض خاموش تماشائی عوام سے لاتعلق۔
بادشاہ اپنا ہے دراصل کوئی اور ظفرؔ
اور یہ ساری رعایا بھی کسی اور کی ہے