• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ 29؍جنوری 2009ءکی بات ہے وزیراعظم ایردوان اور اسرائیل کے صدر شمعون پیرز نے سوئٹزر لینڈ کے شہر ڈیوس میں منعقد ہونے والے عالمی اقتصادی فورم میں حصہ لیا۔ اس عالمی اقتصادی فورم میں ماڈریٹر نے اسرائیلی صدر کو 25 منٹ تک اظہار خیال کرنے اور ایردوان کو صرف بارہ منٹ بولنے کی اجازت دی جس پر اردوان نےماڈریٹرکو کھری کھری سنائیں اور پھر شمعون پیرز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’ آپ عمر میں مجھ سے بڑے ہیں لیکن آپ کی آواز اور ٹون بہت بلند ہے جو مجرمانہ ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔‘‘ انہوں نے اس موقع پر ماڈریٹر سے مزید One minute دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے اسرائیلی فوج اور وزرائے اعظم کی جانب سے کیے جانے والے ظلم و ستم کو تسلیم کرنے سے متعلق بیانات کی قلعی کھول کر رکھدی اور دنیا کے سامنے لائیو نشریات میں اسرائیل کو بے نقاب کیاجس پر ایردوان عالمِ اسلام میں نڈراور دلیر لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔

اس صورتِ حال کے بعد عرب ممالک طویل عرصے تک صدر ایردوان سے ملنےسے کتراتے رہے جبکہ فلسطینی عوام نے انہیں اپنا ہیرو قرار دے دیا اور اس وقت سے لے کر کچھ عرصہ قبل تک (جب تک ترکیہ نے دوبارہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہ کرلیے ) صدر ایردوان اور فلسطینی رہنماؤں محمود عباس اور اسماعیل حنیہ کے درمیان بڑی گاڑھی چھنتی تھی اور دونوں لیڈر ترکیہ میں ہونے والے اعلیٰ سطحی مذاکرات میں خصوصی طور پر شرکت کرتےتھے ۔ اگرچہ یہ تعلقات موجود ہ دور میں بھی قائم ہیں لیکن یہ تعلقات ماضی والی گرمجوشی سے کچھ حد تک عاری دکھائی دیتے ہیں۔ شاید اس کی بڑی وجہ ترکیہ کا ان دنوں اقتصادی لحاظ سے مشکلات میں گھرا ہونا ہے ۔ ترکیہ اس وقت ایسا کوئی بیان دینے سے گریز کررہا ہے جس کے نتیجے میں ڈالر ایک بار پھر راتوں رات آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگے، اس لیے حکومت اب نئی مالی پالیسی پر بڑی سختی سے عمل درآمد کررہی ہے۔

صدر ایردوان نے حماس کے حملے کے بعد بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ القدس شہر ہمارے لیے انتہائی غیر معمولی اہمیت رکھتا ہےکیونکہ ترکوں نے 4 صدیوں سے زائد عرصے تک القدس کی خدمت کرنے کا اعزاز حاصل کیے رکھا اور وہاں پر آباد تمام مذاہب کے افراد کیلئے رواداری اور اعلیٰ ظرفی کا رویہ اپنایا، یہاں تک کہ اس وقت کے ترک حکمران سلطان سلیمان قانونی نے الخلیل گیٹ پر’’لا الہ الا اللہ، ابراہیم خلیل اللہ ‘‘کی عبارت کندہ کروا کر القدس کی بھرپور خصوصیات کواجاگر کیا تھا تاہم خطے سے عثمانیوں کے انخلا کے بعد القدس پر مسلمانوں اور عیسائیوں کے حقوق کی اقوام متحدہ کی متعدد قراردادوں کے باوجود خلاف ورزی کی جاتی رہی ہے۔صدر ایردوان نے کہا کہ مسئلہ فلسطین خطے کے تمام مسائل کی جڑ ہے اور جب تک یہ مسئلہ منصفانہ طریقے سے حل نہیںکرلیا جاتا خطے میں امن قائم کرنا ممکن نہیں ۔ اس مسئلے کا واحد حل دو ریاستی حل ہے جس میںتاخیر نہیں کی جانی چاہیے۔ انہوں نے اس موقع پر آگ پر تیل چھڑکنے کی بجائے تحمل سے کام لینے کی ضرورت پر زور دیا ۔

جیسا کہ عرض کرچکا ہوں ترکیہ میں اقتصادی مشکلات کی وجہ سےترکیہ اس باراسرائیل کے خلاف پہلے جیسا جارحانہ رویہ اختیار کرنے سے گریز کررہا ہے۔ اگر ترکیہ کے اقتصادی حالات بہتر ہوتے تو شاید ترکیہ کی جانب سے حماس کو ترک ڈرونز فراہم کیے جاسکتے تھے جیساکہ ترکیہ اس سے قبل یہ ڈرونز آذربائیجان کے علاقے قارا باغ کو آزاد کروانے اور لیبیا میں مخالف ملیشیا گروپوں کے خاتمے کیلئے استعمال کرچکا ہے لیکن ان حالات میں ایسا ممکن نہیں۔

جہاں تک عرب ممالک کا تعلق ہے یہ تمام ممالک اب فلسطین اور اسرائیل سے متعلق اپنی پالیسی میں نمایاں تبدیلیاں کرچکے ہیں اور وہ فلسطین کو اپنے سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لحاظ سے بہت بڑی رکاوٹ بھی سمجھتے ہیں۔ اسی لیے امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن نے بیان دیتے ہوئے ایران پر سعودی عرب اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات کو ڈائنا مائٹ سے اُڑانے کی کوشش قرار دیا ہےاور حماس پر ایران کا آلہ کار بننے کا الزام عائد کیا ہے۔

ایران، اسرائیل کو اپنا ازلی دشمن قرار دیتا ہے اور اس نے اس بار حزب اللہ سے زیادہ حماس کی مدد کی ہے اور اس نے حماس کو ٹریننگ فراہم کرتے ہوئے اس پلان کو آخری وقت تک خفیہ رکھا اور دنیا کی سب سے بڑی انٹیلی جنس سروس موساد جسے دنیا بھر میں اپنے خفیہ منصوبوں کو عملی جامہ پہننے کا گھمنڈ تھا، یہ گھمنڈ خاک میں ملادیا۔اسرائیل کی تاریخ میں پہلی بار حماس کے نوجوانوں نے موٹر سائیکلز، پیرا گلائیڈرز اور کشتیوں کے ذریعے بیک وقت حملے کرتے ہوئے اسرائیل کی سرزمین کے اندر ہی اسےآن دبوچا ہے۔ غزہ کو کہیں دیوار اور کہیں خاردار تار لگا کر چاروں طرف سے محصور کردیا گیا ہے اور جگہ جگہ اسرائیلی چوکیاں بھی قائم ہیں ۔ فلسطینی جانبازوں کے حوصلے ہمیشہ بلند رہے ہیں، انھوں نےخالی ہاتھ، بےسروسامان ہونے کے باوجود بارہا پتھروں سے اسرائیلی ظالمانہ بمباری کا مقابلہ گھریلو ساخت کے ہتھیاروں سے کیا ہے۔ سوچئے، چند منٹ کے اندر اسرائیل پر پانچ ہزار میزائلوں کی برسات کوئی معمولی بات ہے ؟یہ مزائل کہاں سے آئے اور ایک اوپن ائیر جیل کی حیثیت رکھنے والے غزہ کے ایک سو مقامات سے چند ایک منٹ کے اندر بیک وقت کیسے داغے گئے اور دنیا کی بہترین انٹیلی جنس سروس موساد کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین