عمران احمد سلفی
معروف عالم دین، داعی اسلام، مہتمم جامعہ ابی بکر الاسلامیہ مولانا ضیاءالرحمن مدنی شہید، زندگی کے آخری وقت تک اقامت ِدین کے لیے مصروف عمل رہے، اپنے شب روز کو علوم نبویؐ کے لیےوقف کردیا ۔ 12ستمبر کو مولانا ضیاءالرحمن مدنیؒ جام شہادت پی کر اپنے رب العزت کے حضور پیش ہوگئے۔آپ نے اپنے والد محترم مولانا پروفیسر ظفراللہ رحمہ اللہ کے بعد جس طرح جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کی آبیاری کی اور والد محترم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس کی خدمت کو شعار زندگی بنایا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ آپ ایک عظیم مصلح اور علمی خانوادے کے چشم و چراغ تھے۔
مولانا مدنی شہید، والد کی طرح نہایت سادہ طبیعت اور محنت کے عادی تھے ۔وہ ایک صالح، نیک سیرت، اللہ سے ڈرنے والے تھے۔ آپ عموماً سنت کی پیروی کرتے ہوئے پیر اور جمعرات کو روزے کا اہتمام کرتے۔ اللہ ان کے اعمال صالحہ کو اپنی بارگاہ میں قبول اور درجات بلند فرمائے۔ آپ نےدین اسلام کی سربلندی کے لیے ہمیشہ درس وتدریس کے ساتھ قلم کے میدان میں بھرپور کردار اداکیا ۔آپ حدیث وسنت رسولﷺ کے ایک غیورخادم تھے۔
آپ فرماتے تھے: جب تم اللہ کی راہ میں کچھ دیتے ہو تو پھر اس کا بدل واجر صرف اور صرف اللہ سے طلب کرو، بندے سے کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ،اس معاملے میں اتنی احتیاط کرنی چاہیے کہ جس کے ساتھ آپ احسان کریں، بدلے میں اسے دعا کے لیے بھی نہ کہیں، بلکہ اپنے رب سے تعلق کو قائم رکھیں۔ شیخ محترم ایک موقع پر رب سے تعلق پر بیان فرماتے رہے۔ لوگوں کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ مولانا مدنی ؒکا تعلق درس و تدریس کے ساتھ بہت گہرا تھا۔
اس کا اندازہ جامعہ کے طلباء اور اساتذہ کے تعلق سے ہوا ،وہ محبوب شخصیت تھے ،ان پر اپنے والد کی تربیت کا بہت زیادہ اثر تھا ۔ جامعہ ابی بکر الاسلا میہ کی عظیم الشان عمارت جس کے آپ مدیر و مہتمم تھے، علوم نبویؐ کی عظیم درس گاہ کا درجہ رکھتی ہے، جس کے پیچھے جہد مسلسل کی ایک طویل داستان ہے۔ مولانا شہید ؒ کے والد مولانا پروفیسر ظفراللہ ؒ نے دینی تعلیم جامعہ تعلیم الاسلام ماموںکانجن میں امیر المجاہدین ابوالمساکین صوفی محمد عبداللہ رحمہ اللہ کی سرپرستی میں کبارمشائخ و مدرسین سے حاصل کی۔اس وقت شیخ الحدیث مولانا محمد یعقوب ملہوی، مولانا محمد صادق، مولانا عبدالصمد، مولانا عبدالرشید ہزاروی اور دیگر اساتذہ منصب تدریس پر فائز تھے۔
آپ کے بعد ان کے جانشین ، مولانا ضیاءالرحمن مدنی شہید ؒ نے بھی اسی تسلسل کو قائم رکھا۔ مولانا کی پیدائش کراچی کی تھی، انہوں نے عصری تعلیم کراچی سے حاصل کی اور درس نظامی کی تکمیل جامعہ ابی بکرالاسلامیہ سےکی ، جب کہ علوم شرعیہ میںقانون کی ڈگری سعودی عرب کی عظیم اسلامی یونیورسٹی جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے حاصل کی۔جامعہ ابی بکر اسلامیہ کے وکیل الجامعہ مقرر ہوئے اور گزشتہ 8سال سے مدیر الجامعہ کے فرائض انجام دے رہے تھے ،والد کا طریقہ انداز، وہی سادگی،جہد مسلسل،اخلاق کی بلندی، تواضع، خدمت دین کا جذبہ اور اخلاص جس کا وہ چلتا پھرتا نمونہ تھے،زندگی کا سفر تو کہیں نہ کہیں تمام ہونا ہی ہے، ہم اللہ کی رضا میں راضی اللہ ان کی شہادت کو قبول فرمائے۔
وہ لوگ بہت خوش نصیب ہیں جو اپنے پیچھے ایسے قابل رشک نقوش چھوڑ گئے جن سے دنیا راہنمائی حاصل کرتی رہے گی ، مولانا ضیاءالرحمن مدنی شہید بھی اسی قافلہ جاوداں کے راہ رو تھے ، مسلسل دین اسلام، کتاب وسنت، دین کی ترویج و اشاعت میں مصروف عمل رہتے ہوئے اس دنیائے فانی میں انمٹ نقوش چھوڑ کر زندگی کی 46 بہاریں مکمل کرکے اپنے سفر آخرت پر روانہ ہوگئے، اللہ تعالیٰ انہیں شہدائے اسلام کے ساتھ اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے۔ اللہ کی رحمتیں برکتیں نازل ہوں، اللہ ان کی دین اسلام کے لیے خدمات کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت عطا فرمائے۔
مولانا ضیاالرحمن مدنی شہیدؒ کی نماز جنازہ گول گراؤنڈ ماڈل کالونی میں ممتاز عالم دین مولانا مسعود عالم کی امامت میں ادا کی گئی۔ نماز جنازہ میں کثیر تعداد میں علمائے کرام، مشائخ عظام، دینی مدارس کے اساتذہ، طلباء، سیاسی و مذہبی زعماء اور ہر طبقہ زندگی سے وابستہ افراد نے شرکت کی۔