مولانا ڈاکٹر محمد عبدالحلیم چشتی
(گزشتہ سے پیوستہ)
دُعا کے معنی لُغت میں بُلانا، پُکارنا، یادکرنا ہیں، لیکن عرف اور شریعت میں اس سے خاص معنی مُراد ہیں۔ علّامہ سیّد مرتضیٰ بلگرامی زبیدیؒ ’’تاج العروس‘‘ میں رقم طراز ہیں :’’ دُعا کے معنی: اللہ تعالیٰ کے یہاں جو کچھ خیراور بھلائی ہے، اس کی خواہش ورغبت کرنااور اس کے سامنے عاجزی ونیازمندی سے سوال کرنا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اپنے پروردگار سے دُعاکرو، عاجزی کے ساتھ چُپکے چُپکے، بے شک ،وہ حد سے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘(سورۃ الاعراف:۷)
دُعا میں مُراد کا حاصل ہونا بھی مطلوب ومقصود ہوتا ہے، اس لیے اس کے جواب میں اِجابت کا لفظ آتا ہے کہ جس مقصد کے لیے درخواست کی گئی تھی وہ قبول ہوگئی، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:ترجمہ: ’’ اور تمہارے پروردگار نے کہا ہے کہ مجھے پکارو، میں تمہاری درخواست قبول کروں گا۔‘‘(سورۃ المؤمن:۶۰)
امام فخر الدین رازیؒ تفسیرِکبیر میں لکھتے ہیں: ترجمہ : ’’ دُعا کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اپنے رب سے مدد اور رحمت و عنایت کا طلبگار رہے۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ دعا کے مفہوم میں بہت وسعت ہے، اپنے دینی ودنیوی مطالب، زبان سے، دل سے، یاحال سے پیش کرنا، تسبیح وتہلیل کرنا، یادِ الٰہی میں لگے رہنا بھی دعا کے مفہوم میں داخل ہے۔ اصل عبادت یہ ہے کہ بندےکی ہر اداسے یہ ظاہر ہوتا رہے کہ یہ بندہ ہے اور وہ رب ہے، یہ مخلوق ہے اور وہ خالق ہے، یہ محتاج ہے وہ غنی ہے، یہ عاجزہے وہ قادرہے، جو اس امر سے گریز کرتا ہے،وہ دُعا کو مؤثر نہیں سمجھتا اور نہ وہ اپنے آپ کو’’ عبد‘‘ اور ’’رب الأرباب‘‘ کو ’’رب‘‘ مانتا ہے، اس کی سزا جہنّم ہے۔ قرآن کہتا ہے:ترجمہ : ’’ اور تمہارے پروردگار نے کہاہے کہ: مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا، بےشک جو لوگ تکبر کی بناء پر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں، وہ ذلیل ہوکرجہنّم میں داخل ہوں گے۔‘‘ (سورۃ المؤمن:۵۹)
حدیث میں آتا ہے: ’’الدعاء ہو العبادۃ۔‘‘(ق،ع) یعنی ’’دعا اصلِ عبادت ہے۔‘‘ اور دوسری حدیث میں آیا ہے: ’’الدعاء مخ العبادۃ۔‘‘ یعنی ’’دُعا مغزِ عبادت ہے۔‘‘
دُعا کی اہمیت وافادیت اور اس حقیقت کو کہ اللہ تعالیٰ اپنی مشیّت وارادہ میں آزاد ہے، ہم تسلیم کرتے اور اس امر کے قائل ہیں کہ دُعا کو قبول کرنا اور اس کا رد کرنا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ نمازِجنازہ کی حیثیت ایک دُعا کی ہے،جس میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی التجا کی جاتی ہے اورمغفرت اُس کی رضا پر موقوف ہے۔
دعائیں بھی دو قسم کی ہیں : انفرادی اور اجتماعی۔انفرادی دعائیں وہ ہیں، جن میں واحد متکلم کے صیغے اور ضمیریں استعمال کی گئی ہیں۔ ان کا تعلق فردِ واحد کی اپنی اصلاح و فلاح، کامیابی و کامرانی، حاجت روائی و کار برآ ری اورمغفرت و معافی سے ہے۔ اجتماعی دعائیں وہ دعائیں ہیں جن میں جمع متکلم کے صیغے اور ضمیریں آتی ہیں، ان دعائوں میں اجتماعی شان مضمر ہے، پوری اُمت اس میں شریک ہوتی ہے،اسلامی معاشرے کے تمام افراد اس میں داخل ہیں۔
حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ نے دعا کی چار قسمیں بیان کی ہیں،موصوف فرماتے ہیں:’’ دعا کی چار قسمیں ہیں: اول: دعائے فرض، مثلاًنبی کو حکم ہو ا کہ اپنی قوم کے لیے ہلاکت کی دعا کرے، بس اسے یہ دعا کرنا فرض ہے۔ دوم: دعائے واجب، جیسے دعائے قنوت۔سوم: دعائے سنت، جیسے بعدِ تشہد اور اد عیہ ماثورہ۔ چہارم: دعائے عبادت، جیسا کہ عارفین کرتے ہیں اور اس سے محض عبادت مقصود ہے، کیونکہ دعا میں تذلل (عجز وانکساری کا اظہار ) ہے اور تذلل حق تعالیٰ کو محبوب ہے۔
نظامِ اذکاروادعیہ کی غایت یہ ہے کہ ’’اللہ کاذکر‘‘ اللہ کی یاد اُٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، چلتے پھرتے دل ودماغ میں ایسی رچ بس جائے کہ اس کی کوئی حرکت اللہ کی یادسے خالی نہ ہو، وہ جو کام کرے گا ’’بسم اللہ‘‘ پڑھ کر کرے گا، ہرنعمت پر اس کا شُکر اداکرے گا، ہر کوتاہی اورقصور پر اس کے آگے معافی مانگے گا، حاجت کے وقت اس کے حضور ہاتھ پسارے گا، ہرمشکل میں اسے پکارے گا، ہرمصیبت میں’’ إنّا للہ‘‘ کہے گا، کبریائی وعظمت کے موقع پر بے ساختہ اس کے منہ سے ’’اللہ أکبر‘‘ نکلے گا، ہرمعاملے میں اس کے آگے ہاتھ پھیلائے گا، کوئی بُری بات کان میں پڑے گی وہ ’’معاذ اللہ‘‘ اور’’ نعوذباللہ ‘‘کہے گا، ہر نامناسب بات پر ’’لاحول ولاقوۃ إلّا باللہ‘‘کے الفاظ اس کی زبان پر جاری ہوجائیں گے، اُٹھتے بیٹھتے ہرکام او رہربات پر ’’الحمدللہ‘‘، ’’سبحان اللہ‘‘، ’’ماشاء اللہ‘‘ ، ’’إن شآء اللہ‘‘ جیسے بابرکت کلمات اس کی زبان سے ادا ہوتے رہیں گے۔ یہ اللہ سے اس کی محبت وتعلق کا نہایت بیّن ثبوت ہوگا۔
’’ذکراللہ‘‘ کرنے والوں کی شان یہ ہے کہ دنیا کے معالات اور تجارت میں لگے ہوئے ہیں، پھر بھی دل اُن کے کہیں اور ہی اَٹکے ہوتے ہیں، نہ ان سے فرائض کی ادائیگی میں غفلت ہوتی ہے اور نہ وہ ادائے حقوق میں سستی کرتے ہیں۔ ان کی زبان ’’بارک اللہ‘‘ ، ’’یرحمک اللہ‘‘ ، ’’یغفراللہ‘‘ ، ’’رحمۃ اللہ‘‘ ، ’’واللہ، باللہ، إلا اللہ‘‘ اور اردو میں ’’اللہ کی رحمت ہو‘‘، ’’اللہ ہدایت دے‘‘، ’’اللہ برکت دے‘‘، ’’اللہ صحت دے‘‘،’’اللہ رکھے‘‘، ’’اللہ عافیت دے‘‘، ’’اللہ خیریت سے پہنچائے‘‘، ’’اللہ توفیق دے‘‘، ’’اللہ خیرکرے‘‘، ’’اللہ بخشے‘‘، ’’اللہ رحم کرے‘‘، ’’اللہ معاف کرے‘‘، ’’اللہ کی پناہ‘‘وغیرہ جملوں سے تررہتی ہے۔
صوفیاء کا طریقۂ سلوک، اَور ادو اَذکار اور اَشغال واَعمال کا دستورالعمل جو اصلاحِ اعمال واحوال کا کامیاب تجرباتی طریقۂ کار ہے، اس نظام کا ایک حصّہ ہے، چنانچہ شاہ عبد العزیز دہلوی رحمۃ اللہ علیہ آیۂ شریفہ: ’’اور آپ اپنے پروردگار کے نام کا ذکر کریں۔‘‘ (سورۃ المزمل:۸)کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:’’یعنی آپ اپنے پروردگار کانام ہمیشہ یاد کرتے رہیں، ہر وقت اور ہرکام میں اورہر عبادت کے ساتھ خواہ اس کے اثناء میں ہو، اورخواہ اس کے اول وآخر میں، خواہ زبان سے ہو، خواہ لطیفۂ قلب سے اورخواہ روح سے اور خواہ سِری ہو، خواہ خفی اور خواہ اخفٰی، اور خواہ نفس سے ہو، خواہ دن میں ہو، خواہ رات میں، ذکرِلسانی سراً ہو یاجہراً، اور چاہے پوشیدہ ہو، اور پروردگار کانام خواہ اسمِ ذات ہویا اسمِ اشارہ، ’’ہو‘‘ سے ہو یا اسمائے حُسنٰی میں سے کسی ایک نام سے ہو، جو نام سالک کی ذات اور اس کے حال اور وقت کے زیادہ مناسب ہو، پھر اسمِ ذات یاکلمہ طیّبہ کے ضمن میں نفی واثبات کے ساتھ، خواہ ’’سبحان اللہ‘‘، ’’الحمدللہ‘‘، ’’اللہ أکبر‘‘ اور ’’لاحول ولاقوّۃ إلا باللہ‘‘ کے ساتھ اور دوسرے مسنون اذکارکے ساتھ ہو، اورخواہ کیفیتِ ذکر یَک ضربی ہو خواہ دوضربی، یا اس سے بھی زیادہ، خواہ حبسِ نفس کے ساتھ ہو یا حبسِ دم کے بغیر، برزخ کے بغیر ہو یا برزخ کے ساتھ، خواہ سہ رکنی ہو یا ہفت رکنی، خواہ شرائطِ عشرہ کے ساتھ ہو ( یعنی شد، مد، تحت، فوق، محاربہ، مراقبہ، محاسبہ، مواعظ، تعظیم اورحرمت ) یا ان شرائط وغیرہ کے بغیر دوسری خصوصیات کے ساتھ ہو جو ماہرینِ اہلِ طریقت کی وضع واستنباط کی ہوئی ہیں۔ قرآن کہتا ہے: ’’اگر تمہیں خود علم نہیں ہے تو نصیحت کا علم رکھنے والوں سے پوچھ لو ۔‘‘ (سورۃ الانبیاء:۷)
دس کلماتِ اذکار کا تذکرہ جن کا ہر شریعت میں رواج ومعمول رہا۔شاہ عبدالعزیز مُحدّث دہلویؒ ایسے دس کلماتِ اذکار کے متعلق تفسیر’’فتح العزیز‘‘ میں رقم طراز ہیں: یہاں اس حقیقت کو سمجھ لیناچاہیے کہ اذکارِ عشرہ : ۱-’’سبحان اللہ‘‘کہنا، ۲-’’الحمدللہ‘‘کہنا ، ۳-’’اللہ أکبر‘‘ کہنا ، ۴-کلمہ ’’لا إلٰہ إلا اللہ‘‘ پڑھنا ، ۵- ’’وحدہٗ لاشریک لہٗ‘‘ کہنا ، ۶-’’لاحول ولاقوّۃ إلا باللہ‘‘ کہنا ، ۷-’’حسبنا اﷲ‘‘کہنا ، ۸-’’بسم اﷲ الرحمن الرحیم‘‘ کہنا ، ۹-اللہ تعالیٰ سے استعانت مانگنا، ۱۰-برکت مانگنا، مذکورہ بالا دس کلمات ہرشریعت میں مختلف الفاظ اور صیغوں کے ساتھ رائج اورقابلِ عمل ہیں۔‘‘
دُعا مانگنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے اللہ تعالیٰ کی حمدبیان کی جائے، پھر رب العالمین کے حضور عرضِ مدّعا کیاجائے، اس انداز سے جو دُعا کی جائے گی وہ قبولیت کے زیادہ قریب ہے۔ (ابوبکر جصاص، احکام القرآن، ج: ۱، ص:۴۲)
دعا نہایت عاجزی و انکساری سے کرنی اور خاموشی سے مانگنی چاہیے، اس طرح دکھاوے اور شہرت کا خطرہ نہیں رہتا۔ خاموشی سے دعا مانگنا اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ دعامیں خوف و طمع دونوں ہونی چاہئیں، قبولیت کی اُمید اور گناہوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے رد ہونے کا کھٹکا رہنا چاہیے۔ ناامیدی بھی کفر ہے، اور بے جا اعتماد اور گھمنڈ بھی اچھا نہیں۔
ادعیہ و تعوذاتِ ماثورہ ہتھیار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ہتھیار کی قدر و قیمت چلانے والے سے ہوتی ہے، اس کی دھار سے نہیں، اس میں کامیابی کے لیے حسب ِذیل تین شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے1- ہتھیار درست ہو۔ 2-چلانے والے کے ہاتھوں میں جان ہو، سوجھ بوجھ بھی اچھی ہو۔ 3-کسی قسم کی رکاوٹ بھی موجود نہ ہو۔ پھر نتیجہ صحیح نکلتا ہے۔ مذکورہ بالا تین شرطوں میں سے ایک شرط بھی نہ پائی گئی تو نتیجہ صحیح نہیں نکلے گا، چنانچہ ضروری ہے کہ:4-دعا کے الفاظ صحیح یاد ہوں۔ 5-دعا مانگنے والے کے دل و زبان میں موافقت ہو، جو زبان سے ادا ہو دل بھی اس کا ہمنوا ہو۔6-کوئی اور چیز قبولیتِ دعا سے مانع موجود نہ ہو،پھر نتیجہ صحیح برآ مد ہوتا ہے، ورنہ نہیں۔
دعا میں جب تک کہ پورے طور پر قلب کو حاضر نہ کرے گا اور عاجزی اور فروتنی کے آثار اس پر نمایاں نہ ہوں گے، ایسی دعا،دعاخیال نہیں کی جاسکتی،کیونکہ اللہ تعالیٰ تو قلب کی حالت کو دیکھتے ہیں۔یہ امر بھی ملحوظِ خاطر رہنا چاہیے کہ حصول مقصد کے لیے موقع ومحل کے اعتبار سے صحیح تدبیر اختیار کرنا لازمی امر ہے۔ جنگِ بدر کے موقع پر حضورِ اکرم ﷺ نے جنگی تیاری بھی کی اور دُعا بھی مانگی، اس طرح ہر مسلمان کے لیے زندگی کے مسائل کوحل کرنے کے لیے ان دونوں باتوں پر عمل کرنا ضروری ہے۔
اس زمانے میں خواتین اورمرد سب ہی تعویذ گنڈوں کے چکر میں ہزاروں روپے لوگوں کودیتے ہیں اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ پیر فقیر یہ کہہ کر چھوٹ جاتے ہیں کہ ہم نے توڑ کیا تھا، اس نے پھر جادو کردیا۔ اس طرح ساری عمر،اوروقت بھی ضائع کرتے اور رقم بھی برباد کرتے ہیں۔یہ نتیجہ رسول اللہ ﷺ کی ان تعلیمات اور موقع ومحل کی دعا اور ذکر سے گریز کا ہے جوبنی نوع انسان کی گوناگوں پریشانیوں سے نجات کے لیے قرآن وسنت میں موجود ہیں۔
ان اذکار اور دعاؤں سے ان شاء اللہ پریشانیوں سے نجات بھی حاصل ہوگی اور اجر وثواب بھی ملے گا اور انسان کا اللہ تعالیٰ سے بندگی کا رشتہ بھی بندھا رہے گا، بلکہ تعلق ورشتہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا رہے گا اور ایمان پرخاتمہ نصیب ہوگا۔ مسلمان کی یہی سب سے بڑی آرزو اورکامیابی ہے۔