• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ آف پاکستان کے بدھ کی شام جاری کئے گئے مختصر حکم سے پارلیمانی بالادستی تسلیم کئےجانے اور عدلیہ کی آزادی کاتاثر پوری طرح اجاگر ہوا ہے تاہم ماہرین بعض سوالات کے جوابات کے لئے تفصیلی فیصلے کے منتظر ہیں۔ فل کورٹ بنچ کی کارروائی اور فیصلے سے اعلیٰ عدلیہ میں نئی روایات کی بنیاد پڑتی نظر آرہی ہے جبکہ سپر یم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی سماعت کی مکمل کوریج سے عدلیہ زیادہ کھلی محسوس ہورہی ہے۔ فیصلے میں ، جو کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد محفوظ کرلیا گیا اور شام کو جاری کیا گیا، پارلیمان کے حق قانون سازی کو تسلیم کرتے ہوئے اس حقیقت کو آشکار کر دیا گیا کہ پارلیمان کو سپریم کورٹ سے متعلق قانون سازی کا اختیار حاصل ہے اور اس سے عدلیہ کی آزادی متاثر نہیں ہوئی۔ فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پڑھ کر سنایا۔مبصرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے عدلیہ میں مثبت تبدیلیوں کا آغاز ہوگیا اور ماسٹر آف روسٹر کے تصور کو اجتماعی دانش کے اصول سے بدل دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 10اپریل 2023ء کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا تھا۔ بدھ کے روز سنایا گیافیصلہ پاکستان کی عدالتی تاریخ کا اہم فیصلہ ہے۔ 15جج صاحبان نے تفصیلی سماعت کے بعد جو اکثریتی فیصلہ دیا۔ اس کے تحت سوموٹو کیسز کے فیصلوں پر نظرثانی کی اپیل کا حق ماضی کے فیصلوں پر نہیں ہوگا۔ اس موضوع پر میاں نواز شریف کے مستقبل کے حوالے سے مختلف قوانین کو کھنگال کر الگ الگ آرا کا اظہار کیا جارہا ہے۔ ماہرین قانون کے مطابق پارلیمنٹ کوئی بھی قانون بناسکتی ہے بشرطیکہ وہ آئین کے منافی نہ ہو۔ اس بات کو بھی سراہا گیا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خود اپنے اختیارات دینے پر آمادگی کا اظہار کیا۔ بدھ کے روز سنائے گئے فیصلے کے بموجب بنچ کی تشکیل ، مقدمات موخر کرنے اور ازخود نوٹس لینے کا اختیار تین رکنی ججز کمیٹی کو منتقل ہوگیا ہے۔ 3/184کے مقدمات میں اپیل کا حق آئینی قرار دے دیا گیا۔ اپیل کے حق کے لئے 9ججز نے حمایت، 6نے مخالفت کی۔ ماضی سے اطلاق کا فیصلہ 8،7کے تناسب سے مسترد ہوگیا۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے جو ریمارکس دیئے وہ قابل توجہ اور قابل غور ہیں، ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کی دشمن نہیں۔ عوام کے حقوق ہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ دنیا مل جل کرچلتی ہے ، ہم ایک دوسرے کے ارادوں کو منفی سوچ سے کیوں دیکھتے ہیں، جیو اور جینے دو کا اصول اپنانا ہوگا، درخواست گزاروں کو ثابت کرنا ہے کہ قانون غلط ہے، پارلیمنٹ چاہتی تو ایک قدم آگے بھی جاسکتی تھی، پارلیمان نے عدالت پر اعتماد کیا، اس قانون سے سپریم کورٹ کی عزت رکھی اور ہم آئینی ادارے میں مین میخ نکال رہے ہیں۔ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023ء کے خلاف دائر آئینی درخواستیں مسترد کئے جانے کے بعدآئین کے مطابق مذکورہ قانون 10اپریل 2023ء سے نافذ العمل ہوگیا ہے۔ ماہرین قانون کی جانب سے کئے گئے تبصروں اور تجزیوں میں واضح کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سب پر بائنڈنگ ہیں۔ اس پورے منظر نامے میں عام آدمی کا تاثر یہ ہے کہ غریب آدمی کیلئے انصاف کا حصول بہت مشکل ہوچکا ہے۔ ماضی کی بعض مستحکم روایات جرگے، پنچایت، ثالثی، مصالحت کے طریقوں میں اچھے اور برے پہلو نکالے جاسکتے ہیں۔ مگر شاید انصاف کا نظام مستحکم تھا۔ آج کا عام آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اگر وہ غریب گھرانے میں پیدا ہوگیا تو کیا یہ ایسا جرم ہے جس کی بنیاد پر وہ زنجیر عدل کھینچنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا؟

تازہ ترین