سپریم کورٹ کا تصور ایک ماورائی ماں جیسا ہوا کرتا تھا ۔ جس کی گود میں پناہ لے کر ہر مظلوم ایک بچے کی طرح سکون اور انصاف تلاش کرتا ہے۔ دنیاوی معاملات میں انصاف کی آخری امید سپریم کورٹ ہے ۔ اپنے نام اور کام کی طرح اس ادارے کی عمارت اور اس کے باہر لگے ترازو کو دیکھ کر ہی ہر خاص و عام کا دل دہل جاتا تھا اور امید و خوف کی کیفیت طاری ہو جاتی ۔ مگر بھلا ہو کچھ سابق چیف جسٹس صاحبان کا جو میڈیا کی چکا چاند روشنیوں سے مرعوب ہوئے بغیر نہ رہ سکے جس کے نتیجے میں ججوں کے فیصلوں کی بجائے عدالتی کارروائیاں میڈیا کا من پسند موضوع بننے لگیں۔ ججوں کے جملے ، وکیلوں کی جرح حتیٰ کہ باڈی لینگویج تک کی کوریج ہونے لگی۔ یوں فیصلوں سے پہلے ہی فیصلے آنے لگے۔ یہاں تک کہ اصل فیصلے رائے عامہ یا با اثر حلقوں کی مداخلت کی بھینٹ چڑھنے لگے۔ پھر عدالتوں کی جانبداری کی آوازیں اٹھنے لگیں اور بالآخر بات تیرا جج میرا جج تک پہنچ گئی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ وکیلوں کی جرح کے ساتھ ساتھ ججوں کی نوک جھونک تک براہ راست نشر ہونے لگی ہے۔ جن لوگوں نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی سماعتیں ٹیلی ویژن سکرین پر براہ راست دیکھی ہیں وہ یقیناً فیصلے سے پہلے فیصلے تک پہنچ گئے ہوں گے۔ یہ بھی معلوم کر چکے ہوں گے کہ کس جج نے حق میں فیصلہ دینا ہے اور کس نے مخالفت میں ۔ اگرچہ موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپنے تئیں بڑا دلیرانہ فیصلہ کیا ہے کہ عدالتی کارروائی لائیو نشر کی جائے تاکہ عوام الناس تک دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی واضح ہو جائے۔ یہ اچھی بات ہے لیکن کیا کریں کہ ہم مجموعی طور پر بحیثیت قوم عجیب و غریب کیفیت سے دوچار ہو چکے ہیں ۔ کہیں محرومیاں ہیں تو کہیں فراوانیاں اور کہیں فراوانی کے باوجود بے اطمینانیاں ۔ ہمارے اندر مولا جٹ اور نوری نت در آئے ہیں۔ ہر کوئی ایک دوسرے کو پچھاڑنے کے موڈ میں ہے۔ ہمارے دائیں بائیں گلی محلے میں تو یہ کام عرصہ دراز سے چل رہا تھا مگر سپریم کورٹ جیسے سپریم ادارے کے سپریم سربراہ کے منہ سے جب ایک وکیل کو ڈانٹتے ہوئے یہ سنا کہ ’’بات تہذیب سے بھی کہی جا سکتی ہے‘‘ تو وہ لوگ جو سپریم کورٹ کو ایک مقدس ماورائی ماں جیسا سمجھتے تھے انہیں بھی معلوم ہو گیا کہ ہر جگہ کی طرح تہذیب کی یہاں بھی اشد ضرورت ہے۔ خیر یہ ایک الگ بحث ہے کہ عدالتی کارروائی کی براہ راست کوریج ہونی چاہیے کہ نہیں تاہم میں اتنی سی رائے ضرور دوں گا کہ کچھ چیزوں کی توقیر پردے میں رہنے سے ہی قائم رہتی ہے۔ آئیے اب سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کے فیصلے پر بات کرتے ہیں جو دس/ پانچ کے اختلاف سے سامنے آیا ہے۔ یہ فیصلہ کس کیلئے فائدہ بخش ہے اور کس کیلئے نقصان کا باعث؟ مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں۔ عرض یہ ہے کہ زیر بحث کیس خالصتاً آئینی مسئلہ تھا اور ہمارا آئین جزئیات کے ساتھ تحریر شدہ ہے۔ اگرچہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اس آئین پر بحث مباحثے ہوتے رہتے ہیں۔ ہر کوئی اپنی اپنی سیاسی وابستگی اور مفاد کے مطابق اس کی تشریح و توضیح بھی کرتا رہتا ہے۔ ٹھیک بات ہے یہ فورم اسی مقصد کیلئے ہیں اور اگر کوئی پیچیدگی ہو تو سپریم کورٹ سے بھی رہنمائی لی جاتی ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ یہ کیس جو سراسر آئینی تھا اس پر اعلیٰ ترین عدالت کے 15فاضل جج منقسم کیوں ہوئے؟ ایسا نہیں ہو سکتا کہ 15 میں سے 10 جج درست ہوں اور دیگر پانچ بھی درست ہوں۔ ایک ہی مسئلے پر اگر آرا مختلف ہیں تو منطقی طور پر یا 10 درست ہیں اور پانچ غلط یا پھر دس غلط ہیں اور پانچ درست ہیں۔آئین منطق کی طرح Categorical ہوتا ہے ۔جس طرح استخراجی منطق میں یہ کہا جائے کہ’’تمام انسان فانی ہیں..... اکبر ایک انسان ہے... لہٰذا اکبر فانی ہے۔‘‘پہلے دو جملوں کے بعد تیسرا جملہ منطقی طور پر اخذ ہوتا ہے جس سے مفر ممکن نہیں۔ یہاں آرا اور اختلاف کی قطعاً گنجائش نہیں ۔ کوئی یہ دلیل دے سکتا ہے کہ بینچ کے فیصلے کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہر جج اختلافی نوٹ کے ساتھ اپنی اپنی رائے کا اظہار کرے اور پھر اکثریتی فیصلہ ہی درست قرار پائے۔ جی ہاں یہ روٹین کی بات ہے اور چوری ڈاکے یا فیملی کیسز وغیرہ میں جج اپنی رائے یا اکثریت کے مطابق فیصلے کر سکتے ہیں مگر مجھے حیرت ہوتی ہے جب آئینی معاملات پر بھی فاضل جج صاحبان اختلاف کرتے ہیں ۔ بھئی جب آئین میں پارلیمنٹ کو قانون سازی کی اجازت ہے تو بس ہے۔ اس میں اختلاف کی کیا بات ہے؟ اداروں کے اختیارات کم یا زیادہ کرنا پارلیمنٹ کا اختیار ہے تو بس ہے، اس میں ٹکراؤ وغیرہ کی کیا ضرورت ہے؟پھر بھی اگر حالیہ فیصلے کی طرح اختلاف سامنے آئے تو مجھ جیسے تشکیک پسند کے ذہن میں چند بنیادی سوالات تو ضرور جنم لیں گے مثلاً یہ کہ کیا ہمارا آئین مبہم اور غیر واضح ہے؟ اس قدر فاضل مقام و مرتبہ پر بھی تفہیمی صلاحیت کی کمی رہ سکتی ہے؟ کیا قانون کی کوئی معروضی یعنی Objective حیثیت بھی ہوتی ہے ؟ یا محض جج کی رائے ہی قانون قرار پائے گی؟ چلیں فل بینچ کی صورت میں تو فیصلہ اکثریتی ہو گیا لیکن اگر الگ الگ 15 فاضل ججوں کے پاس الگ الگ 15سائلین کے مقدمات آ گئے تو پھر فیصلے... قسمت یا نصیب....!