کل میں اپنے بیٹے کے ساتھ بیٹھا ایک ٹاک شو (ٹی وی اسکرین پر) سن رہاتھا۔ ملکی حالات پر ماہرین سیاسیات و قانونیات اور ماہرین آندرپیٹیات (پنجای ترکیب۔ اردو میں آنت اور پیٹ وغیرہ) پاکستانی تاریخ کے گزشتہ ادوار کی گہرائیوں میں غوطے لگا لگا کر ہم جیسے ٹی وی اسکرین کے رسیا لوگوں کے شعور اورتحت الشعور کو متزلزل کر رہے ہیں۔ میں نے اپنے بیٹے سے کہا :بیٹا! میری تھکی ماندی گردن روز قیامت ان تمام ماہرین سے پچھلے ڈیڑھ سال کے بارے میں سوال کرے گی۔ میرا کیا قصور تھا؟
بیٹے نے جواب دیا ۔ ڈیڑھ سال کیوں؟ ٹی وی اسکرین کے سامنے ہماری گردنیں اسلام آباد دھرنے سے سفر (انگریزی والا) کرتی آرہی ہیں اور تاحال یہ گردنیں کسی منزل کی تلاش میں ہیں۔
میں نے اپنے بیٹے سے کہا ،اگر ہم برصغیر میں ڈرامے کی تاریخ کے نقوش کا تعین کریں تو ایک ہزار برس ق، م (قبل مسیح) کا زمانہ آنکھوں میں پھر جاتا ہے۔ سنسکرت کے ڈراما نگار شکنتلا کے خالق کالی داس سے شروع ہو کر ہندوستانی تھیٹر اور اردو تھیٹر کی تاریخ تک آجائیں کتنا تنوع اور ارتقا نظر آتا ہے۔ واجد علی شاہ کے ناٹک اور امانت لکھنو ی کی ’’اندرسبھا‘‘ کی عوامی مقبولیت نے اردو سٹیج ڈرامے کو کیسےترقی و تیزی عطا کی۔میرے بیٹے نے کہا آپ اردو کے اسٹیج ڈراموں کی تاریخ اور پاکستانی سیاست کی تاریخ کا ملغوبہ کیوں تیار کر رہے ہیں؟
بیٹے! میں نے وطن عزیز کی تاریخ میں جو اچانک موڑ اور موڑ در موڑ چوراہے اور بقول یوسفی شش و پنج راہے آتے دیکھے ہیں ۔ انہی موڑوں، چوراہوں اور شش و پنج راہوں کے پیش نظر میرا ذہن پاکستانی سیاست اور اردو کے اسٹیج ڈراموں کی تاریخ کی طرف چلا جاتا ہے۔
ابا جان! میںآپ کی اس بات کا تب قائل ہوں گا جب آپ پاکستان کے تازہ حالات و واقعات اور اردو ڈرامے کے حوالے سے مماثلت کی کوئی دلیل دیں۔
بھئی! یہ کونسی مشکل بات ہے؟ اردو ڈرامے کی تاریخ میں ’’آغا حشر‘‘ کا نام تو تم نے سنا ہوگا۔ میں ان کے ڈراموں کا تذکرہ نہیں کر رہا۔ ان کے نام ہی سے جو پاکستانی عوام سے مماثلت و مشابہت پائی جاتی ہے وہ کتنی بڑی دلیل ہے۔ پاکستانی عوام کا کیسا حشر ہوا ہے بلکہ بقول کسے کیا حشر نشر ہوا ہے۔ گزشتہ ماہ بجلی کے بلوں کے موضوع پر جو ڈرامائی تشکیل دی گئی اس سے مترشح ہوتا تھا کہ اس کے مصنف اور ڈائریکٹر کے ناموں میں ’’حشر‘‘ کا سابقہ یا لاحقہ ضرور ہوگا۔ جب سے بجلی کے بل دگنے، تگنے، چوگنے، ہزار گنے یا لاکھ گنے آئے ہیں ہر کوئی اپنی اپنی داستان حشر سنا رہا ہے۔ کوئی کہتا ہے میرا بل تیس ہزار آگیا ہے کوئی بتاتا ہے میرا پچاس ہزار آگیا ہے، کوئی روتا بسورتا کہتا میرا اسی ہزار، ایک لاکھ اور ڈیڑھ لاکھ روپے بل آگیا ہے۔ اگر بجلی کے موضوع پر ریلیز ہونے والے بلوں کے اس ڈرامے کی ہیروئن کا نام ’’بجلی‘‘ تھا اور ہیرو کا نام کرنٹ کھمبے والا تھا۔
اردو ڈرامے کے نقاد تو اردو ڈرامے پر تنقید کرتے آئے ہیں۔ مثلاً اردو میں معیاری ڈراموں کی کمی رہی ہے کوئی تنقید کی تلوار اس طرح لہراتا ہے کہ انگریزی ڈراموں کا معیار بہت ہی بلند ہے اور شیکسپیئر آج بھی ڈرامے کی دنیا کا بے تاج بادشاہ ہے ہم اردو کے پروفیسر زیادہ سے زیادہ ’’انار کلی‘‘کی وجہ سے ایک تاج، امتیاز علی تاج کے سر پر رکھ دیتے ہیں لیکن نقادوں کو ان کے ایک ڈرامے سے تسلی نہیں ہوتی وہ کسی دوسرے ڈرامے کی مثال مانگتے ہیں، کسی کو اردو ڈرامے کی زبان کی ثقالت پر اعتراض ہے اور بعض ناقدین اسٹیج کے تقاضوں اور اردو ڈرامے کے درمیان ایک طویل فاصلے کا تذکرہ کرتے ہیں۔
ہم اپنے ناقدین اور ٹی وی مذاکروں اور ٹاک شوز میں ڈراما اور گیت، سنگیت، لوک ناٹک اور کٹھ پتلیوں کی روایت کا تذکرہ بھی سنتے آئے ہیں۔ ہمارے ڈرامے کے حوالے سے ایک بات کا افسوس آج بھی ہے کہ عوامی دلچسپیوں سے وابستہ بہت سی اصناف کو احترام کا وہ درجہ حاصل نہ ہوا۔ دیکھیں ڈراما کے اداکاروں کیلئے قابل احترام اصطلاحات کی یہاں قلت رہی ہے۔ ناٹک یا نوٹنکی کے الفاظ بھی شرافت و نجابت سے بہت دور کا علاقہ رکھتے ہیں۔ بعینہ پاکستانی سیاست کے حوالے سے غور کریں تو یہاں بھی صورتحال خاصی گھمبیر دکھائی دیتی ہے۔
ہمارے ہاں ایک ادارہ ’’پارلیمنٹ‘‘ ہے اس میں جتنے لوگ بھی آتے ہیں انتخابا ت کے ذریعے آتے ہیں۔ یہ سب سیاست دان کہلاتے ہیں۔ سیاست دان اسمبلیوں میں بولتے ہیں۔ مسائل کی نشاندہی بھی کرتے ہیں۔بعض اوقات سیاسی پارٹیوں کے اراکین ایک دوسرے سے اختلاف بھی کرتے ہیں۔ سخت زبان بھی ٹی وی کے ذریعے عوام تک پہنچ جاتی ہے۔ جمہوریت آمریت کی ضد ہے بلکہ بعض اوقات جمہوریت جمہوریت کے پیچھے ہاتھ دھو کر اور دھرنا دے کر پڑجاتی ہے۔ اس سے زیادہ نقصان ہوتا ہے جس طرح ڈرامے کی بعض اصناف کو احترام و مقام نہیں ملا، اسی طرح ہمارے سیاسی کرداروں اور سیاسی لیڈروں کو بھی قدر کی نگاہوں سے نہیں دیکھا گیا۔
پارسی تھیٹر کے دور کی بات ہے کہ ایک ڈراما ’’خوب صورت بلا‘‘ ایسا مقبول ہوا کہ لوگ ایک روپے کا آٹا، آٹھ آنے میں فروخت کرکے ڈراما دیکھتے تھے۔گزشتہ برسوں میں ہمارے سیاسی اسٹیج پر ایسا ہی کوئی ڈراما ریلیزہوا ہے جو بہت بڑی بلا ہی تھی کہ بقول ایک سیاسی تجزیہ نگار سیاست میں جو سپیس (SPACE)تھوڑی بہت سیاست دانوں نے حاصل کی تھی وہ بھی ختم ہو کر رہ گئی۔ مخالف سیاہ کار، ظالم، چور، ڈاکو اور نہ جانے کیا کچھ۔ کبھی صلح جوئی، احترام، توقیر، رواداری، پیار و محبت ، ملکی ترقی کی سوچ، اتحاد و اتفاق کی بات ہونی چاہیے۔ اللہ تبارک تعالیٰ ہمارے ملک کو قائم دائم رکھے اور خوش حالی سے نوازے۔ (آمین)
خدا کرے کہ مری ارضِ پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہےبرسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو