• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حق وراثت محض دست برداری سے باطل نہیں ہوتا

تفہیم المسائل

سوال: ایک مُتوفّٰی شخص کے ورثاء میں ایک بیوہ، دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے ، ترکے میں ایک مکان ہے۔ دونوں بیٹے بیرونِ ملک مقیم ہیں ، والدہ کی خواہش اور دونوں بھائیوں کی باہمی رضامندی سے قانونی طور پر مکان بیٹی کے نام منتقل کردیا گیا ، دونوں بیٹوں نے 2015ء میں پاور آف اٹارنی کے ذریعے مکان نام کرانے کا اختیار دیا اور ان دونوں نے اپنا حصہ چھوڑ دیا اور والدہ بھی اپنے حق سے دستبردار ہوگئی ہیں، مکان بیٹی کے نام منتقل ہوگیا۔ والدہ 2017ء میں فوت ہوئیں۔ اب ایک بیٹے کا خیال ہے کہ اُن کا اپنے حصے چھوڑنا غیر شرعی ہے اور سب کو حصہ ملنا چاہیے ، شرعی حکم کیاہے ؟

جواب: فقہی اصول یہ ہے کہ وراثت کی ملکیت اختیاری نہیں ہوتی، بلکہ جبری ہوتی ہے ، لہٰذا محض دست برداری سے حقِ وراثت باطل نہیں ہوتا۔ علامہ زین الدین ابن نجیم حنفی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ انسان کی ملکیت میں اس کے اختیار کے بغیر کوئی شے داخل نہیں ہوتی ،مگر میراث بالاتفاق داخل ہوتی ہے‘‘ 

مزید لکھتے ہیں :ترجمہ:’’اگر وارث نے کہا : میں نے اپناحق چھوڑ دیا ہے ،تو اس کا حق باطل نہیں ہوگا کیونکہ مِلک چھوڑ دینے (یعنی محض د ست بردار ہونے) سے باطل نہیں ہوتا ،(الاشباہ والنظائر ، ص:340،309)‘‘ ۔ آپ کے سوال سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بیرونِ ملک مقیم بیٹوں نے سہولت کے لیے بیٹی کے نام پاور آف اٹارنی دی ، تاہم انھیں اپنے حصے وصول کرنے کا شرعی حق اب بھی حاصل ہے اور بہتر صورت یہی ہے کہ والدین کے ترکے سے بھائیوں کو اُن کا شرعی حق دے دیں ، واللہ اعلم بالصواب ۔