• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا نعمان نعیم

امت مسلمہ میں باہمی اخوت و محبت ،اتحاد و یگانگت اوران کے مابین وحدت و اتحاد ایک ایسی ضرورت ہے جس کی طرف اسلام باربار دعوت دیتا ہے اور تاکید کرتا ہے کہ جس امت کادین ایک، دینی شعائر ایک، شریعت و قانون ایک، منزل ایک اور اللہ و رسولﷺ ایک ہو، اسے بہرحال خود بھی ایک ہونا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک نے جہاں امت کو ایک ہوکر اللہ کی رسی کومضبوطی سے تھامنے کی تاکید کی ہے اور افتراق و انتشار سے روکا ہے، وہاں خطاب واحد کے بجائے جمع کے صیغوں سے کیا ہے۔ 

اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہر فرد جزو امت ہے ،وہ کسی صورت میں امت سے جدا نہیں ہوسکتا۔ وحدت امت کی فضیلت، اہمیت اور ضرورت کی اس سے بڑی دلیل اور کیاہوسکتی ہے کہ شریعت نے امت کو دن میں پانچ بار جمع ہوکر نماز قائم کرنے کاحکم دیا، پھر ہفتے میں ایک بار اس سے بڑے اجتماع کے لئے جمعہ کو فرض قرار دیا اور پھر نماز عید کی شکل میں سالانہ اجتماع کا اہتمام کیا اور تاکید کی کہ یہ اجتماع آبادی سے نکل کر کھلے میدان میں منعقد ہو اور مردوں کے ساتھ عورتوں کو بھی اس میں شرکت کی ترغیب دی، پھر اس سے بڑا اہتمام یہ کیاکہ فرضیت حج کے ذریعے مشرق و مغرب، جنوب شمال اور دنیا کے اطراف و اکناف میں بسنے والی امت کو ایک مرکز پر جمع ہونے، ایک ہی جیسے لباس میں جمع ہونے، ایک ہی کلمہ ادا کرنے اور ایک ہی جیسے افعال ادا کرنے کا حکم فرمایا۔ انفرادی عبادت کے مقابلے میں اجتماعی عبادت کی جو اہمیت ہے، اس میں من جملہ دوسری باتوں کے امت کے اتحاد کا نکتہ بھی شامل ہے۔

آج ہم امت مسلمہ کی زبوں حالی اور کسمپرسی پر نگاہ دوڑائیں اور اس ذلت و رسوائی کے اسباب و عوامل پر غور کریں تو بدقسمتی سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ امت اپنے اصل منہج سے دور ہو گئی ہے ‘جس کی وجہ سے رب کی رحمتیں ہم سے دور ہو گئی ہیں۔ تاریخ اسلام کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک اہل سلام فکری و نظریاتی بنیادوں پر استوار رہے، دنیاوی ترقی و عروج ان کا مقدر ٹھہرے ‘ لیکن جب اسلام کی نظریاتی اساس یعنی قرآن و حدیث سے رو گردانی کی گئی اور من چاہے افکار و نظریات پر مبنی فرقہ وارانہ سوچ کو پروان چڑھایا گیا تو وحدت امت پارہ پارہ ہوتی چلی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دین اسلام جو ایک اللہ اور ایک رسول ﷺ کے فرامین پر مبنی ایک امت کا تصور لئے ہوئے تھا ،بٹواروں کا شکار ہوتا چلا گیا اور مختلف اسلام دشمن قوتوں کی رخنہ اندازیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا جو آج تک جاری ہے۔

حالانکہ دین ابتداء سے ایک تھا آج بھی ایک ہے اور قیامت تک ایک ہی رہے گا۔ جیساکہ فرمان رب العالمین ہے : بے شک، اللہ کے نزدیک پسندیدہ دین تو اسلام ہی ہے۔ اب قیامت تک یہی دین اسلام جو قرآن و حدیث پرمشتمل ہے ،اللہ کی بارگاہ میں شرف قبولیت کا حامل ہے۔ اب امت مسلمہ کو اسی اصول پر کارفرما رہنا ہے۔ دین کامل و اکمل ہے اور اس میں کسی قسم کے ردوبدل کی گنجائش نہیں ہے۔ جیسا کہ خود خالق کائنات نے تکمیل دین کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا: آج کے دن ہم نے تمہارے لئے دین کو مکمل کر دیا او رتم پر اپنی نعمت تمام کردی اور اسلام کو بطور دین تمہارے لئے پسند فرمایا ۔(سورۃ المائدہ )

گویا سرور عالم ﷺکی حیاتِ طیبہ میں دین مکمل ہو گیا اور ہدایت کی تکمیل ہوگئی اور اس دین یعنی قرآن و سنت کو اللہ نے امت مسلمہ کے لیے نعمتِ غیر مترقبہ قرار دیا یعنی اس سامان ہدایت سے قبل تم ضلالت و گمراہی میں تھے اور انتشار و افتراق کا شکار تھے کہ اسلام کی نعمت تمہارے خالق نے عطا فرمائی اور یہ ہر لحاظ سے کامل و اکمل دین تمہیں عطا فرمادیا اور اس کی پسندیدگی بھی وہیں تک ہے، جہاں تکمیل ہوئی۔ اب اگر ہم اس میں اضافہ و ترمیم کریں تو گویا وہ نعمت ابھی تمام نہیں ہوئی اور نہ ہی رسالت کا حق ادا ہوا، بلکہ خاکم بدہن ہم اس دین میں کمی بیشی کر کے اس کی تکمیل کر رہے ہیں اورآئے دن نت نئے مسائل کھڑے کر کے وحدت امت کو پارہ پارہ کر رہے ہیں۔

یاد رکھیے آج بھی اسلام اور اہل اسلام تمام کفریہ طاقتوں کا ہدف اول ہیں اور وہ ہمیں فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کر کے ایک تیر سے دو شکار چاہتے ہیں، ایک طرف تو وہ ہمیں کمزور کرنا چاہتے ہیں، تاکہ ہماری قوت ومزاحمت دم توڑ جائے اور وہ من مانی پالیسیوں کے ذریعے ہم پر براجمان رہ سکیں۔دوسری طرف اسلام کو دہشت گردی و بربریت کا لیبل لگا کر بدنام کرنا چاہتے ہیں۔ آج اسلام جس تیزی سے مقبول ہو رہا ہے، ماضی میں کبھی نہیں ہوا۔ 

اسی لئے ان کی پوری توجہ ہماری طرف ہے اور انہوں نے ہمارے اندر فرقہ وارانہ اور علاقائی تعصبات کے علاوہ دیگر فتنے بھی پیدا کرنے کی کوششیں کیں۔ضرورت ہے کہ ہم ہر طرح کے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خالص قرآن و سنت کی بنیاد پر اتحاد و یکجہتی اختیار کریں ۔ یاد رکھیے سرورِ عالم ﷺ نے ایک کلمہ گو مسلمان کی عزت و حرمت بیت اللہ سے بھی زیادہ قرار دی ہے۔

اسلام دین فطرت اور کامل ترین ضابطۂ حیات ہے، اسلامی تعلیمات اوراس کے قوانین تمام شعبۂ حیات کا بخوبی احاطہ کرتے ہیں اور زندگی کے ہر رخ، ہر پہلو، ہر شعبے میں انفرادی و اجتماعی، قومی و بین الاقوامی ہر سطح پر کامل رہنمائی کرتے ہیں۔ دین اسلام اہل ایمان کو احترام آدمیت اور تکریم انسانیت بالخصوص جان مسلم کے تقدس کا درس دیتے ہوئے اس کی لازوال قدر و قیمت کی جانب توجہ مبذول کراتا اور یہ احساس دلاتا ہے کہ دین کے مقدس ترین رشتے کی بناء پر مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔

رحمۃ للعالمینﷺ کا فرمان ہے:اے رب! میں (محمدﷺ) گواہی دیتا ہوں کہ تمام انسان بھائی بھائی ہیں۔(مسندابودائود)آپﷺ نے فرمایا:اللہ رب العزت اس پر رحم نہیں فرماتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔ (مسلم، ترمذی)

ہم اس رسول ﷺ کے امتی ہیں جو تمام جہانوں کے لئے رحمت ہیں۔ جن کی رحمت اور محبت اپنے اور غیروں سب کے لئے ہے۔ آپ ﷺکے لائے ہوئے نظام کا مقصدصرف اپنی فلاح اور مسلمانوں ہی کی بہبود نہیں تھا، بلکہ اس کا مقصدانسانیت کی فلاح اور ترقی تھا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اسوۂ نبوی ﷺکی پیروی میں دنیا و آخرت کی بہبود مضمر ہے، یہی وہ راستہ ہے،جسے اپنا کر ہم دین و دنیا میں سرخ رو ہو سکتے ہیں۔ میانہ روی ، فلاح عامہ، احترام ِ انسانیت، باہمی رواداری اور تحمل و برداشت سیرتِ طیبہ کے نمایاں پہلو ہیں۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم سیرتِ نبویؐ کو اپناتے ہوئے اپنے مذہبی اور معاشرتی فرائض بجا لائیں اور دنیا میں امن و سلامتی اور اخوت کا پیغام عام کردیں، تا کہ یہ دنیا امن وسلامتی کا گہوارہ بن جائے۔

ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور اللہ عزّوجل سب سے زیادہ محبت اس سے کرتا ہے جو اس کی عیال کو سب سے زیادہ محبوب رکھتا ہے۔(بیہقی)

آپﷺ نے ارشاد فرمایا: مخلوق پر رحم کرنے والوں پر رحمٰن رحم کرتا ہے،جو زمین پر رہتے ہیں ،تم ان پر رحم کرو جو آسمانوں میں رہتا ہے وہ تم پر رحم کرے گا۔ (ابو دائود، ترمذی)ارشاد نبویﷺ ہے:تم ایسا پاؤ گے ایمان والوں کو آپس میں رحم کرنے،محبت کرنے، ایک دوسرے کی تکلیف کا احساس کرنے میں جیسے ایک جسم کا کوئی حصہ بھی تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو انسان اپنے سارے جسم میں تکلیف محسوس کرتا ہے۔ (بخاری، مسلم، ترمذی)

سب مومن جسدِ واحد کی طرح ہیں کہ اگر دکھتی ہے ایک آنکھ، تو دکھتا ہے سارا جسم! اور اگر دکھتا ہے سر تو دکھتا ہے تمام جسم۔ (صحیح مسلم)حضور اکرمﷺ نے تمام مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند قرار دیا ۔مسلمانوں کی بقاء اور سربلندی باہمی اتفاق اور مفاہمتی حکمت عملی میں مضمر ہے ۔ مسلمانوں میں مفاہمت کرانا عبادت سے بھی افضل عمل بتایا گیا ہے ۔مومن، دوسرے مومن کا بھائی ہے۔

مومن، مومن کے ساتھ خیانت نہیں کرتا، ظلم نہیں کرتا، جھوٹا وعدہ نہیں کرتا، اس کی کسی جائز خواہش کو رد نہیں کرتا۔ مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم نہیں کرتا، اس کی مدد نہیں چھوڑتا اور نہ ہی اسے حقیر جانتا ہے۔ تقویٰ اس جگہ ہے (یہ فرما کر آپﷺ نے اپنے سینہ مبارک کی جانب اشارہ کیا ،پھرتین مرتبہ پھر فرمایا) انسان کے لیے اتنی ہی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے بھائی کو حقیر سمجھے۔ مسلمان کے لیے مسلمان کی ہر چیز حرام ہے۔ اس کا خون بھی، اس کا مال بھی اور اس کی آبرو بھی۔ (صحیح مسلم)

آپﷺ نے ارشاد فرمایا:(سچا) مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان سلامت رہے۔ (بخاری و مسلم) مسلمان، مسلمان کا آئینہ ہے۔ مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے ،وہ اس سے ایسی چیز دور کرتا ہے جس میں اس کی ہلاکت ہے اور اس کی غائبانہ حفاظت کرتا ہے۔(ترمذی و ابودائود)

مومن، الفت کا محل ہے اور اس شخص میں کوئی خوبی نہیں، جو الفت نہیں کرتا اور اس سے الفت نہیں کی جاتی۔ (بیہقی) اللہ عزوجل فرماتا ہے جو میری رضا کی خاطر آپس میں محبت کرتے ہیں، ان کے لیے نور کے منبر ہوں گے۔ ’’انبیائے کرامؑ اور شہداؒ ان پر رشک کریں گے (ترمذی)

اسلامی تعلیمات کا پڑھنا باعثِ سعادت،اس کا سمجھنا باعثِ ہدایت اور اس پر عمل پیرا ہونا باعثِ نجات ہے۔ آئیے معاشرے میں اسمِ محمدﷺ سے اجالا کرکے ظلمت و جاہلیت کے اندھیروں کا صفایا کریں اور معاشرے کو گل و گلزار بنائیں، اپنا محاسبہ کریں اور اپنی نجات و شفاعت کا سامان پیدا کریں کہ آج وطن عزیز اور پوری امت مسلمہ کو امن وسلامتی اور اخوت و بھائی چارے کی اشد ضرورت ہے۔